تحریر محمد یعقوب
زندگی جب منتوں سے نکلتی ہے تو وحشت بن جاتی ہے مگر وہ لوگ جو اس بپھرے
ہوئے گھوڑے کو لگام ڈالنا جانتے ہوں وہ اپنی اور دوسروں کی حرمت کے
علمبردار بن کر اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں ۔ ٹیچر ایجوکیٹر
اور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹرز وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمام حکومتی پالیسیوں کو
ایسا حقیقت کا روپ دیا کہ آج ہم اس کا ثمر محسوس کر رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ علم کے یہ سپاہی غلاموں کی طرح پابند سلاسل ہیں ؟
2007 میں ڈی ایس ڈی کے ایوانوں میں ایک خواب دیکھا گیا کہ تعلیم کی اصل
بنیادپرائمری اساتذہ نے رکھنا ہوتی ہے اس لیے پرائمری سکول اساتذہ کی تربیت
کی جائے اور ان کو اس مقام پر لایا جائے کہ جس سے وہ قوم کو درست سمت دے
سکیں ۔ وزیر اعلیٰ نے بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے اس سوچ کو سراہا اور خواب
کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس پر تیزی سے کام ہو نے لگا مگر ایک سوال ضرور
سامنے رہا کہ یہ اہم ذمہ داری کس کو دی جائے ؟ انتہائی غوروخوض کے بعد ٹیچر
ایجوکیٹرز اور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹرز پر نظر انتخاب ٹھہری۔
ان کے اس کام اور اس کی اہمیت کو جاننے سے پہلے فطرت کے سنہری اصولوں کو
جاننا ضروری ہے ۔ جب حق مانگنا بغاوت، شرافت جرم اور دیانت بے وقوفی بن
جائے ، زنجیر عدل ہلانے واپرہاتھ کاٹ دینے کا حکم صادر ہو۔ وفا ، محنت اور
وارفتگی رایک گالی بن جائے تو پھر ہاتھ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اور
نافرمان کہلاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں مفاد پرستی اور ظلم کی آندھی ارباب
اختیار کو اس قدر اندھا کر دیتی ہے کہ وہ جس شاخ پر بیتھے ہوں اسی کو کاٹنا
شروع کر دیتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ شاخ ہی کمزور تھی۔ ایسے میں کہنا
پڑتا ہے :
یہ کیا ہوا تیری دنیا کو اے خدائے کریم
کہ زندہ لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
جب ڈی ایس ڈی کے ایوانوں میں یہ چرچا تھا کہ ٹی ای اور ڈی ٹی ای کو یہ ذمہ
داری دی جائے تو کہا جاتا رہا کہ شاید یہ کوئی تاریخی غلطی ہو رہی ہے اور
شاید ایسے لوگ نہ مل سکیں جو اس ذمہ داری کے اہل ہوں ۔اس کام کے لیے خاص
قانون سازی کی ضرورت تھی ۔ ٹیچر ایجوکیٹر کے لیے مندرجہ ذیل مراعات اور
مستقبل کی حفاظت کی نشاندہی کی گئی اور انہیں بتایا اور دکھایا گیا :
۱: آپ کی سیٹ تو ریگولر ہے لیکن اپائنٹمنٹ کنٹریکٹ پر ہے اور جوں ہی حکومتی
پالیسی باقی ملازمین کو کو مستقل کرے گی تو آپ لوگ بھی مستقل ہو جائیں گے ۔
۲: آپ کو گریڈ17 سے زیادہ معیار پر لیا گیا ہے اورآپ کو منتخب کر کےاس گریڈ
سے زیادہ تنخواہ دی جائے گی اور جوں جوں اس گریڈ کی تنخواہ بڑھے گی تو آپ
کی تنخواہ اسی طرح بڑھتی جائے گی ۔
You will be governed by such rules/regulations/policy instructions, as
applicable to pay-package/ contractual emplyees in attached departments
of the Punjab government, issued by the government from time to time.
(آفر لیٹر پیرا۔ XX )
۳: آپ ڈی ایس ڈی کے ملازم ہیں اور آگے آپ کو ڈی ٹی ایس سی پر پوسٹ کیا جا
رہا ہے جو کہ منی ڈی ایس ڈی ہے ۔
Consequenquent upon recommendations of the Recruitment Committee for
your appointment as Teacher Educator on Contract basis in Directorate of
Staff Development, Punjab at District Training & Support Centre (DTSC)
(آفر لیٹر پیرا۔ ۲ )
۴: جو اشتہار دیا گیا اس میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ ڈی ایس ڈی کی
ازسرنو تشکیل کرنا ہے۔ اس میں کسی پروگرام کا تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی
سلیکشن کے بعد کبھی پروگرام کی بات کی گئی بلکہ ہمیشہ اس کے مستقل ہونے کا
یقین دلایا گیا نہ صرد عام لوگوں کی طرف سے بلکہ اس وقت کے سپیشل سیکرٹری
تعلیم نے بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی ۔
(بحوالہ اشتہار برائے درخواست ملازمت )
۵: آپ اپنی رضا مندی بھی ڈی ایس ڈی بھجوائیں گے کہ آپ یہ پیشکش قبول کرتے
ہیں یا نہیں ۔
In case the aforementioned terms and conditions are acceptable to you,
you are advised to convey your acceptance in person or through courier
service to the undersigned (Zahir Rashid Assistant Director Admn of
DSD).
۶: نہ صرف یہ بلکہ محترمہ ڈاکٹر رخسانہ ضیاء( پروگرام ڈائریکٹر ) اور اس
وقت کے سپیشل سیکرٹری ایجوکیشن کیپٹن زاہد سعید اور وزیر تعلیم نے بھی یہ
اعلان کیا کہ آپ کی پوسٹ مستقل ہے ۔
یہ سب کچھ نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ اس کو پروگرام بنانے کا کوئی پروگرام
تھا مگر جب ہم نے اپنے کام کی نوعیت اور ان کے وعدوں کی یادہانی کرائی تو
معلوم ہوا کہ ہم ایک پروگرام کا حصہ ہیں اور وہ بھی ایسے پروگرام کا حصہ جس
کا نہ خود ڈی ایس ڈی کو معلو م ہے اور نہ ہی ہم کو کچھ پتہ۔ جو پروگرام
ہمارے سامنے رکھا گیا اس کا نام سی پی ڈی بتایا گیا، اور ڈائریکٹر سے
پروگرام ڈائریکٹر بن گیا۔ تب احساس ہوا کہ کہ ہم کو بند گلی میں دھکیلاگیا
ہے۔
ہم اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا چکے تھے۔ 35 سال کی عمر میں اس نوکری پر آنے
والے اب قانونی موت مر چکے ہیں۔ سابقہ نوکریوں کو چھوڑنے کا غم، مستقبل میں
اندھیرا، حال میں بے حالی، حد سے زیادہ کام اور تنخواہ پہ جمود کیا کبھی
تعلیم و تربیت کا دعویٰ کرنے والوں نے کسی کو اتنا بڑا بھی دھوکا دیا ہے؟
جب ان امور پر سوال کیا تو دھمکیاں دے کر زباں بندی کا حکم ملا۔ جب کوئی
پرسان حال نہ ہوا اور ایسے دھتکارا گیا جیسے کہ ہم بھکاری ہوں تو پھر ہم
سراپا احتجاج ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی مختلف طریقوں سے دھمکیاں دی
جا رہی ہیں اور وہ ڈی ٹی ایس سی ہیڈز جنہیں آج تک معلوم ہی نہ تھا کہ ڈی
ایس ڈی ہوتا کیا ہے ؟ آج ہمیں ایسے احکامات دینے لگے جن کا نہ کوئی سر ہے
اور نہ پیر۔آخر وہ کون سا راز ہے جو ہم سے چھپایا جا رہا ہے؟ وہ کون سی
ذاتی مفاد کی سولی ہے جس پر ہمیں لٹکایا جا رہا ہے ؟اور وہ کون سا ناکردہ
گناہ ہے جس کی ہمیں سزا دی جا رہی ہے؟
آخر ہمیں بھی تو معلوم ہوکہ وہ کون سا خواب ہے جو انہوں نے دیکھا ہو اور ہم
نے اس کی تعبیر نہ دی ہو ؟ بغیر کلرک کے ہر خط کا جواب دیا، بغیر ڈیٹا
انٹری آپریٹر کے ڈی ٹی ایس سی کو ڈسٹرکٹ کا بہترین ڈیٹا سنٹر بنا دیا،بغیر
ڈرائیورکے گاڑی چلائی، بغیر پٹرول کے وزٹ کیں،بغیر معاوضہ کے ٹریننگ
کروائیں،ہر روز بدلتی رپورٹنگ لائن کو ڈی ٹی ای تک پہنچایا، ہر آزمائش میں
پورے اترے۔ ایک انسان سے بھلا اور کیا پرفارمنس چاہتے ہیں ؟ اور جب ۵سال کے
بعد حق مانگا تو پھر سے ظلم کے طوفان کھڑے کر رہے ہیں۔ وہ ڈی ٹی ایس سی
ہیڈز کہ جن کے ساتھ پانچ سال میں کبھی اختلاف نہیں ہوا اب پھر سے ایک خلا
پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے آخر کیوں؟
کیا یہ بھول گئے ہیں کہ:
اس دیس میں لگتا ہے کہ عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
ہم خاک نشینوں سے کیوں کرتے ہو نفرت
کیا پردہ نشینوں میں غلاظت نہیں ہوتی
ہر شخص یہاں سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
ظلم کی یہ داستان یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا سلسلہ ڈی ٹی ای تک بھی
پوری ہولناکی کے ساتھ بڑھا۔ ان کے ساتھ کچھ یوں ہوا:
۱۔ تم لوگ اس وقت پاکستان کے بہترین ایجوکیٹر ہو اور تم پر ایک اہم ذمہ
داری ہے – تمہارا انتخاب باضابطہ انٹرویو اور سلیکشن کے کڑے مراحل سے گزار
کر کیا گیا ہے۔
۲۔ چونکہ اس وقت بہترین لوگوں کی ضرورت تھی اس لیے ان کے لیے مستقبل کی
یقین دہانی بھی ضروری تھی اس لیے ان کو یہ کہا گیا کہ تم لوگوں کو گریڈ 16
دیا جائے گا جو کہ آپ کے کام کے مطابق ہے۔ تمہیں الگ کیڈر دیا جائے گا،
تمھارا الگ سے سروس سٹرکچر ہو گا۔
(بحوالہ ڈی ٹی ای گائیڈ)
۳- آج تم کو 4500 روپے دیے جا رہے ہیں جو کہ وقت کے ساتھ بڑھا دیے جائیں
گے۔(اس وقت پٹرول 40 روپے فی لٹر تھا اور اب 105 روپے)
ڈی ٹی ای نے کیا نہیں کیا ؟ استادوں کی جھڑکیاں کھائیں، ان سکولوں میں گئے
جن میں آج تک خود ایڈمنسٹریشن والے نہ گئے تھے، ماہوار بچوں کے پرچے لیے
اور اپنی جیب سے خرچہ کیا، استاد کی تربیت کی، اس کی منت کی کہ وہ بدلتی
رتوں کا ساتھ دے، اس کو بدلتی تعلیمی سوچوں میں ڈھالا، اس کے لاتعداد
سوالوں کے جواب دیے اور اس کو قائل کیا اور پھر پنجاب تعلیمی ترقی پر چل
نکلا، وزیر اعلیٰ کے ہر خواب کو حقیقت میں بدلا- ڈی ایس ڈی ہمیشہ اس کی
تعریف کرتا رہا اور اس کو اپنا سب سے لاڈلا بچہ سمجھتا رہا مگر پھر یکدم یہ
بچہ بے ادب اور گستاخ قرار دے دیا گیا جب اس نے دودھ مانگاکیوں کہ اب اسے
بھوک لگی تھی ،بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ماں اس بات پر ناراض ہو کہ بچہ
بھوک سے رو کیوں رہا ہے؟ ڈی ایس ڈی کے ارباب اختیار کو دکھ اور غصہ اس بات
کا ہے کہ اب ان کے بچے ان سے اپنا حق مانگنے لگے تھے۔ ان سے کیے گئے وعدے
یاد دلا رہے تھے مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے مفاد پرستی اور خود ساختہ انا نے
قوت سماعت کو مفقود کر دیا ہے یا پھر وہ یہ سننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
ہم نے کون کون سا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ؟ آرپی ایم سے اے پی ڈی اور پی ڈی
سے سیکریٹری ایجوکیشن تک کبھی انفرادی اور کبھی وفد کی صورت میں ہر جگہ پر
ہماری فرائض کی بجا آوری کو سراہا گیا مگر حق کی بات سننے سے انکار کر دیا
گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کہا جانے لگا نوکریاں چھوڑ دو اور گھر چلے جاﺅ۔
ہمیں بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ اور لوگ مل جائیں گے کیونکہ وہ ہمارا گھر تو
پہلے ہی جلا چکے تھے-
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟
ہم اس قوم کے فرد ہیں جس نے فرات کے کناروں کو درس سچائی دیا، جس نے کشتیاں
جلا کر حق کا بھرم نبھایا، جس نے پتھروں کو دعاؤں سے موم کیا، جس نے بی آر
بی کے کناروں کو سرخرو کیا جو آج بھی وحدانیت کی مثال ہے۔آج ہم متحد ہیں اس
لیے کہ ہم اپنا حق چاہتے ہیں، ان وعدوں کا عملی مظاہرہ چاہتے ہیں جو ہم سے
اپنی ضرورت کے تحت کیے گئے۔ہم نے استادوں کے استاد ہونے کا عہد نبھا دیا۔اب
ان ناخداو ¿ں سے اپنے مستقبل کی نیا کا کنارہ مانگتے ہیں۔
ہم ڈی ایس ڈی کے ایوانوں ، سیکرٹری ایجوکیشن ، حکومت پنجاب اور ہر اس فرد
سے جو خود کو پاکستان کا وفادار سمجھتا اور قوم کا درد رکھتا ہے ، سے گذارش
کرتے ہیں کہ ذاتی مفاد کی آڑ میں اس قوم کے ساتھ مزید تجربات سے گریز کریں
اور ہمارے جائز مطالبات کو تسلیم کریں جو صرف اتنے سے ہیں کہ اپنے وعدوں کو
پورا کریں۔
ابھی ہماری امیدوں کا مرکز و محور جناب اے۔پی۔ڈی (سید بلال حیدر )ہیں جنہوں
نے ہم سے پھر وعدے کیے ہیں اور خدا سے دعا ہے کہ ڈی ایس ڈی کی وعدہ خلافی
کی رسم ٹوٹ جائے کیونکہ اس کے بعد بہت سے بھرم ٹوٹ جائیں گے جو کہ ایک
سانحہ ہو گا اور ہر سانحہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے آتا ہے اور بہت کچھ لے جاتا
ہے۔ ٹی ای اور ڈی ٹی ای کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سچائی کی آواز
کو بلند کرنے کے لیے جو کہ ایک اجتماعی حق کی بازیابی کے لیے ہے نہ کہ
انفرادی منفعت کے لیے۔ہم قانون ،اپنے ادارہ اور ادارہ کے ہر فرد کا احترام
کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اس لیے کہ ہمارا ادارہ ایک قومی اثاثہ ہے اور ہم
قوم سے بے وفائی کے مقابل موت کو ترجیح دیتے ہیں- ہم ان تمام احباب کے تہہ
دل سے مشکور ہیں جنہوں نے ہماری آواز پر لبیک کہا اور ہمارا کھلم کھلا ساتھ
دیا۔ امید ہے ڈی ایس ڈی ان کی محبت، وفاداری اور جانثاری کو شک کی عینک
اتار کے دیکھے گا۔ہم غیور میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے
ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔
آخر میں میں ڈی ٹی ایس ہیڈز سے صرف اتنی سی استدعا کروں گا کہ وہ حق اور سچ
کا ساتھ دیں کیونکہ ان کے لیے ہم نے دن رات کام کیا ہے۔ اگر وہ ہمارا ساتھ
نہیں دے سکتے تو کم از کم ہمارے خلاف تو نہ ہوں۔ ان کی نوکریاں تو پکی ہیں
پھر کیوں گھبراتے ہیں؟ کیا آپ بھی حقیقت سے منہ پھیر رہے ہیں؟ کیوں اتنی
جلدی وفاؤں کو بھول گئے؟ ہم تو آپ کے دست و بازو رہے ہیں کیا بھول گئے ہو ؟
کیا آپ کے سروں پر سجی کارکردگی کی اس پر وقار دستار میں ہمارا حصہ نہیں
ہے؟ کیا ہم نے آپ کی تابع فرمانی میں کوئی کسر چھوڑی ؟کیا ہم وہی نہیں ہیں
جن کی آپ تعریفیں کرتے تھے؟ جن کی اے سی آر لکھنے کے لیے آپ لفظ تلاش کرتے
تھے؟ آج اپنوں کو نہ بھولیں تا کہ کل آپ یاد رکھے جائیں-
میری رب کعبہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور شیطان
و انسان نما شیطانوں کے شر سے محفوظ رکھے – اے اللہ تو ہماری اس طرح حفاظت
فرما جس طرح قطرے کی حفاظت صدف کی آغوش میں اور بیج کی زمین کی تہوں میں
کرتا ہے اور اس وطن کے پرچم کو ہمیشہ سر بلند رکھنا (آمین)
ٹی ای +ڈی ٹی ای اتحاد زندہ باد |