حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ ۔۔۔ایک مثالی حکمران

اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنے حسن تدبر اور حسن انتظام سے روئے زمین پر ایک ایسی مثالی سلطنت اور نمونے کا ایسا معاشرہ قائم کیا جس کے لئے چشم فلک آج پھر ترس رہی ہے ۔حضور اکرم ﷺ کی عظمت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ کارنامہ اس ماحول میں سر انجام دیا جب عام آدمی کو معمولی سی تبدلی بھی کوہ گراں معلوم ہوتی تھی ۔ان حالات میں آپ ﷺ نے ایک صالح نظام حکومت کی بنیاد رکھی ۔آپ ﷺ کی شخصیت کے اس پہلو پر ایک غیر مسلم مصنف کہتا ہے کہ۔”آپ ﷺ مذہب کے ساتھ ساتھ ریاست کے سربراہ بھی تھے ۔اگر چہ آپ ﷺ کی شخصیت میں قیصر اور پوپ دونوں کا اقتدار شامل تھا لیکن نہ تو آپ ﷺ کو پوپ کا سا جھوٹا فخر و غرور تھا اور نہ ہی قیصر کی طرح کوئی فوج آپ ﷺ کے پاس تھی ،نہ کوئی پاسبانوں کا گروہ تھا نہ کوئی محل تھا اور نہ کوئی مقرر آمدنی تھی ۔ اگر کبھی کسی انسان کو حکومت کرنے کا خدائی حق نصیب ہوا ہے تو وہ محمد مصطفےٰ ﷺ تھے کیونکہ اگر چہ انہیں اقتدار مطلق حاصل تھا مگر اس کی سب ظاہری اشکال اور مادی سہارے مفقود تھے ۔“

حضور اکرم ﷺ کے تدبر و فراست کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ آپ ﷺ کے تمام فیصلے ،احکام اور ارشادات دوبنیادوں پر مبنی ہوتے تھے۔ ایک وحی و الہام اور دوسرے پیغمبر انہ بصیرت وحی اور الہام ایک بے خطا حقیقت ہے لہٰذ ااس سے بہتر فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔جہاں تک پیغمبرانہ بصیرت کا تعلق ہے وہ بھی ہدایت خدا وندی سے فیض یاب ہے اس لئے اس کی روشنی میں انجام پانے والے تمام امور عام انسانی بصیرت سے بدر جہا بہتر اور بلند تر ہیں۔

نبی اکرم ﷺ چونکہ امی تھے اس لئے آپ ﷺ کی جملہ تربیت الہٰی تجلیات و انوار ہی سے ہوئی تھی ۔خالق کائنات نے آپ ﷺ کی پیغمبرانہ حیات ظاہری سے پہلے قلب و دماغ اور روح و مزاج کی تربیت اس نہج پر کی کہ آپ ﷺ بلا تکلف درست اور صحیح فیصلے فرماتے ۔ قرآن پاک نے آپ ﷺ کی حیات قبل از اعلان نبوت کو بطو ردلیل پیش کیا ہے ۔ترجمہ:”بلا شبہ میں نے تمہارے درمیان ایک عرصہ گزارا ،کیا تم سمجھتے نہیں۔“(سورة یونس)

چالیس برس کی عمر میں آپ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس اعلان کے ساتھ ہی آپ ﷺکی حیثیت بدل گئی شخصی عظمت اور انفرادی صلاحیت کی جگہ اجتماعی تحریک کی سر گرمی سامنے آئی ۔ ظاہربات ہے کہ شخصی معاملات میں تدبر و فراست کا دائرہ مختلف ہوتا ہے اور تحریکی زندگی کے لئے تدبر و فراست کا دائر مختلف۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفتوں کے طوفان اٹھتے ہیں ،مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں ۔معاشرتی مقاطعہ ہوتا ہے اور فقاءکے لئے عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے ۔بھوک و پیاس اور فاقے قدم روکتے ہیں ۔خود قائد تحریک کے لئے خوف و لالچ کے بے شمار مراحل آتے ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کا روان شوق کو اپنی پیغمبرانہ بصیرت و تدبر اور تائیدایزدی کے ذریعے بچا کر منزل کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اگر آپ ﷺ میں فراست کی ذرہ بھر کمی ہوتی (نعوذ باللہ)تومکہ میں تصادم ہو جاتا اور مٹھی بھر مسلمان ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتے ۔
آج ہم اپنی تاریخ کے اہم دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم اپنی تاریخ کا رشتہ پھر سے عہد نبوی ﷺ سے جوڑنے، اپنی تہذیب و ثقافت کی ٹوٹی پھوٹی کڑیوں کو ملانے اور اپنی ریاست میں مصطفوی نظام نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس مناسبت کی وجہ سے ضروری ہے کہ سید الرسل ﷺ کی سیرت کے وہ پہلو زیر بحث لائیں جو ایک ریاست کے قیام اور نظام مصطفےٰ ﷺ کے نفاذ سے تعلق رکھتے ہیں۔

جب بھی کوئی نیا نظام نافذ کرنا ہوتا ہے تو اس کےلئے پہلے ایک ایسی ٹیم تیار کی جاتی ہے جو نہ صرف اس نئے نظام کی جزئیات سے آگاہ ہو بلکہ اس پر غیر متزلزل یقین بھی رکھتی ہو۔ اسی بنیادی اصول کے پیش نظر حضور اکرم ﷺ نے ایک طویل عرصہ مکہ میں تبلیغ اسلام کرتے ہوئے گزارا ۔آپ ﷺ کی انتھک کوششوں کی وجہ سے اچھا خاصا طبقہ مسلمان ہو گیا مگر ابھی ایک ضرورت باقی تھی یعنی ایسا خطہ زمین جہاں کی آبادی مکمل طور پر یا اکثر طور پر اس نظام کے قبول کرنے پر تیار ہو۔کیونکہ مکہ میں اکثر یت غیر مسلم تھی ۔ ایسی حالت میں اسلامی نظام قانون کا نفاذ بے اثر ہو کر رہ جاتا ۔یہاں یہ بات عرض کر دوں کہ تحریک پاکستان کے رہنماﺅں کے ذہن میں بھی یہ اصول تھا یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ ہم نے ایک مناسب خطہ زمین حاصل کر لینے کے بعد اپنے مقصد کو پس پشت ڈال دیا ۔ افسوس ! کہ ہماری مذہبی قیادت اس حوالے سے غافل نظر آتی ہے ۔مذہبی جماعتوں پر اس نظام کو پاکستان کی سر زمین پر غالب و نافذ کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہے ۔عجب ہے کہ سب سے زیادہ بے نیازی ،غفلت اور لا پرواہی انہی کی طرف سے برتی جا رہی ہے اور اس نظام کو وطن عزیز میں نافذ کرنے کی عملی تیاری اور مراحل انقلاب سے کاروان شوق کو بسلامت لے کر نکل جانے والی کوئی ٹیم نظر نہیں آتی اور غالباً ایسی کسی انقلابی ٹیم کی تیاری کی شعوری ضرورت بھی ابھی تک محسوس نہیں کی گئی ۔مگر جب عہد رسالت میں مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تو حضور اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تاکہ مدینہ منورہ میں اسلامی نظام نافذ کر کے ایک مثالی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی جا سکے ۔

سرکار مدینہ ﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی یعنی ریاست کےلئے سکریٹریٹ قائم کر دیا گیا ۔اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی وسائل کو اولیت دی گئی ۔اس کے لئے ایک خوبصورت اور لطیف اشارہ قرآن مجید میں بھی ملتا ہے کہ سورة فاتحہ میں خدائے قدوس نے پہلے لفظ ”اللہ“ کو اور فوراً دوسرے نمبر پر اپنی شان ربوبیت کو بیان کیا ۔یعنی اسلامی معاشرے کے لئے فوری طور پر مسجد اور پھر معاشرتی فلاح کو ضروری سمجھا گیا چونکہ ہنگامی حالت تھی اور دوسری طرف انصار مدینہ تھے جو متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی تھے یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے ۔ایسی حالت میں محسن انسانیت ﷺ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا ۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی اس لئے اس ٹیم کے افراد نے ایک دوسرے کے لئے قربانی دی اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہو گیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معاشیات کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا جس طرح آج ہماری ساری معیشت سودی نظام پر قائم ہے ۔بالکل یہی کیفیت اس دور میں بھی تھی۔ مگر حضور اکرم ﷺ نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو کیونکہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی۔ بلکہ آپﷺ نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپﷺ نے سود کو مکمل طورپر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا ۔مگر افسوس کہ آج کی نام نہاد اسلامی حکومتیں ورلڈ بنک ،آئی ایم ایف اور دیگر یہودی اداروں سے سودی قرضے لے کر مسلمان نسلوں کو ان کے ہاں گروی رکھ رہی ہیں۔ جبکہ مسلمان معاشروں میں باہمی تعاون کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم یہود کے معاشی تسلط سے چھٹکارا حاصل کر سکتے اور یوں اسلامی معاشرے کے ایک انقلابی دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

مدنی زندگی کا مرحلہ حکمت:آپ ﷺ کے تدبر اور فراست کے لئے عملی آزمائش مدینہ منورہ میں پیش آئی ۔آپ ﷺ کی مدنی زندگی ایک بھر پور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے ۔انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپ ﷺ نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالی ہیں ۔مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ کی حیثیت مکے سے مختلف ہو گئی تھی ۔کیونکہ مکہ میںمسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے جبکہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی ۔ پھر آپ ﷺ نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپ کو منتظم ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا ۔اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کامیابی تھی ،لیکن پر سکون معاشرے کےلئے ابھی بہت کچھ کرنا تھا ۔مستحکم معاشرے اور پر سکون اجتماعیت کے لئے آپ ﷺ نے شاندار اقدامات کئے ۔

مواخات کا منصوبہ اور پیغمبرانہ بصیرت:مواخات کے طرز عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی ۔ جن لوگوں میں مواخات قائم کی گئی تھی ان کے متعلق دلچسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں ۔ رسو ل اللہ ﷺ کی فکر نو جس میں آپ ﷺ سابقہ انبیائے کرام سے منفرد تھے ایک نئی طرح کی فکر تھی ۔جسے حضور اکرم ﷺ نے ایسی بصیرت اور دور اندیشی کے ذریعے قائم کیا کہ کسی صاحب دانش کو آپ ﷺ کی اصابت فکر کے سامنے سر جھکائے بغیر چارہ نہ رہا ۔یعنی یہ کہ جدید وطن کو ایسی وحدت میں منسلک کیا جائے جو آج تک عربوں کے وہم و خیال میں بھی نہ آسکی ۔رسول عالمین ﷺ کو مسلمانوں کے درمیان مواخات قائم ہوجانے سے طمانیت حاصل ہو گئی ۔اگر اس پر غور کیا جائے کہ مدینہ منورہ کے منافقین قبیلہ اوس اور خزرج کے مسلمانوں کی طرح پھوٹ ڈلوانے کے لئے پرتول رہے تھے تو اس مواخات کی حکمت و سیاست کی اہمیت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا ۔ مدینہ کے انہی منافقوں نے مہاجر و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی مہم بھی شروع کر رکھی تھی مگر مواخات نے ان کی چالیں ختم کر دیں۔

انتظام اور امن کا دستو العمل:اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لئے مسلم اور غیر مسلم کسی خاص نکتے پر متفق ہوتے ۔اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملتی اور بیرون مدینہ کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملہ کی جرات نہ کرتے ۔

انہی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آنے کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا اور جسے بظاہر متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا یہ بات قابل ذکر ہے کہ عام قانون قرآن حکیم کی صورت میں جیسے جیسے نافذ یا نازل ہوتا رہا تحریری صورت میں مرتب کر دیا جاتا تھا اور منکسر المزاج اور احتیاط پسند پیغمبر اسلامﷺ نے اس زمانے میں اپنے ذاتی اقوال و ہدایات کو لکھنے کی عام طور سے ممانعت فرما دی تھی۔

اس کے باوجود زیر بحث دستاویز کا لکھا جانا معنی خیز ہے۔ جسے کتاب اور صحیفہ کے اہم ناموں سے یاد کیا گیا ہے ،جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامے کے ہیں ۔اصل میں اس کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ ”شہری مملکت “ قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا ۔ اس معاہدے سے نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظم عطا کیا اور اس کے لئے خارجی خطرات سے نبٹنے کی بنیاد قائم کی ۔اس دستاویز نے نبی کریم ﷺ کو ایک منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا اور یہ آپ کی زبردست کامیابی تھی ۔

اس دستاویز میں ایک دفعہ لفظ”دین“ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اوریہ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کو پیش نظر رکھے بغیر مذہب اسلام اور سیاسیات اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔

بقول محمد حسین ہیکل”یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ معاشرہ انسانی میں قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا ۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی ۔اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی ارتکاب جرم پر گرفت اور مواخذہ نے دباﺅ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی (شہر مدینہ) اس میں رہنے والوں کےلئے امن کا گہوارہ بن گئی ۔غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقاءکا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں ) پر دست استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔“

اسلامی ریاست کا تصور:یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا ،یہاں سے حضور اکرم ﷺ کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے ۔اب تک آپ ﷺ کے تدبر فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لئے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے ۔ آپ ﷺ کی سابق کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن منتظم سلطنت کی نہ تھیں۔

اب آپ منتظم ریاست کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ لہٰذا آپ کے تدبر کا مطالعہ اسی زاوےے سے کرنا ہو گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین رہنی چاہےے کہ آپ ﷺ کے پیش نظر ایک اہم مقصد ایک صالح معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لئے حکومت کا ہونا ناگزیر تھا ۔ آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ تعالیٰ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اب ایک اسلامی ریاست کے قیام کی حرکت تیز ہو گئی ۔آپ ﷺ کی حکومت دینی حکومت تھی اور اس کا مقصد دعو ت دین، اصلاح اخلاق اور تزکیہ نفس تھا ۔ قرآن پاک نے اسلامی ریاست کا مقصد متعین کر دیا ہے ۔ترجمہ:”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے زکوٰة دیں گے ،معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے۔ “(سورة الحج)

یہ آیت آپ ﷺ کی حکومت کے طریق کا ر کو متعین کرتی ہے ۔آپ ﷺ کی حکومت کا مقصور رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا ۔اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی ۔اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا ۔منتظم ریاست کی حیثیت سے آپ ﷺ کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ ﷺ کی حقیقی عظمت کا پتہ دیتی ہیں۔
نبی رحمت ﷺ کی داخلہ پالیسی:معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا:آپ ﷺ نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا۔ ان غیر مسلموں کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔

امور داخلہ میں آپ ﷺ نے خصوصی توجہ استحکام امن اور اخلاقی تربیت کی طرف رکھی ۔شہری ریاست کو اندرونی خلفشاری سے بچانے اور استحکام بخشنے کے لئے آپ ﷺ نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔ مواخات اور میثاق مدینہ کے علاوہ قریبی قبائل سے معاہدے کئے اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی ۔

آپ ﷺ نے ایک تدبیر اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و سیاسی پوزیشن مضبوط ہو ۔ اس طرز عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان فوج کے لئے محفوظ رضا کاروں میں روز افزوں اضافہ ہوا اور نو مسلموں کے لئے تربیت و تعلیم کا انتظام ہوا۔

نبی رحمت ﷺ کی خارجہ پالیسی:خارجہ پالیسی کے لئے حضور اکرم ﷺ نے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا ۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کمزور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوفزدہ تھے کیونکہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین ﷺ نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔

اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول ہے با وقار زندگی کے لئے پر امن جدو جہد اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کاروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔

نبی رحمت ﷺ کا نظام تعلیم:اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ۔آپ ﷺ نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی کو باقاعدہ درسگاہ کا درجہ حاصل ہو گیا ۔غیر مقامی طلبہ کے لئے چبوترہ ڈالا گیا جس کو صفہ کہا گیا ۔یہاں یہ طلبہ قیام کرتے تھے ۔عرب میں چونکہ لکھائی کا رواج نہ تھا اس لئے مسجد نبوی ہی میں عبد اللہ بن سعید بن العاص اور عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھلانے پر مامور کیا گیا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھلائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم بھی ہر جوان کے لئے ضروری قرار دی گئی ۔خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجہ کا انتظام بھی کرتی تھیں۔حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔

احترام آدمیت:نبی اکرم ﷺ کی داخلی سیاست کا ایک اہم جز و احترام انسانیت تھا ۔گو آپ ﷺ کو انتظامی امور کے ذریعے معاشرے کے مختلف عناصر کو مربوط رکھنا تھا ۔ نیز اسلامی ریاست کی حدود کو وسیع کرنا تھا مگر آپ ﷺ نے کشت و خون سے گریز کی پالیسی پر عمل کیا اور بیجا تشدد کا کوئی موقعہ نہیں آنے دیا ۔آپ ﷺ نے ملک کے دفاع اور اسلام کی عظمت کے لئے جنگیں بھی لڑیں لیکن یہ بھی عام جنگوں سے بلکل مختلف نوعیت کی تھیں۔

ایک مورخ نے لکھا ”عہد نبوی ﷺ میں دس سال میں دس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح ہوا ۔ جس میں یقینا کئی لاکھ آبادی تھی ۔اسی طرح روزانہ تقریباً 274مربع میل کی اوسط سے دس سال تک فتوحات کا سلسلہ ہجرت سے وفات تک جاری رہا ۔ان فتوحات میں دشمن کا ماہانہ ایک آدمی قتل ہوا اور اسلامی فوج کا نقصان اس سے بھی کم ہے ۔

(جنگ بدر میں)دشمن کے ستر آدمیوں کا مارا جانا سب سے بڑی تعداد ہے ۔ یاد رہے کہ عہد نبوی ﷺ کی سب سے بڑی جنگ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے اصولی لحاظ سے یہ بات محکم تھی کہ انسانی خون کا احترام کرانا ہے ۔

وزارت نبوی ﷺ:حضور اکرم ﷺ کی شخصیت میں عام تقسیم کے مطابق دینی و دنیاوی دونوں حیثیتیں جامع طور پر موجود تھیں ۔ آپ ﷺ کی حکومت اساسی طور پر دینی تھی اس لئے آپ کی سیاست بھی دینی تھی ۔انتظام سلطنت کے بعض امور و ہ تھے جن کا تعلق وحی اور الہام سے ہوتا ۔اس میں آپ کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم آپ ﷺ کا معمول تھا کہ مختلف معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کرتے تھے ،قرآن کریم آپ ﷺ کی الہامی حیثیت کو اس طرح بیان کرتا ہے ۔ترجمہ”ہم نے آپ ﷺ پر برحق کتاب اتاری تاکہ آپ ﷺ لوگوں کے درمیان حکومت اللہ کے احکام کے مطابق انجام دیں۔ “(النساء۔105)

رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرتے تھے اور عام اور خاص معاملات ان کے سپرد کرتے ۔خاص طور پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دوسروں کی نسبت خصوصیت دیتے۔ یہاں تک کہ وہ عرب جو قیصر اور کسریٰ اور نجاشی کی سلطنتوں اور ان کے حالات سے واقف تھے۔ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کا وزیر کہا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کی شخصیت کے اس پہلوکو جس کا تعلق عام معاملات سے ہے قرآن پاک نے مشورے کے اصول سے واضح کیا قرآن کریم کا حکم ہے کہ آپ مشورہ کریں۔”ان سے معاملات میں مشورہ کریں اور پھر جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ رکھیں۔“(آل عمران 159)

ملکی تقسیم:آپ کے حسن انتظام کا ایک پہلو وہ ملکی تقسیم ہے جس سے سلطنت داخلی طور پر مستحکم ہوئی۔ آپ ﷺ کے عہد میں بعض علاقے بذریعہ فتح اسلام کے زیر نگیں اور بعض معاہدات کے تحت قبضے میں آئے جو علاقے فتح کے ذریعے قبضے میں آئے وہاں آپ ﷺ نے گورنر مقرر کئے ۔مثلاً حجاز اور نجد کے صوبہ کا گورنر کو بنایا جس کا صدر مقام مکہ تھا اور جو علاقے صلح نامے کے ذریعے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے ان کے حکمران وہیں کے امراءرہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے اسلامی حکومت کا انتظام چلانے کے لئے مختلف اوقات میں عامل(گورنر) مقرر کئے ۔
افسروں کا انتخاب:حضور اکرم ﷺ کے عہد میں چونکہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لئے آپ ﷺ ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ علم و دانش اور عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے ۔ آپ ﷺ افسروں کا امتحان بھی لیا کرتے تھے ۔چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب آپ ﷺ نے یمن کا عامل مقرر فرمایا تو آپ ﷺ نے دریافت کیا ”ہاں تمہارا طرز عمل کیا ہو گا۔؟“

انہوں نے کہا”میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کروں گا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اسے اللہ کی کتاب میں نہ پاﺅ؟حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ”تو میں سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلے کروں گا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سنت رسول ﷺ میں نہ پا سکو تو؟ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا” تو میں اجتہاد کروں گا او رکوشش میں کمی نہ کروں گا“ اس پر رسول اللہ ﷺ نے خدا کا شکر ادا کیا۔یہ لوگ حاکم ملک اور والی صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ مبلغ اسلام اور معلم اخلاق کی اساسی حیثیت کے حامل تھے ۔اس لئے آپ ﷺ ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر ان کا تقرر فرماتے ۔امراءکے انتخاب میں حضور اکرم ﷺ کی حکمت عملی کا ایک اہم جز یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے ان کی درخواست رد کر دیتے ۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ ﷺ کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ترجمہ:”بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عہدے ان کے اہل لوگوں کو دئےے جائیں۔“(النساء)
تنخواہیں:عمال کو صرف اتنا معاوضہ ملتا جو ان کی ضرورت کو پورا کرتا۔ چنانچہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے ۔”جو شخص عامل ہو اس کو ایک بی بی کا خرچ لینا چاہےے اگر اس کے پاس نوکر نہ ہو تو وہ نوکر رکھ سکتا ہے۔ اگر مکان نہ ہو تو ایک گھر بنا سکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی اس سے زیادہ لے گا تو وہ خائن ہو گا یا چور۔“(ابو داﺅد)

حضور اکرم ﷺ نے سب سے پہلے عتاب بن سید رضی اللہ عنہ کی تنخواہ جو والی مکہ تھے ایک درہم یومیہ مقرر کی تھی ۔اس سے قبل ان حاکموں کی با قاعدہ تنخواہوں کا معمول نہ تھا ۔فتوحات اور مال غنیمت سے انہیں حصہ مل جاتا یہی ان کی تنخواہ خیال کی جاتی تھی ۔ عمال رشوتیں یا کسی قسم کے تحفے قبول نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی دوران ملازمت وہ کسی قسم کی تجارت کر سکتے تھے ۔

احتساب:اگر چہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم ﷺ یہ فرض خود انجام دیا کرتےتھے ۔تجادرتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی ۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد آپ ﷺ نے ان اصلاحات کو جاری کردیا ۔ آپ ﷺ تمام لوگوں سے اصلاحا ت پر عمل کراتے جو باز نہیں آتے تھے انہیں سزائیں دیتے تھے ۔آپ ﷺ کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لئے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لئے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیئے جائیں ۔اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ مجرم کو کسی گھر یا مسجد میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس کے مخالف کو اس پر متعین کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ مجرم کو لوگوں سے ملنے نہ دے ۔صحیح بخاری میں ہے ۔”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا ۔“(بخاری شریف)

آپ عمال اور افسروں پر کڑی نگاہ رکھتے کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فورا تحقیقات کراتے کیونکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے ۔اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو جائے ۔

مرکز حکومت:حضور اکرم ﷺ کا سیکرٹریٹ یا مرکز حکومت مسجد نبوی تھا ۔ آپ ﷺ تمام وفود اور سفراءسے یہیں ملاقات کرتے تھے ۔گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی ﷺ سے روانہ کی جاتیں ۔سیاسی اور دینوی معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہیں مشورہ کرتے ۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبوی ﷺ میں ہوتا ۔ تاریخ عرب میں ہے ”مسجد مسلمانوں کی مشترکہ عبادت، فوج اور سیاسی اجتماع کی جگہ تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م ہی اہل ایمان کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا کہ ساری دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔غنیمت وغیرہ کا مال مسجد نبوی ﷺ میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم ﷺ میں آتا تھا اور یہیں پر نبی اکرم ﷺ اسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔

یہ تھا ایک مثالی حکمران کا طرز حکومت ۔ وہی حکمران جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے کامل ترین نمونہ بنا کر بھیجا ۔ عالمگیر رسالت ﷺ کے حامل عالمگیر رسولِ رحمت ﷺ کی طرز حکمرانی ہی ہمارے مسائل کو حل کر سکتی ہے ۔جمہوری حکومت نے اپنے 5سال پورے کر لئے۔ نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔پاکستانی عوام اب سیاسی وابستگیاں اور برادری قبیلہ کی سیاست سے بالا تر ہو کر اسلامی طرز حکمرانیکے خواہاں افراد کا انتخاب اپنے ووٹ سے کر کے پاکستان کو نظامِ مصطفےٰ ﷺ کا گہوارہ بنا دیں ۔تاکہ ریاست مدینہ کی طرح بننے والی دنیا کے نقشے پر دوسری نظریاتی ریاست پاکستان بھی اسلام کی خوشبوﺅں سے معطر ہو جائے ۔ورنہ پاکستان کو پھر اغیار کے نظاموں کی تجربہ گاہ بنا کر لوٹا جائے گا۔ آﺅ میدان میں نکلو اور نعرہ لگاﺅ۔
ہر دکھ کی دوا۔۔۔۔۔۔۔ہے نظام مصطفےٰ ﷺ
Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 615455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.