طلبہ اجتماع....ایک قابل تقلید کوشش

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں تنظیمی سرگرمیوں کے نام پر طلباءکو تعلیم سے محروم کرنے ،باہم دست وگریباں کرنے ،آوارگی سکھانے کا جوسلسلہ ہے اس کے نتیجے میں ہمارے عصری تعلیمی اداروں کے طلباءکے والدین ہر وقت تشویش میں مبتلاءرہتے ہیں بعض تنظیموں کے استثناءکے ساتھ اکثر طلباءتنظیمیں جواں سال طلباءکو مارکٹائی کے گر سکھاتی ہیں ،انہیں اسلام سے برگشتہ کرتی ہیں ،انہیں سیاست کے گندے کھیل میں رگیدتی ہیں ،انہیں حب الوطنی سے محروم کر کے کبھی علاقائیت ،کبھی لسانیت اور کبھی براردی کی تقسیم وتفریق سے دوچار کرتی ہیں ۔ ایسے طلباءکے والدین اکثر فکر مندی اور پریشانی کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں ۔کبھی تنظیمی لڑائی جھگڑے ،کبھی باہمی محاذ آرائی ،کبھی اپنے قائدین اور لیڈروں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے کی مجبوری اور کبھی پرائی لڑائی کا ایندھن بننے کا خدشہ.... ایسے میںعموماً تعلیمی اداروں میں دو طرح کے آپشن زیر غور آتے ہیں ۔کچھ والدین ،ماہرین تعلیم اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داراں قطعی طور پر تنظیمی سرگرمیوں پر پابندی کا تقاضہ کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور اس عمر میں کوئی قدغن ،کوئی پابندی اور کوئی روک ٹوک قبول نہیں کی جاسکتی سو نوجوانوں کو کھلی چھوٹ دے دینی چاہیے ہماری دانست میں ان دونوں قسم کے زاویہ نگاہ سے فوائد کے بجائے نقصانات اور بہتری کے بجائے ابتری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کھلی چھوٹ دینے کے نقصانات وعواقب تو کسی سے مخفی نہیں جہاں تک پابندی کا تعلق ہے ۔پابندی کا یہ تقاضہ فلسفہ اور مطالبے کی حد تک تو بہت اپیل کرنے والا ہے لیکن عملی طور پر شاید زیادہ قابل عمل نہیں اور نہ ہی زمینی حقائق سے میل کھانے والا ہے ۔اگر طلباءپر مکمل طور پر قدغن لگا دی جائے ،انہیں کسی قسم کی ہم نصابی سرگرمیوں اور مثبت تنظیمی نظم کا حصہ نہ بننے دیا جائے تو اس کے نتیجے میںسب سے بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہوتا ہے کہ طلباءکی بہت سی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں ۔ان میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی ، ان کی قائدانہ اور انتظامی صلاحیتیں اجاگر نہیں ہو سکتیں ،ان کی شخصیت میں مقصدیت پیدا نہیں ہو پاتی اور یوں ایسے طلباءجب عملی میدان میں نکلتے ہیں تو وہ بہت ذہین ،فطین اور قابل وباصلاحیت ہونے کے باوجود عملی زندگی کے نشیب وفراز ،حالات کی نزاکتوں ،لوگوں کے مزاج اور رویوں کی باریکیوں ،ٹیم ورک اور زندگی کے بہت سے تلخ حقائق سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔ پابندی کے سب سے خطرناک ”سائیڈایفیکٹس “ان نوجوان کو بے راہ روی ،گمراہی اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں کیونکہ زمانہ تعلیم ایک ایسا وقت ہو تا ہے جب آدمی کی طبیعت میں سیمابی اور مزاج میں طغیانی ہوتی ہے ،کچھ کر گزرنے کا جذبہ انسان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا ۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ طلباءکومثبت اور مفید سرگرمیوں کا کوئی پلیٹ فارم ضرور مہیا کیا جائے اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کا پلیٹ فارم دینی اور عصری دونوں طرح کے اداروں کے طلباءکے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ،ایک ایسا نظم ،ایک ایسی سرگرمی ہے جس سے دنیا وآخرت کے بہت سے منافع حاص لیے جا سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ فریدیہ ویلفئر ٹرسٹ ایک ایسی مثالی کوشش ہے جو طلباءمیں نظم وضبط ،خدمت خلق کا جذبہ ،باہمی تعاون وتناصر کی فضاء،قائدانہ صلاحیتیں ،انسانیت کا درد وغم اور بہت کچھ عطا کرتی ہے جبکہ مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی مذہب پسند اور محب وطن تنظیمیں بھی جواں سال طلبہ کے لیے ایسے پلیٹ فارم ہیں جنہیں روایتی طلباءتنظیموں کی صف میں نہیں کھڑ ا کیا جا سکتا ۔

مجھے ذاتی طور پر مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کنونشز،سیمینارز اور اجتماعات میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ایم ایس او ایک ایسی تنظیم ہے جو طلباءمیں اسلام پسندی اور حب الوطنی کو رواج دینے کی ایک قابل تحسین کوشش ہے ۔ایم ایس او محض ایک طلباءتنظیم نہیں بلکہ ایک درسگاہ ہے جہاں تعلیم بھی ہے اور تربیت بھی ،جہاں دین بھی ہے اور دنیا بھی ۔ ویسے تو ایم ایس او میں جو نظم وضبط اور ڈسپلن کی پابندی ہے ،ایم ایس اوکے پلیٹ فارم پر سرگرم عمل طلباءکا کردار ،صلاحیتیں ،خو ش اخلاقی اور ملنساری دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔گزشتہ سال مری میں ایم ایس او کے مرکزی کنونشن جانا ہو ا۔وہاں پورے پاکستان سے ایم ایس او کے عہدیداران موجود تھے ۔ان میں انتخاب اور احتساب کا عمل دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔اگر ہماری تمام تنظیموں صرف طلباءتنظیموں ہی نہیں بلکہ عام تنظیموں میں بھی احتساب کی یہ روایت زندہ ہو جائے تو بہت سی خرابیوں اور مسائل ومشکلات سے نجات پائی جا سکتی ہے ۔ان دنوں ایم ایس او کے عہدیداران اور کارکنان طلبہ اجتماع کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں ۔قومی منظر نامے پر اور کنونشن سنٹر جیسی جگہ پر اسلام پسند اور محب وطن طلباءکایہ اجتماع ایک ایسی کوشش ہے جس کا تصور کرکے کہ انسان میں سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔اس طلباءاجتماع کے بعض امتیازات ایسے ہیں جو قابل ذکر بھی ہیں اور قابل تقلید بھی ۔سب سے پہلی کوشش تو یہ کہ ایم ایس او میں دینی اور عصری اداروں کے طلباءکے مابین دوریاں ختم کرنے کی جو کوشش ہے اور ایم ایس او کی ٹیم میں دونوں اداروں کے طلباءکا جو امتزاج ہے اسے دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم ایس او جیسی دیگر اسلام پسنداور محب وطن تنظیمیں عصری تعلیمی اداروں کو اپنی توجہات کا مرکز بنائیں کیونکہ دینی مدارس میں تعلیم وتربیت ،خدا خوفی اور فکر آخرت کا جو درس اساتذہ اور ادارے کی طرف سے دیاجاتا ہے عصری تعلیمی اداروں میں اس کمی کو ایم ایس او ایسی تنظیمیں ہی پوری کر سکتی ہیں ۔اس اجتماع کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام دینی ،مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی سرکردہ شخصیات کو دعوت دی گئی ہے بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو بہت اہتمام کے ساتھ دعوت دی گئی ہے۔چونکہ ہمارے ہاں یہ تاثر ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو صرف جے ٹی آئی ،محترم منور حسن کو اسلامی جمعیت طلباءہی مدعو کرسکتی ہے اور کسی کی طرف سے ایسی روایت نہیں اس لیے اسے ایک بہت ہی قابل تقلید کوشش قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس اجتماع کے انعقاد کے فیصلے کے بعد ایم ایس او کے وفود نے ملک کے تمام اکابر اور جید علماءکرام سے رابطوں ،ملاقاتوں اور مشاورت کا جو اہتمام کیا وہ بھی آج کے دور کے نوجوانوں کے لیے بہت اہم امر ہے کیونکہ آج کے دور میں بغاوت ،خود سری اور اکابر سے بیزاری اور گستاخی کا جو ماحول پروان چڑھایا جا رہا ہے ایسے میں اگر اس قوم کے نوجوان اپنے اکابر کے مشورے سے چلنے کی عادت اپنا لیں تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اور اس اجتماع کی سب سے امتیازی خصوصیت اس میں عالمی اسلام کی معروف درسگاہوں جامعہ ام القریٰ ، جامعہ مدینہ منورہ اورجامعہ ازھر جیسے اداروں کے شیوخ تشریف لا رہے ہیں یہ ایک ایسا اعزاز ہے ۔ایک ایسی کوشش ہے جس کے لیے اگرچہ ایم ایس او کے ذمہ داران کو بہت جتن کرنا پڑے لیکن اس کے انشااللہ بہت دوررس اثرات مرتب ہوں گے....کنونشن سنٹر اسلام آباد میں اجتماع کاا نعقاد بلاشبہ ایک بھاری پتھر ہے جسے ایم ایس او نے اٹھانے کی کوشش کی اللہ ایم ایس او کے نوجوانوں کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔آمین
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.