مسلم اقلیات کیا سوچتے ہیں؟

گزشتہ دنوں ہمارا فیجی آئی لینڈکا ایک سفر ہوا جس میں فیجی مسلم لیگ کے ساتھ ایک اجلاس ہو ا، اجلاس کے بعد حسب پروگرام فیجی مسلم لیگ کے صدر جناب حفیظ الدین خان (جوکہ بقول ان کے ورلڈبینک میں ہمارے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے باس بھی رہ چکے ہیں) نائب صدر جناب ماسٹر عبدالقیوم صاحب، جناب مفتی زین العابدین صاحب اور احقر کے درمیان مسلم اقلیات کے مسائل پر تقریباً دو گھنٹے تک جوگفتگو ہوئی اس کا خلاصہ نذر ِقارئین ہے۔

٭……حفیظ الدین خان صاحب فیجی پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں، انہوں نے کہا : ’’نقاب‘‘ کا مسئلہ ہمارے یہاں آج کل بہت چلا ہوا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے اور ہم اس سے کس طرح نمٹیں؟

……میں نے عرض کیا کہ پہلے ہمیں اس مسئلے کا صحیح تجزیہ کرنا ہوگا، پھر جاکر بات سمجھ میں آئے گی، دیکھیں! ایک ہے چہرے کا نقاب اور دوسرا ہے سرکا دوپٹہ، جہاں تک سر ڈھانپنے کے لیے دوپٹے کی بات ہے، تو اس کی مخالفت انتہاپسندوں کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا، لہٰذا اسے تو مسلم خواتین کو اختیار کرنے میں عام طو رپر کوئی مشکل شاید پیش نہیں آئے گی۔

دوسری چیز چہرے کا نقاب ہے، اس کی ذرا سی تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ چہرے کا نقاب بھی غیرمحرموں کے سامنے جمہور فقہاء کے ہاں ضروری ہے، جبکہ شیخ ابن باز اور ان کے تلامذہ کے علاوہ بعض عرب جدید فقہاء اسے لازم وضروری نہیں سمجھتے، دونوں فریقوں کے پاس دلائل کی کوئی کمی نہیں ہے، لہٰذا ہم یہاں اس محاکمے میں نہیں پڑتے کہ ترجیح کس کو ہے، البتہ ہمارے یہاں ہندوپاک کے فقہاء نے فتنہ وفساد اور چہرے کی جاذبیت کی بناء پر عموماً جمہور کے قول کو لیا ہے،لیکن مخصوص حالات میں اس کے عدمِ ضرورت کا فتوی دیا ہے ۔

٭…… خان صاحب نے کہا : دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے اس دور میں خاص کر مسلم اقلیت ہونے کی بناء پرہمارے لیے کچھ مشکلات ہیں۔

…… میں نے عرض کیا کہ ضرور تیں بعض مرتبہ ممنوعات ومحظورات میں اباحت پیدا کردیتی ہیں۔ نیز اقلیات اور اکثریات کی وجہ سے بھی فقہی مسائل میں فرق ہوتا ہے، لہٰذا اگر واقعی کہیں ایسی مشکل ہو جس کی وجہ سے کسی مسلمان کو جسمانی یاروحانی، مادی یا معنوی ضرر کا اندیشہ لاحق ہو، تو ایسی صورت میں اھون البلیتین پر عمل کرکے بقول مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (برطانیہ) نقاب کی بجائے صرف دوپٹے کو اختیار کیا جائے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ضرورت کی حد تک ہو، اس میں اپنی اشتھا شامل نہ ہو، کیونکہ اصل حکم قرآن کریم کا صرف دوپٹے یا نقاب کا نہیں بلکہ ﴿وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ﴾ یعنی خواتین کو گھر پر ہی رہنا چاہیے، اور اسلام سے قبل کی جاہلیت والے انداز میں شتربے مہار کی طرح خواہ مخواہ کے لیے باہر گھومنا نہیں چاہیے،یہاں ہماری بعض مسلمان بہنوں کو یہ مغالطہ یا خوش فہمی ہوجاتی ہے، کہ مکمل پردہ کرکے جب چاہیں باہر جائیں جب چاہیں گھر میں رہیں، ایسی بات نہیں ہے، بلاضرورت مسلم خواتین کو گھر سے نہیں نکلنا چاہیے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ خواتین کی آزادی یا حقوق نسواں کے ڈھنڈورے پیٹنے والے مغربی مفکرین بھی ایک نہ ایک دن حقوق نسواں یا آزادی نسواں کی اپنی اس افراط وتفریط سے واپس ہوکر اسلام کے اعتدال اور وسطیت والے راستے کی طرف ضرور آئیں گے۔

٭…… خان صاحب نے فرمایا :کیا اس دور میں کسی مسلمان مرد یا خاتون کے اہل کتاب سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کا جواز ہے؟

……میں نے عرض کیا کہ اسلامی شریعت میں اہل کتاب سے مناکحت کی اجازت دی گئی ہے۔میں نے مزید عرض کیا کہ آپ فیجی مسلم لیگ کے ذریعے یہ پیغام پھیلائیں کہ مسلمان یہاں کے مستقل باشندوں اور مختلف النسل لوگوں کے ساتھ شادیاں کریں تاکہ آیندہ کے لیے یہاں اسلام اور مسلمان کی حفاظت بھی ہو، اور دعوت وتبلیغ کی راہوں میں وہ بچے سنگ میل کا کردار ادا کریں۔نیز یہاں کے مسلمان اپنی عددی برتری کے لیے اپنی شریعت کے تعدد ازدواج والے فارمولے کو ضرور استعمال کریں، اور اس کی ترغیب بھی دیا کریں، تاکہ مسلم آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے۔

میں نے کہا کہ مسلمانوں نے بلا سوچے سمجھے اس عظیم الشان فارمولے کو غیرمسلموں سے متاثر ہوکر قیل وقال، چہ میگوئیوں اور پیچ درپیچ سوالات کا گورکھ دھندا بنا دیا ہے، جبکہ حضرات انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے یہاں تعدد ازدواج کی مثالیں بے شمار ہیں، جن سے مسلمانوں کی عددی برتری کے علاوہ ان کی جنسی ضروریات کا جائز اور قانونی حل بھی نکلتا ہے ، ورنہ ……

٭…… ایک سوال یہ کیا گیا کہ ہم عالم اسلام سے کس طرح اپنے روابط بڑھائیں؟

……میں نے عرض کیا کہ عالم اسلام کی بجائے آپ دنیا کے کونے کونے میں موجود مسلم اقلیات سے اپنے ارتباطات قائم کریں، اپنے تجربات انہیں بتائیں، ان کے تجربات سے آپ استفادہ کریں، اور یوں O.I.Cکی طرح عالمی سطح کی مسلم اقلیات پر مشتمل ایک مؤثر جمعیت اور ایک پلیٹ فارم بنائیں، کیونکہ آج جتنے مسلمان مسلم ممالک میں ہیں تقریباًاتنے ہی غیر مسلم ممالک میں بھی ہیں، پھر اسلامی تنظیم کانفرنس میں وہ جان بھی نہیں جو ہونی چاہیے۔

اس پر ان حضرات نے کہا کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلامی تنظیم کانفرنس کو مسلم اکثریتی ممالک تک محدود کرنے کی بجائے اس سے تمام ممالک میں موجود مسلمانوں پرمحیط بنایا جائے، تاکہ اس تنظیم میں ہر قسم کی قوت اور فعالیت لائی جاسکے؟

میں نے کہا کہ بالکل، اس کی کوششیں مسلم اقلیات کی طرف سے بھی برابر رہنی چاہییں، تاکہ او آئی سی کو اپنا بین الاقوامی کردار اد اکرنے میں اطراف عالم سے تایےد وحمایت حاصل ہوجائے، میں نے کہا ؛حقیقت تو یہ ہے کہ عالم اسلام اور عالم غیراسلام کوئی چیز نہیں ہے، ’’مسلم ہیں ہم، ہے سار اجہاں ہمارا‘‘ کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بین الامم والاقوام اور للعالمین والکائنات رسالت کے پیش نظر ہمیں گلوبلائزیشن کے اس دور میں بطور خاص پوری دنیا کو اسلامی دنیا کہنا چاہیے، لیکن انتظامی لحاظ سے کچھ فروق کا اعتبار ظاہری طو رپر کرنا ہی پڑتا ہے۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ عرض کیا گیا کہ عالم اسلام سے قطع رابطہ کی بات نہیں ہورہی، بلکہ مسلم اقلیات کو باہمی ایک دوسرے سے استفادے پر زور دیا جارہا ہے، لیکن عالم اسلام یا دیگر مسلم اقلیات سے تعلقات میں اس کا سختی سے اور نہایت باریک بینی کے ساتھ خیال رکھا جائے کہ ان کے فرقہ وارانہ انتشارات، تشتتات، باہمی نزاعات، اختلافات ودیگر امراض کی بجائے ان کی خوبیوں اور اچھائیوں پر نظر ہو، ورنہ اس سے مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔

حفیظ الدین خان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے چونکہ پوری دنیا پر اس وقت UN یا پھر صہیونیوں کی حکومت ہے، اس لحاظ سے تمام ملکوں اور قوموں اور مذاہب کی شماریات کو اگر دیکھا جائے تو گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان بین الاقوامی سطح پر یا بالفاظ دیگر بین الاقوامی حکومت میں ’’اقلیت‘‘ ہی ہیں، اس پر ماسٹر عبدالقیوم صاحب نے انہیں برجستہ کہا کہ یہ آپ کا ورلڈبینک کا تجربہ ہے۔

میں نے موضوع کو پھر سے لے کر کہا ؛ آپ کی ’’فیجی مسلم لیگ‘‘ ہندوستان کی ’’جمعیت علماء ہند‘‘ ساؤتھ افریقہ کی ’’جمعیت علماء جنوبی افریقہ‘‘ انگلینڈ کی ’’جمعیت علماء برطانیہ‘‘ امریکا کی ’’کیر‘‘ وغیرہ ایسی تنظیمیں ہیں، جن میں باہمی مختلف جہتوں سے بہت حد تک یکسانیت ہے، اگر ہم اپنے ملک پاکستان میں پانچ وفاقوں کو متحد کرکے ایک اتحاد تنظیمات مدارس بنا سکتے ہیں ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے، تو آپ بھی اسی طرح مذکورہ بالا جماعتوں سے ابتداء کرکے کام شروع کیجیے ۔ پھر دیکھئے کہ آپ کو کتنے مثبت اور زوداثر نتائج ملتے ہیں۔

٭…… مفتی زین العابدین صاحب نے کہا کہ ہماری تعلیم کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں گے؟

……میں نے کہا کہ مفتی صاحب آپ کو ملک کے معروضی حالات کے مطابق فکر وتعلیم دینی ہوگی، یہ عالمی سطح پر ’’نظریاتی جنگ‘‘ کا زمانہ ہے، اس میں اگر آپ کا طالب علم اپنے اردگرد کے ماحول سے لاعلم ہوگا، تو وہ بے پناہ نقصان اٹھائے گا۔ چنانچہ آپ اپنے ماحول کے مطابق تقابل وتعارفِ ادیان کا پیریڈ ضرور رکھا کریں، اور یہ یاد رہے کہ ادیان سماویہ کا تعارف کافی نہیں ہوگا، بلکہ ان کے ساتھ ادیان وضعیہ یا اصطناعیہ جیسے سوشلزم، کمیونزم، کیپٹلزم، نیشنلزم، فاشزم وغیرہ اور ان کے بانیوں اور قائدین کا بالتفصیل تذکرہ بھی شامل ہوگا، نیز عربی، انگریزی اور ماحول کے مطابق اہم زبانوں کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے کو بھی اپنے طلبہ کے لیے فعال کرنا ہوگا، تب جاکر اس تلاطم خیزطوفان اور گھمسان کی جنگ میں آپ کے طلبہ سے کچھ کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو فقہ الاکثریات کی بجائے فقہ الاقلیات اور مسلم اقلیتوں کے لیے فقہی رخصتوں کو بھی نمایاں جگہ دینی ہوگی۔

نیز میں نے یہ بھی کہا کہ یہاں فیجی آئی لینڈ، جنوبی افریقہ اور موزمبیق میں دینی مدارس چلانے والے علما سے ہمیں ایک شکایت ہے، کہ ان کے ممالک میں سرکاری زبان انگریزی یا پرتگیش اور ہماری مذہبی زبان عربی ہونے کے باوجود ان کے مدارس میں زبانِ تعلیم اردو ہے، جس سے کماحقہ فوائد ان ملکوں میں سامنے نہیں آرہے ہیں۔

اس پر حفیظ الدین خان صاحب نے کہا کہ مولانا! آپ سے بھی ہماری یہی درخواست ہے کہ ہمارے طالب علم جو آپ کے ملک میں اسلامی تعلیم کے لئے آئے، انہیں آپ عربی اور انگریزی میں مہارت کے علاوہ ان کو ہمہ جہتی معاملات خصوصاًرفاہی خدمات کے لئے تیار کیا کریں، میں نے کہا کہ آپ کا یہ پیغام اپنے دینی مدارس کے منتظمین کو پہنچاؤں گا۔

میں نے گزارش کی کہ آپ اپنے ملک کے تمام شعبوں میں خدمت کے لیے مسلمانوں کی ایک نئی نسل تیار کریں، جو اقتصادیات میں، سیاسیات میں،فلسفے میں، کھیل میں، سائنس میں، ٹیکنالوجی میں، میڈیا میں، تعلیم وتربیت میں غرض ہر میدان میں ایسے کارنامے انجام دیں جس سے مسلمانوں کے وقار میں اضافہ ہو، مثلاً آپ انڈیا کے سابق صدر عبدالکلام کو لے لیں، فرانس کے زیڈان کو لے لیں، محمد علی کلے کو لے لیں، تاکہ لوگ انہیں بطور نمونہ کے پیش کرسکیں، اب تو صورت حال یہ ہے کہ جدید دنیا میں مسلم اقلیات ہی کیا مسلم اکثریات بھی قدرتی وسائل سے ہٹ کر صنعتی دنیا کے لیے بوجھ بنے ہوئے ہیں، ہمیں یہ سب تھیوری بدلنی ہوگی، تب جاکر کہیں امت کا سرفخر سے بلند ہوگا، اس کی بنیاد آپ کے نصاب ِتعلیم ونظام تربیت پر ہے۔

بہرحال اس طرح کی کئی موضوعات پر نہایت سیرحاصل گفتگو ہوئی، اپنی ڈائری میں سے یہ چیدہ چیدہ باتیں میں نے اپنے دوستوں کے لیے مرتب کیں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877984 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More