مذہب،قانون اور معاشی نظام۔

پیر یکم اکتوبر ۲۰۱۲ کے نوائے وقت ملتان کے شمارے میں ایک خبر چھپی کہ فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ امیر لوگوں کو اپنی آمدنی کا ۷۵ فیصد انکم ٹیکس دینا پڑے گا تاکہ غربت کا خاتمہ کیا جا سکے اور ملک ترقی کر سکے۔قرآنِ مجید میں آیا ہے: مسلمان پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم ہم کیا خرچ کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا) تاکہ وحی آئے اور وحی آنے پر( پھر فرمایا قُلِ العَفو )سورۃالبقرہ،۲۱۹(۔ یعنی تمہاری ضرورت سے جو چیز زیادہ ہے وہ سب خرچ کر دو ،یعنی دوسروں کو دے دو ، حاجت مندوں کو دے دو تاکہ غربت کی وجہ سے کوئی تنگ دست نہ رہے۔قرآنِ مجید میں ایک اور جگہ پر روزی کے وسائل کے بارے میں آیا ہے: سواءلِلسائِلین )حم سجدہ ،فِصلات،۱۰(۔یعنی روزی کے وسائل میں وہ لوگ سب برابر کے شریک ہیں جو وہاں پیدا ہوئے ہیں اور وہاں رہتے ہیں، وہ سب برابر کے حقدار ہیں۔ لہذا زمین، جنگلات،پہاڑوں کے وسائل یعنی کانوں، دریاوَں کے پانی )نہروں وغیرہ(، صحراوَں کی معدنیات اور جانوروں اور سمندورں کے وسائل مثلا بندرگاہوں،مچھلیوں، موتیوں وغیرہ میں بلا امتیاز مذہب، ملت، فرقے،رنگ،نسل،علاقہ،زبان، سب انسان برابر کے حقداراور حصے دار ہیں۔ اسلام کے نظامِ معیشت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو کرے وہ کھائے۔مزید برآں خدا کے پیدا کردہ وسائل مثلا زمین، جنگلات،چراگاہیں، کانیں، معدنیات،جانوروں،مچھلیوں، موتیوں اور بندرگاہوں سے تمام لوگ برابر فائدہ اٹھائیں لیکن اس کے مالک نہ بنیں اور اپنی آمدنی کا ۱۰ فیصد )عشر (سرکاری یا قومی بیت المال میں جمع کروائیں تاکہ ملک اور قوم کی مجموعی ضروریات مثلا ذرائع آمدورفت،سڑکوں،ریلوں، ہوائی جہازوں، بحری جہازوں، ذرائع مواصلات اور ذرائع ابلاغ اور ڈاک،پولیس، عدالتوں، فوج،تعلیم،صحت اور دیگر اجتماعی ضروریات مثلا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں یا سیلاب، زلزلہ زدگان پر خرچ کیا جا سکے۔ ہر شخص اپنی ضرورت سے زیادہ دولت اور اشیاء کی زکواۃ نکالنے سے پاک ہو جاتا ہے، سو ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی زائد دولت ضرورت مندوں، حاجت مندوں، غریبوں،مسکینوں،بیواوں، یتیموں، محتاجوں، معذوروں، مسافروں، مہمانوں ، قیدیوں پر اور غلامی ختم کرانے پر خرچ کرے۔ورنہ کمیونزم لازمی ہے۔
جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

دیکھو، ہر چیز بشمول زمین،پہاڑ ، صحرا،دریا اور سمندروں کا خالق، مالک اللہ تعالٰی ہے ۔ انسان ان وسائل سے صرف فائدہ اٹھا سکتے ہیں، مالک نہیں بن سکتے۔ اسی لیے اسلام میں ِا کتنا ز یعنی جاگیر داری،سرمایہ کاری اور اِحتکار یعنی ذخیرہ اندوزی حرام ہے، سختی سے منع ہے۔ کیونکہ زمینوں، پہاڑوں، صحراوں، دریاوَں،اور سمندروں کا خالق و مالک اللہ تعالٰی ہے، انسان نہیں،سو جو انسان خود کو ان چیزوں کا مالک کہتا ہے وہ خدا کا شریک بنتا ہے۔ مزید برآں اس طرح محکومی، اور غربت پیدا ہوتی ہے اور غربت سے جہالت، بیماری،غلامی اور ذہنی انتشار پیدا ہو تا ہے جو کہ انسان کو مایوسی، مجبوری، کفر اور بے دینی کی طرف لے جاتا ہے۔ مجبور، بھوکا اور بے بس آدمی ہر ناجائز کام مثلا کفر، نفاق اور شرک کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اسی لیے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ غریبی کفر میں ڈال دے۔ اس لیے تمام معاشرتی برائیوں کے ذمہ دار امیر اور حکمران ہیں جو ذخیرہ اندوزی کر کےدولت کو معاشرے میں گردش نہیں کرنے دیتے۔

دیکھو، دنیا میں جو کچھ بدی، کفر، شرک،منافقت، چوری،ڈاکے،ظلم، زیادتی، قتل وغیرہ ہوتے ہیں یہ سب جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کیونکہ بھوک سے مرتا انسان ہر برائی اور جرم کر گزرتا ہے۔ اگر سب لوگوں کو کھلی روزی ملے اور ان کی جائز ضروریات پوری ہوں تو وہ جرائم نہیں کریں گے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی جرائم کریں تو انہیں سخت سزا دی جائے تاکہ انہیں ایسا کرنے کی پھر جراءت نہ ہو۔ اور قانون اور سزا بھی شریعت کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ خربوزے کے چور کے تو ہاتھ کاٹ دیے جائیں اور اربوں روپے لوٹنے والوں کو چھوڑ دیا جائے۔ یا عام غریب آدمی کو تو عدالت سزا دے دے اور امیر اور طاقتور کو پوچھے بھی نہیں۔ اہل لوگوں کو اعلٰی انتظامی اور عدلیہ کے عہدوں پر فائز کیا جائے اور نا اہل اور سفارشی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ قانون ساز اسمبلیاں بھی شریعتِ اسلامیہ کے خلاق قوانین نہ بنائیں اور قوم کا سردار یا حکمران اسے بنایا جائے جسے قوم خود پسند کرے۔ اور اسے بالکل نہ بنایا جائے جو خود کو پیش کرے یا حیلے بہانے یا طاقت سے خود یزید کی طرح حکمران بن بیٹھے۔ اور اگر کوئی ایسا کرے تو حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد کے طرز پر اسے ہٹانے کی کوشش کی جائے۔

علم، عمرانیات اور بشریات کے عالموں کا کہنا ہے کہ انسان کا عقیدہ اور نظریات, معاشیات )پیسے( ,ضروریات اور آزادی کے گرد گھومتے ہیں۔ سو ہر انسان کے عقائد اور نظریات ضرورت کے مطابق اور حالات واقعات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ یعنی کئی نبی، رسول آئے اور شریعت) یعنی قانون, اصول( بدلتی رہی۔ دیکھو، امیر آدمی اور حکمران کا نظریہ، عقیدہ اور ہوتا ہے اور غریب،کمزور اور غلام کا عقیدہ، نظریہ اور ہوتا ہے۔ امیر،طاقتور اور حکمران کا دین، مذہب اس کی اپنی مرضی اور اس کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ اور غریب، کمزور اور محکوم آدمی کا دین، مذہب،آخرت میں جنت کی امید، اپنی عزت بچانا، حالات سے سمجھوتا کرنا، قسمت پر صبر شکر کرنا اور ہر کمزوری اور مجبوری کو خدا کا حکم، خدا کا فیصلہ مان کر قبول کر لینا ہوتا ہے۔ حتی کہ وہ امیر، طاقتور، ظالم اور حکمران کو خدا کا شریک ٹھہرانےکاارتکاب بھی کر لیتا ہے۔ یہ سب غربت، جہالت، بیماری، غلامی اور ناگزیر مجبوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں انسان کی بد ترین دشمن ہیں اور اسے مجبور کر کے جھکا دیتی اور ذلیل و رسوا کر دیتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ انسان کو اپنی قابلیت اور محنت کا پورا معاوضہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے ملےاور کسی طرح بھی اس کی حق تلفی نہ ہو۔ دیکھو، اسلام کے معنی ہیں خدا کے حکموں کی فرمانبرداری،مساوات اور سلامتی) امن(۔جب تک خدا کے حکموں کی فرمانبرداری نہیں ہو گی اور مساوات نہیں آئے گی اس وقت تک امن اور سلامتی نہیں آئے گی اور نہ ہی آگے جنت ملے گی۔ اب اسلام کون سمجھائے گا اور اس پر عمل کون کرائے گا؟ علمائے حق اور مشائخ، عظامِ دین اسلام سمجھائیں اور خدا ترس، حق پرست، انصاف پسند اور پکے سچے مسلمان حکمران اس پر عمل کرائیں۔ورنہ ہم سب دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی جہنم کی رسوائی ہمارا مقدر ہو گی۔
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 52033 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More