اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسََّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ
اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
شادی ایک اہم فریضہ ۔ایک اہم رشتہ ۔لیکن ہم نے اسے ایک تفریح کا ساماں
بنالیا۔نتائج و ثمرات بھی ہمیں ویسے ہی موصول ہونے لگے ۔شادی خانہ آبادی
کیوں بن جاتا ہے خانہ بربادی ۔پڑھیے اور سوچیے گا ضرور!!!!!!!!
ایک مرتبہ حضرت سیدنا سُفْیَان بِنْ عُیَیْنَہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی
علیہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا:اے ابومحمد!میں آپ سے فُلاں عورت (یعنی
اپنی بیوی) کی شکایت کرنے کے لیے آیا ہوں۔اور کہنے لگا کہ میں اس کے نزدیک
بہت ذلیل، حقیر اور گھٹیا ہوچکا ہوں۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے
تھوڑی دیر کے لئے اپنا سر جھکالیاپھر سر اٹھایا اور فرمایا:شاید تو اس (سے
نکاح)کی طرف اس لئے راغب ہوا تھا کہ تیری عزت میں اضافہ ہوجائے ۔ اس نے
کہا:جی ہاں ایسا ہی ہے۔تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا:جو
بھی(نکاح کے ذریعے)عزت حاصل کرنے جاتا ہے اسے ذلت میں مبتلا کر دیا جاتا
ہے۔اور جو(نکاح کے ذریعے)حصولِ مال کی طرف جاتا ہے اسے فقر میں مبتلا کردیا
جاتا ہے۔اور جو شخص دین کی طر ف جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دین کے ساتھ
ساتھ عزت اور مال بھی جمع فرمادیتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء ، سفیان بن عیینۃ،٧/٣٤٠)
اسی ضمن میں حضرت سیدنا سُفْیَان بِنْ عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی
علیہ اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے فرمانے لگے:
دلچسپ آپ بیتی
ہم چار بھائی تھے، ایک کانام محمد ایک کا عمران ایک کا ابراہیم تھا اور ایک
میں خود۔محمد نے جب شادی کا ارادہ کیا تو حسب ونسب میں رغبت کے سبب اُس نے
ایسی عورت سے شادی کی جو خاندان میں اس سے بڑھ کر تھی تواللہ عَزّوَجَلَّ
نے اس کو ذلت میں مبتلا کردیا۔اورعمران نے مال کی رغبت میں ایسی عورت کا
اِنْتِخاب کیا جو اس سے زیادہ مالدار تھی تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے فقر و
تنگدستی میں مبتلا کردیا۔ میں ان دونوں کے معاملے میں حیران و پریشان ہو کر
رہ گیا۔ ہمارے پاس معمر بن راشد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ تشریف لائے
تو میں نے انہیں اپنے بھائیوں کا قصہ بیان کیا اور ان سے اس کے بارے میں
مشورہ لیا تو انہوں نے مجھے حضرتِ سَیّدُنایحییٰ بن جعدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ اور اُمُّ المومنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی
عنہا سے مروی احادیث بیان کیں۔چنانچہ حضرتِ سَیّدُنا یحییٰ بن جعدہرَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کی حدیث یہ ہے کہ نبی پاک، صاحب لولاک صلَّی اللّٰہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:چار وجوہات کی بنا پر عورت سے شادی کی
جاتی ہے۔دین، حسب نسب، مال اورخوبصورتی لیکن تودین والی عورت کو ترجیح دے
تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔(جمع الجوامع،حرف التاء المثناۃ،٤/١١٧،
حدیث١٠٦٣٤)اور حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے مروی
روایت یہ ہے کہ سرکارِ مدینہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ برکت نشان ہے:برکت کے اعتبار سے سب سے عظیم عورت وہ ہے جس ( سے نکاح
)میں بوجھ کم ہو۔(مسند امام احمد،مسند السیدۃعائشۃ،٩/٤٧٨، حدیث:٢٥١٧٣)
پس میں نے رسول اکرم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث پر
عمل کرنے کی غرض سے اپنے لیے دین اور کمر کی آسانی(یعنی بوجھ کی کمی)کو
اختیار کیا تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے دین کے ساتھ ساتھ میرے لیے عزت و مال
بھی جمع کردیا۔(حلیۃ الاولیاء ، سفیان بن عیینۃ،٧/٣٤٠)
محترم قارئین کرام :یقیناً نکاح کرناانسانی زندگی کے معاملات میں سے ایک
اہم ترین معاملہ ہے لہٰذا شادی سے پہلے اوربعد کے معاملات میں شادمانیوں
اور کامیابیوں کے حُصُول کے لئے قرآن و حدیث پرعمل کرنااور دین کے معاملے
کو فوقیت دینا ہی مُفید ہے جیساکہ حضرتِ سَیّدُنا سُفْیَان بِنْ عُیَیْنَہ
رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے دونوں حدیثوں کو پیش نظر رکھا تو آپ
رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ خود فرماتے ہیں:اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دین کے
ساتھ ساتھ میرے لیے عزت اور مال بھی جمع کردیا ہے۔
بدقسمتی سے آج کل ہمارے معاشرے کااچھا خاصا طبقہ دین سے تعلق رکھنے والی
بہنوں کو پسند نہیں کرتا۔اے کاش!ہم سب مل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے
میں کامیاب ہوجائیں جس میں والدین اپنے لڑکے کی شادی کے لیے دین داراور
مذہبی لڑکی ہی کے انتخاب کو مطمحِ نظر بنائیں، نیکی، پرہیزگاری اور پردے کے
معاملے انتہائی محتاط لڑکی ہی نکاح کے قابل سمجھی جائے۔اسی طرح لڑکی کے
والدین بھی ایسا لڑکا تلاش کریں جو سنتوں کا پیکر اور باعمل عاشقِ رسول
ہو۔جب میاں بیوی اس قدر نیک و پارسا ہونگے تو اِنْ شَآء َ اللہ
عَزَّوَجَلَّاولاد بھی نیک و پرہیز گار ہوگی اور یوں ہمارے معاشرے میں ہر
طرف سنتوں کی بہار آجائے گی۔مگر یاد رکھیں !اتنا بڑا انقلاب لانے کے لئے
ہمیں سب سے پہلے معاشرے میں پائی جانے والی بنیادی خرابیوں کو دور کرنا پڑے
گا۔
ہم برباد کیوں ہوئے؟
افسوس صد کروڑ افسوس! آج کل ہمارے یہاںتقریباً ہر مُعامَلہ میں یَہود و
نَصاریٰ کی نَقْل کی جاتی ہے ۔شادی یقینا میٹھی میٹھی سُنَّت ہے مگر آجکل
شادی جیسی سنّت بَہُت سارے گناہوں میں گِھرچکی ہے ،افسوس کہ اِس عظیم
سُنَّت کی اَدائیگی میں دِیگر مقدّس سُنَّتوں بلکہ مُتَعَدَّد(مُ۔تَ۔ عَدْ
۔ دَدْ)فرائض تک کا خُون کر دیاجاتا ہے !افسوس!صدکروڑ افسوس! بے ہُودہ
رُسومات اس کا جُز وِ لایَنْفَک بن چکی ہیں،مَعاذاﷲ عَزَّوَجَلَّ حالات اس
قدر ابتر ہوچکے ہیں کہ جب تک بہت سارے حرام کام نہ کر لئے جائیں اُس وقت تک
اب شادی کی سنَّت ادا ہو ہی نہیں سکتی۔مَثَلًامنگنی ہی کی رسم لے لیجئے
اِسمیں لڑکا اپنے ہاتھ سے لڑکی کو انگوٹھی پہناتا ہے حالانکہ یہ حرام اور
جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔شادی میں مر د اپنے ہاتھ مہندی سے رنگتا ہے
یہ بھی حرام ہے، مردوں اورعورَتوں کی مخلوط دعوتیں کی جاتی ہیں، یا کہیں
برا ئے نام بیچ میں پردہ ڈال دیا جاتا ہے مگرپھر بھی عورَتوں میں غیر
مردگھس کر کھانا بانٹتے، خوب وڈیو فلمیں بناتے ہیں اس دوران مرداورعورَتیں
جی بھر کر بد نگاہی کرتے ہیں ' خوب آنکھوں کا زِنا ہوتا ہے ' نہ خوفِ خدا
عَزَّوَجَلَّ نہ شرم مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم ۔
سنو سنو ! رسول اﷲعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم
کافرمان عبرت نشان ہے، ''آنکھوں کازِنا دیکھنا اور کانوں کازِنا سننا اور
زَبان کا زِنا بولنا اور ہاتھوں کا زِناپکڑنا ہےــ '' ۔ (مسلِم، ص
١٤٢٨حدیث٢٦٥٧) یاد رکھیئے ! غیر مرد غیر عورَت کودیکھے یا غیر عورَت غیر
مرد کوشہوت سے دیکھے یہ حرام اور دونوں کیلئے یہ جہنَّم میں لے جانے والے
کام ہیں۔نیز شوقیہ تصویر یں بنانے اوربنوانے والوں کو عذابِ خداوندی سے
ڈرجانا چاہئے۔
رسولُ اﷲعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم فرماتے
ہیں، ہر تصویر بنانے والا جہنَّم میں ہے اور ہر تصویر کے بدلے جو اس نے
بنائی تھی اﷲعَزَّوَجَلَّایک مخلوق پیدا کریگا جو اسے عذاب کریگی '' ۔(
فتاویٰ رضویہ ٢١/٤٢٧ رضا فاؤنڈیشن مرکزالاولیاء لاہور)
آپ غور تو فرمائیے کہ آج ''شادی خانہ آبادی '' ہوتی کس کی ہے ؟شادی کے بعد
عُمُوماً ہر کوئی ''خانہ بربادی '' کا شِکار نظر آرہا ہے! کہیں ایسا تو
نہیں کہ شادی جیسی پاکیزہ اور میٹھی میٹھی سُنَّت میں غیر شَرْعی رُسُومات
کی دُنیا ہی میں سزادی جارہی ہو!اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ غَضَب ناک ہُوا تو
آخِرت کی سزا کس قَدَر ہَولناک ہوگی۔
نافرمان کا انجام
فلمی ریکارڈنگ کے بِغیر آج کل شاید ہی کہیں شادی ہوتی ہو۔ اگر کوئی سمجھائے
تو بعض اوقات جواب ملتا ہے ' واہ صاحِب !اﷲعَزَّوَجَلَّ نے پہلی بچّی کی
خوشی دکھائی ہے اور گانا باجا نہ کریں، بس جی خوشی کے وقت سب کچھ چلتا ہے ۔
(معاذاﷲعَزَّوَجَلَّ)ارے نادانو ! خوشی کے وقت اﷲعَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا
کیا جاتا ہے کہ خوشیاں طویل ہوں،نافرمانی نہیں کی جاتی، کہیں ایسا نہ ہو کہ
اس نافرمانی کی نُحُوست سے اِکلَوتی بیٹی دلہن بننے کے آٹھویں دن روٹھ کر
میکے آ بیٹھے اور مزید آٹھ دن کے بعد تین طَلَاق کا پرچہ آ پہنچے اور ساری
خوشیاں دُھول میں مل جائیں۔ یا دھوم دھام سے ناچ گانوں کی دھما چوکڑی میں
بیاہی ہوئی دلہن 9 ما ہ کے بعد پہلی ہی زچگی میں موت کے گھاٹ اتر جا ئے۔ آہ
!صدہزارآہ!شادی کی خوشی میں گانے بجانے کا گناہ کرنے والے کان کھول کر
سنیں!حدیثِ پاک میں ہے ،''دو آوازوں پر دنیا و آخِرت میں لعنت ہے، (1)نِعمت
کے وقت باجا(2)مصیبت کے وقت چِلّانا۔(کنز العمال،١٥/٩٥ ،حدیث٤٠٦٥٤،دار
الکتب العلمیہ بیروت)(ماخوذ ازگانے باجے کی ہولناکیاں)
محترم قارئین:شادی بیاہ کی تقاریب کو اس طرح سرانجام دیں کہ وہ رضاالہی کا
باعث بنیں۔اللہ کریم ہمیں دینی بصیرت و بصارت سے بہر مند فرمائے اور ہمیں
خلاف شرع امور سے محفوظ و مامون فرمائے ۔آمین |