محبت تو اِک جاوداں زندگی ہے

قارئینِ کرام!آداب۔۔۔۔۔دل گرفتہ کر دیتے حالات اور حوادث کے تسلسل کے بعد قدرے طمانیت،بے شمار اپنوں کی دل نوازیوں،خیر خواہ دوستوں کی دُعاؤں کی گھنی چھاؤں،جگر گوشوں اور سانس سے پیارے علی اور علینہ کے پیار اور خواہشوں اور سبھی سے بڑھ کر قدرت کے کریمانہ احسانات کے درمیاں کبھی کبھار میرا تخیل اچانک ماضی کے دھندلکوں میں کھو جاتا ہے،پھر ہزار وحشتوںسے لد کر واپس میرے پہلو میں آن دھڑکنے لگتا ہے!جب میں بیتے دنوں کی ایک محبت کہانی کو اپنے حصار میں لیتا ہوںتو یکدم دل ملال اوربے کلی سے بھر سا جاتا ہے،تب خوشی،کیف اورسرشاری ایسے لطیف لفظوںکے نعمت خیز اور سارے معلوم معانی تک سراسر بدحلیہ،سراب،عذاب اور عبث سے لگنے لگتے ہیں!جانے کیوں!اس پریت کہانی کے دھنک رنگوں میں جب میرا تخیل تاک جھانک کرتا ہے تب تب دل کی پنہائیوں کو بے نام سی شکست و ریخت سے پالا پڑتا ہے!جانے کیوں!ایسے میںیہ یاد ہی ہے جومیرے حساس پہلُو کے عریض گوشوں کو نمناک اوراتھل پتھل کر کے رکھ دیتی ہے!جانے کس سبب سے!وہ انوکھی یاد جب بھی مجھ سے ملنے آتی ہے تو میرے وجود میں اضطراب کی چاشنی،کرب کا اُجالا اور یاسیت کا نرم آگیں سویرا سا کر جاتی ہے!جانے کیوں!!میں چاہ کر بھی اورچاہے کیسی ہی مساعی کیوں نہ کرلُوں،اُس بہ ظاہر عام سی لڑکی کے پریت معاملہ اور سوختہ نصیبی کو اپنے تخیل سے جھٹک نہیں سکتا!اب کے سوچتا ہُوں تو جانتا ہُوں کہ اس نصیبوں جلی نے خوشیوں اور راحت کے مطلب اور مظاہر سے خالی اپنی زیست کے لئے کاتبِ تقدیر سے دُکھ کے کتنے کانٹے اور الم کے کتنے مرحلے سوغات میں لائے تھے!وہ اپنے سادہ و معصوم دل میں جانے کتنی مہکتی آرزوئیں رکھتی سکول جانے کی عمر کا سفر طے کی تھی،مفلسی کے پہروں میں سکول جانے کا بھرم بھی وہ کیسے رکھ پائی تھی کچھ اُس کا دل ہی جانتا تھا!اگر میں دیانتدار قیاس کروں تو اُس بے چاری اور بے سہاری کی کتابِ زندگانی کا ہر باب ہی کتنا ہی درد آشنا،سبق آمُوزاوراہلِ دل کے احساس کو زخما دینے والا ہے!آج کی پریت کہانی کی نازک ڈوراُس شہر سے بندھی ہے جو کبھی اُلفتوں کا گہوارہ تھا مگر اب توبدامنی اور کُلفتوں کی آماجگاہ ہو جیسے!جی ہاں،میرا اشارہ روشنیوں اور جدتوں کے امین شہر کراچی کی طرف ہے،آج کی محبت کہانی کا بنیادی کرداربھی اسی شہرِ بے مثال کی ایک عام سی بستی سے ہے،شمع(فرضی نام)نے ایک مفلس گھر میں آنکھ کھولی تھی،بچپن میں طرح طرح کی محرومیاں اور بے بسیاں اُس کی جیسے سَکھیاں تھیں!اپنی بستی کے معمولی سے ایک سکول میں وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکی،وہ بڑی حساس طبع اور زُود رنج فطرت لے کر اس دنیا میں آئی تھی،صرف اِسی پر اکتفا نہیں بلکہ تقدیر نے اُس کے ساتھ پیہم رُلا دینے والا ہاتھ کیا!گھر کا چولہا جلانے کے لئے اُس کی باہمت ماں محنت اور خود داری کی مشین بن کر دوسروں کے گھرمیں کام کاج کرتی تھی،وہاں سے تھک ہار اور نِیم جاں ہو کر برائے نام سودا سلف اپنے ہمراہ لاتی،ابھی دو پل سَستانا نصیب نہ ہوتا کہ اس کااحساسِ ذمہ داری سے غافل شوہر اُس پر طنز اور بے رُخی کے وار کرنے لگتا کہ نشہ بہت کرتا تھا!وہ بدقسمتی کے کتنے سفاک دوراہے پہ جیسے کھڑی تھی لیکن اس سب کے باوصف اُس کی برداشت،استقامت اور وفا کی خوبیوں کو کبھی گہن نہ لگ سکا تھا!گھر میں اُصولی طور سے شمع اپنے جس سب سے مہرباں رشتہ سے امیدیںوابستہ رکھ سکتی تھی وہ کم نصیب باپ تو پہلے ہی بُرے دوستوں کی صحبت کے ہاتھوں اپنی صحت اور ذمہ داریوں دونوں کا شدیدبیری ہو گیا تھا!اُسے اپنی بیٹی کے ارمانوں کی سمجھ تھی اور نہ ہی گھر کی ضرورتیں اُسے دامن گیر ہوتیں!نشہ کی لت نے اسے بے کار اوراس سے کہیں بڑھ کربے ثمر بنا کے رکھ دیا تھا!ایک طرف گھر کی درماندہ معیشت،دُوسری طرف فرشتہ خُوماں کا دو وقت کی رُوکھی سُوکھی کمانے کے لئے ہمہ وقت مشقت کرنا،تیسری طرف باپ کی سفاکانہ لیکن غیر اِرادی بے حسی اور چوتھی طرف چھوٹے بہن ،بھائیوںکا پل پل نعمتوں اور آسانی کو ترسنااور ناچاری کی دُھوپ سینک کر اپنے نازک دلوں میں مایوسی اور بے چارگی کا زہر گھولناحساس شمع کو ہر لمحہ جلانے ،ستانے اور کُڑھانے کے لئے کافی تھا!شمع اپنے گھر کے ان مصائب سے نبردآزمائی کے دوران کسی آزُردہ خاطر شاعر کے خیال کی جیتی جاگتی تصویر کا منظر ہی تو لگتی تھی،کبھی رات کی خموشی اور سناٹوں کے درمیاں موم بتی کو جلتا،پگھلتا دیکھ کر اُس کے شکستہ دل میں تقدیر کی بے رُخی کا خیال شدت سے ضرُور اُبھرا ہوگا،ایسے میں موم بتی کی سر ہِلاتی اور ناز دیکھاتی لو سے اُس نے جل بُھن کریہ بھی کیسے نہ کہا ہو گا کہ ہمارے درمیاں کتنا نزدیکی رشتہ اُوپر والے نے رکھ چھوڑا ہے!وہ موم بتی کی مدہم اور جاں بہ لب روشنی پر طنز کر کے کبھی بے اختیاری میںیہ بھی تو دل میں گُنگُنائی ہو گی!
اے شمع!یہ رات تجھ پہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

اِدھر شمع محبت،پیار اور شفقتوں کی چھاؤں کو ترس ترس جاتی ،اُدھر نشہ کی عادت اُس کے باپ کو ذہنی طور اور زیادہ مفلوج کرتی جاتی!باپ کے دھیان سے جب اُس کی جھولی خالی رہتی تو وہ معصومیت سے امید بھرے انداز میں اپنی ممتاکی طرف دیکھتی جس کے دل میں اپنی لاڈلی کے لئے محبتوں اور مشفقانہ حلاوتوں کا شہد سے بھی میٹھا سمندر موج زن رہتا لیکن حالات کی مجبوریوں اور مشقت کے کاموں نے ماں کو اپنی بیٹی سے جی بھرکر شایدمدت سے مل بیٹھنے بھی نہ دیا تھا!ان سارے عوامل سے شمع کی رُوح تڑپتی،وہ اپنے من کا حال کسی سے بانٹ بھی نہیں سکتی تھی،ایسے میں وہ اپنی اداسی اورتنہائیوں سے مل بیٹھ کر تھوڑا رو لیتی اور پھر جب اس کے اندر کا درد کچھ کم ہو جاتا تو میٹھی نیندرحمت کا فرشتہ بن کر اُس دُکھیاری کے پاس آجاتی اور جھٹ سے بے سکوں شمع کو بے پناہ سکون کے سپُرد کر دیتی!ایثار مند ماں کی مزدوری سے جب گھر کا چولہا جلنا محال ہونے کو آیا تو شمع نے اپنی ماں کا سہارا بننے کی راہ سوچی،اس نے کسی طرح ایک مقامی کمپیوٹر اکیڈمی میں داخلہ لے لیا تا کہ کمپیوٹر سیکھ کر وہ کسی نزدیکی دفتر یا کارخانہ میں چند ہزار کی نوکری کر سکے!وہ اپنی محنت اور ہمت سے اپنے افسردہ ماحول کا تدارک سوچتی تھی،اس کی یہ خواہش جتنی پاکیزہ تھی،اس کا نصیب اتنا ہی تھکا ہوااور شکست خوردہ نکلا!شمع اور اس کی اکیڈمی کا ایک ٹیچر عمران اتفاق سے ایک ہی محلہ میں رہتے تھے،کمپیوٹرکی ابجد سیکھتے میںشمع ایک دن عمران پر فدا ہو گئی،بھئی!

اب یہ مت پوچھنا کہ اسے اس بلا خیز محبت کا سلیقہ کیوں کر نصیب ہو گیا اور یہ کہ کیا وہ محبت کے معانی کے تقاضوں پر کھری اترنے والی تھی!میرا تخیل کہتا ہے کہ محبت کرنے کی ساری ادائیں گلاب کی پنکھڑی کی طرح اس کے دل نامی چمن میں کب سے کِھلنے،کِھل کر مِہکنے اور مِہک بانٹنے کے بعد اپنا آپ مرجھانے پر تُلی بیٹھی تھیں!بہ قولِ شاعر
شمع کو پگھلنے کا ارمان کیوں ہے
پتنگے کو جلنے کا ارمان کیوں ہے
اسی شوق کا اِمتحاں زندگی ہے
محبت تو اِک جاوداں زندگی ہے!

اُدھر عمران کمپیوٹر اکیڈمی کو وقت دینے اور خود کالج پڑھنے کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی کیا کرتا تھا،عمران کی صورت اور سیرت دونوں کو خالق نے کمال کا بنایا تھا لیکن اس کے مستقبل کے لئے نصیب کی تختی پر کچھ اور ہی لکھا تھا جس پر کسی انسان کا اپنا بس نہیں چل سکتا!وہ قریب بیس سال کا ہُوا چاہتا تھا،سجیلا،آنکھوں میں زندگی کی چمک،فطرت میں خداداد ملنساری،بڑا ہی کم گو،ہنستا،امید سے ناطہ استوار رکھتا، بہن ،بھائیوں پر دل وارتا،رشتہ داروں سے میل جول کا فرض نِبھاتااور سب سے زیادہ اپنی سادہ دل اور ایثار پیشہ ماں کا وہ سب سے لاڈلا اورمن چاہا تھا!اس کے اورمیرے وجود اور احساسات کے درمیاں کتنے شیریں رشتے تھے اگر میں اس کا حال لکھنے بیٹھ جاﺅں تو الگ سے ایک کتاب مرتب ہوجائے،وہ اپنی وضع قطع ا ور لباس کی نفاست کے اعتبار سے بانکا نوجوان تھا،ابھی عمران کا ہوش ٹھیک سے سنبھلا بھی نہ تھا کہ اس پر سے مشفق باپ کا سایہ اُٹھ گیا،جواسے سب سے زیادہ چاہتا تھا وہ ہی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو اس دنیا میں اکیلا اور روتاچھوڑ گیا!باپ کے بچھڑ جانے کا دردانسان کو کتنا کم زور اور کھنڈر کر جاتا ہے شاید میں سب سے زیادہ اس کی گہرائی اور گیرائی کا ادراک رکھتا ہُوں!تا ہم عمران کی شکستہ دلی پر خداوند نے بہ تدریج ایسا مرہم رکھا کہ وہ اپنے اندر کے دُکھ کو چُھپانا اور سہنا سیکھ گیا!اس کی سوچ تعمیری اورپختہ ہوتی چلی گئی،وہ میری زیست کا ایک انمٹ اور ناگزیر حصہ تھا مگر اے کاش متذکرہ بیس سالوں میں ،میںاس سے کم،بہت ہی کم قریب رہ سکا،میری زندگی کی بیش قیمت متاع میں سے ایک اور عزیز ترین یاد اس کی آخری بارمیرے گھر( ایبٹ آباد )آمد ہے،ایک،دو سالوں کے بعد یہ ملنا میرے احساس کو توانا کر گیا اور اس کا متاثر کن سراپامیں نے آخری بار اپنے دل کی تختی پرنقش سا کر دیا،اس رات عمران اپنی ماں اور چھوٹے بہن،بھائیوں کے ساتھ میرے ہاں قیام کے دوران بڑا پُر سکوں اور شادمان لگ رہا تھا،اگلی صبح ہم کافی فیملی ارکان عمران کی خواہش پر دریائے ہرنو کی سیرکو چل پڑے،وہ سیاحت اور فطری نظاروں کا بڑا دلدادہ تھا،میں نے موبائل کیمرہ سے سب کی تصویریںلینی کیں،عمران کی باری آئی تو میرا دل رکھنے اور اچھا پوز دینے کے لئے وہ ایک بھاری چٹان پہ بیٹھ گیااور شائستہ مزاجی سے مسکرا کر بولا،”اب لیں میری تصویر،“وہ اکلوتی تصویر بعد میںمیرے موبائل سے انجانے میں ڈیلیٹ ہو گئی اور کچھ دنوں بعد عمران بھی اس جہانِ فانی سے سچ مُچ منہ موڑگیا،آمدم بر سرِعنوان اپنے ہم عمروں کی طرح اس کے دل میں بھی جانے کتنے ارمان ،رومانی خیال اور حسیں خواب پنپتے،سنورتے رہتے ،میں اس بارے زیادہ نہیں جانتا تھا،البتہ مجھ کو یہ معلوم تھا کہ باپ کی یاد سے عمران کی رُوح کتنی گھائل رہتی ہے!یہ یاد ہی اس میں جینے اور زندگی سے والہانہ پیار کرنے کی اُمنگ جگاتی،اس کے بابا نے اپنی زندگی میں بانسری سے بے پناہ پیار کیا،وہ اپنے اندر کا درد چُھپانے کے عادی تھے لیکن جب یہ درد بڑھ جاتا تو وہ اپنی رسیلی بانسری کو اپنا راز داں کر لیتے اوران کے گداز جذبوں کی ساری ان کہی اور ان سُنی باتیں اس بانسری کے دل دوز سُروں میں ڈھل ڈھل جاتیں،یہ بانسری عمران کے بابا کو اتنی عزیز تھی کہ وہ ان کے ہر سفر میں ان کی بہترین ہم سفراور مونس ہوا کرتی،ایک بار جب وہ فرانس ایک پیشہ ورانہ کورس پر گئے تو انہوں نے اپنے سفری سامان میں سب سے پہلے اپنی بانسری کو جگہ دی،بابا کی موت کے بعدیہ بانسری عمران کی سب سے عزیز ہمراہی بن گئی،وہ جہاں کہیں بھی آتاجاتا ،یہ بانسری اس کے ساتھ ہوتی کہ اس کے بچھڑے بابا کی اِک انمول نشانی تھی،کبھی وہ اپنے باپ کی نشانی سندھی ٹوپی کو سر پہ رکھ لیتا تو اسے لگتا جیسے اس کا بابا پیار سے اس کی کلائی تھامے کہیں گھمانے لے جا رہا ہو،عمران کا جو اثاثہ چھوٹی عمر میں سب سے قابلِ دید تھا وہ اپنی ماں سے کائنات کی وسعتوں سے زیادہ پیار،مزاج میں ٹھہراؤ اور سنجیدہ اپروچ تھی،اس کے سامنے اچھا اور تعلیم یافتہ بننے کی ایک ہی راست سمت تھی جس پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر وہ پیار ویار اور محبت کی بُھول بھُلیوں سے دُور رہنے پر مامور رہتا تھا حالانکہ اس کی سجیلی صورت بستی کی کئی دل جلیوں کے پہلُو میں اپنے آپ جانے کب کب جا نقش ہُوئی تھی،ایک دیوانی کی ماں عمران کی ماں سے اکثر یہ پوچھنے لگیںکہ ان کا بیٹا کہاں تک پڑھے گا اور یہ کہ اس کی شادی کے لئے ماں کے دل میں کیا آرزو پوشیدہ ہے، صرف دیوانی اور شمع کے عمران پر دل ہارنے ہی پر موقوف نہ تھا بلکہ وہ کچھ اور دلوں کو بھی اپنے آپ بھاتا چلا گیاجس سے عمران کو اپنے تئیں کوئی سنجیدہ غرض نہیں تھی کیوں کہ دل جلیوں کے شبنمی خواب ان کے اپنے اور یک طرفہ تھے جب کہ عمران کے سامنے نصب العین کچھ اور تھا،وہ روزانہ جب بھی کالج یا جاب پر جانے لگتا تو گھر میں آئینہ کے رُوبرو ہو کر اپنی آرائش کے عمل میں منٹوں خرچ کر دیتاجس پر اس کی ماں شفقت سے چھیڑ کر کہتیں،”تم تو ایسے تیار ہوتے ہو جیسے کوئی لڑکی ہو!“اپنی ماں کے ان کمنٹس پر اس کا اداس جِی کِھل اُٹھتا اور وہ رد عمل میں احترام اور پیار سے لبریز مسکراہٹ اپنی ماں کو تحفہ کر کے شرمیلے انداز میں گھر سے کھسکنے میں اپنی عافیت سمجھتا،اُدھر لمبے دن بیت گئے لیکن عمران کے دل میں شمع کے لئے محبت کا جذبہ کہیں نظر نہ آیا،شمع کے لئے یہ پہیلی بُوجھنی بہت دشوار تھی کہ آخر اس کی سچی محبت عمران کا دل پگھلا کیوں نہ سکی!

دن گزرتے گئے،شمع کے خیالوں میں عمران خُوشبو بن کر نغمگی کرتا!پھر وہ وقت آیا جب شمع کے دل کو اس تشویش نے آن گھیرا کہ جسے وہ اتنا پیار کرتی ہے وہ کبھی اس کا ہو بھی سکے گا یا نہیں!ایک دن جب محبت کی پُجارن سے اپنی ماں سے پیار کا جذبہ مزید چُھپا کر رکھنا مشکل ہو گیا تو اس نے ہمت کر کے اپنی ماں کو سارا ماجرا سُنا دیا،ماں کو شمع کایہ بتانا عجیب سا لگا کہ وہ کسی ہمسایہ لڑکے کو چاہتی ہے،ماں نے درشت ردعمل دینے سے بہ مشکل احترازکیا اور نرمی سے شمع کو سمجھانے لگی کہ وہ پیار ویار اور محبت کے قصہ میں نہ پڑے اور یہ کہ یہ سب تو صرف وقتی اور جذباتی معاملہ ہوتا ہے،شمع کو ماں کی یہ نصیحت بڑی کڑوی لگی لیکن وہ سیانی بن کر خاموش رہی،پھر وہ اپنی ماں کو اس بات پر منا کر رہی کہ کسی دن وہ عمران کے گھر جا کر اس کی والدہ کا ارادہ معلوم کریں،ماں آخر سراپا شفقت و دُعا تھی،کوئی جلاد یا بے رحم تو نہ تھی وہ اپنی لاڈلی کی بات مان گئی،ماں کا وعدہ سننے کے بعد اس کے پریشاں دل کو جیسے قرار سا آگیا،اس دن وہ بڑی خوش رہی جیسے اسے حقیقت میں اپنے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہو،وہی جانتی تھی کہ آج کتنے دنوں بعد اس کا اپنا آپ قلبی مسرت سے ہمکنار ہُوا تھا،اسی خوش کن خیال کا سہارا لے کر رات کو وہ جلد اور خراماں خراماں سو گئی،پھر ایک دن شمع کی ماں عمران کے گھر جا وارِد ہو گئیں،ادھر اُدھر کی باتوں کا سہارا لینے کے بعد چائے پیتے میں شمع کی ماں نے اپنے مطلب کی بات کر دی،عمران کی ماں نے یہ سوال حیرت سے سنا اور صاف گوئی سے جواب دیا کہ ابھی ان کا بیٹا چھوٹا ہے اور یہ کہ وقت آنے پروہ اپنے خاندان کو ترجیح دیں گی،یہ دوٹوک جواب سن کر شمع کی ماں واپس چلی گئیں،ماں نے شمع سے کہا کہ ادھر سے کھرا جواب دے دیا گیا ہے، اب وہ بھی عقل سے کام لے اور اس لڑکے سے شادی کا خیال دل سے نکال دے!عمران کی ماں کے کورے جواب کا حال سن کر شمع بھلا کیسے بے حال نہ ہوتی!جس شبنمی خواب کو اس نے پال پوس کر بڑا کیا تھا اب وہی خواب اس کے لئے سراب نکلا تھا،اس رات وہ جی بھر کر کیسے نہ روئی ہو گی،عمران کی ماں کی ایک”نہ“نے اس کے سارے سپنوں کو اُدھیڑ اور بکھیر کے جو رکھ دیا تھا!اگلی صبح جاگنے پر اسے کچھ بھی تو یاد نہ تھا کہ رات کو کتنی دیر تک روئی اور پھر جانے کس پہر اسے نیند آگئی تھی!دوسری طرف عمران،شمع کی کیفیت جان کر بھی محبت کے اظہار یا اقرار سے قاصر رہاکہ اس کی منزل توکہیں اور، اور در حقیقت وہ اس سے بھی کہیں زیادہ دشوار مظاہر سے آراستہ تھی،شومئی قسمت ایک دن عمران معمول کے مطابق اپنی جاب کے لئے موٹر سائیکل لے کر روانہ ہوا،شفقتوں اور دُکھوں سے بوجھل ماں نے اسے کتنی سُندر آشاؤں سے گھر سے رخصت کیا لیکن اُدھر موت کا فرشتہ گھات لگانے اور ریکی کرنے کے سے انداز میں عمران کے پیچھے ہو لیا،ایک پُرہجوم سڑک پر کافی آگے جانے کے بعد موٹر سائیکل اچانک بے قابو ہو کر سڑک پر ایک دھماکہ کے سے انداز میں گر گئی،عمران کی سانسوں کی مالا جس سے بے چاری شمع کو اپنی جاں سے زیادہ لگاؤ تھا کے ٹُوٹنے کی ساعت اب بالکل سر پر آن پہنچی تھی،عمران سڑک پر بے بسی سے اپنی زندگی کو بُجھتا دیکھ رہا تھا،اچانک ایک بھاری گاڑی فراٹے بھرتی نمودار ہُوئی ،اس نے عمران کے پاکیزہ بدن کو بلا کی سختی سے کُچل کر رکھ دیا،کچھ آگے پہنچ کر ڈرائیور گاڑی کوکنٹرول کرنے میں کامیاب ہو کر وہیں رُک گیا ،لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی،رمضان کے آخری عشرہ کی وہ سہ پہر کتنی المناک تھی،عمران کی ماں تصور میں قریب ہوتی شام کو سوچ رہی تھی جب اس کا روزہ دار ،سوہنا اور من موہنا بیٹا جاب سے واپس آکر افطاری کا سامان تیار کرنے میں اپنی چھوٹی بہنوں اور ممتا کا ہاتھ بٹائے گا،جب مغرب کی اذان ہونے پر فرشتہ دل ماں ساری کائنات کا پیاراپنی آنکھوں میں سمیٹ کر پہلے اپنے لاڈلے کے ہاتھ میں نرم و شیریں کھجور تھمائے گی اور اپنے ہونہار اور با ادب لخت ِ جگر کے سراپا کو شکر مند نگاہ سے دیکھنے کے بعد انکسار اور دعا کے ساتھ اپنا روزہ کھولے گی،اُدھرعمران کی خوش خصال روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے،اُس شام بستی کے دو گھروں میں صفِ ماتم بچھی تھی،ایک گھردُکھوںکی ستائی ماں کا تھا تو دوسرے گھر میں عمران کی موت کی خبر بجلی بن کر شمع کے دل پرگری تھی ،عمران کی اندوہناک موت کا سُن کر شمع پر جیسے سکتہ سا طاری ہو گیا،دیر تک وہ اپنے حواس ہی میں نہ پائی گئی،بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا گیا لیکن جس کا من چاہا موت کی وادی میں جا بسا ہو اسے بھلا سکون اور برداشت کی دولت کون دے!رات کے درمیانہ پہر عمران کی میت جہاز سے اس کے آبائی گھر لائی گئی جہاں وہ ہزاروں اشکبار آنکھوں کو زندگی کی صریح ناپائیداری کا سبق دے کر اپنے مرحوم باپ کی قبر کے پہلو میں جا دفن ہوا،عمران کی قبر پر اپنوں کی طرف سے بچھائے گئے پھولوں کی خوشبو ابھی ماند نہیں پڑی تھی کہ اُدھر شمع کا محبت کے جاوداں احساس سے دھڑکتا دل عمران کی یاد سے سلگنے لگا،شمع نے اپنی ماں سے درد بھری التجا کی کہ وہ اسے ایک بار عمران کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دے دیں پھر وہ ان سے آئندہ کوئی تقاضا نہیں  کرے گی،ماں کا دل شمع کے دل کی وحشت اور ویرانی خوب جانتا تھا،اس لئے ماں نے شمع کو طویل سفر سے باز رکھنے کی اپنی سی کوشش کی،مگر آخر کار شمع جیت گئی،اگلے دن اس کا دل کیا کہ وہ ہوا میں اُڑ کر ریلوے سٹیشن پہنچ جائے،وہ اپنے کم سن بھائی کے سنگ ریل کے ایک کمپارٹمنٹ میں اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گئی،وہ ریل میں سوار تھی لیکن اس کا دل تخیلاتی اڑان بھر کر کب کا عمران کی قبر کے پاس پہنچا ہوا تھا!سفر میں کب کون سے سٹیشن آئےاور کتنے اور کیسے منظر ریل کی پٹری کے ساتھ وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی اسے کچھ یاد نہ تھا،شام ڈھل جانے کے بعدایک سٹیشن پر اسے اپنے بھائی کو کھانا کھلانے کا خیال آیا،اس نے تیزی سے ایک سٹال سے بھائی کے لئے مختصر کھانا خریدا اور خود اپنے لئے کھانا اس لئے نہ خریدی کہ کھانے کے لئے زندگی بھر کا غم اس کا اپنا ہو گیا تھا،شمع نے بڑے پیار اورملائمت سے اپنے بھائی کو کھانے میں مصروف کیا،اپنے اندر کی اداسی سے فرار حاصل کرنے کے لئے جب اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو سامنے ہر طرف نظاروں پر چاند اپنی مدہم چاندنی اُنڈیل رہا تھا،اس نے غور سے چاند کی طرف دیکھا تو چاند کےعین درمیان اسے بادلوں کی اِک ٹکڑی کا سامنظرلگا،میں چشم ِ تخیل سے اب بھی یاد کرتا ہُوں،رات کی تاریکی سے لڑتی بھڑتی چاندنی کی ایک کرن راستہ پوچھتی ہوئی شمع کی نزدیکی کھڑکی سے کمپارٹمنٹ کے اندر تک پہنچ کر نہ صرف ایک طلسماتی منظر کو جنم دے رہی تھی بلکہ جیسے سرگوشی کے انداز میں
شمع سے کہہ رہی ہو!
دل!سنبھل جا ذرا
پھر محبت کرنے چلا ہے تُو
دل!یہیں رُک جا ذرا
پھر محبت کرنے چلا ہے تُو

نصیبوں جلی شمع نے چاندنی کے پندونصیحت کے جواب میں آگے سے ترکی بہ ترکی یہ جواب دیا ہو گا!
شمع کو پگھلنے کا ارمان کیوں ہے
پتنگے کو جلنے کا ارمان کیوں ہے
اسی شوق کا امتحاں زندگی ہے
محبت تو اِک جاوداں زندگی ہے!
sajjad haider tanoli
About the Author: sajjad haider tanoli Read More Articles by sajjad haider tanoli: 2 Articles with 4119 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.