شروع سے ہی زمیں گردش میں تھی
اور آج بھی گھوم رہی ہے ،وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں حضرت
انسان جسے ایک نطفے سے پیدا کیا گیا ،ایسا نطفہ جو نجس و پلید ہے ،پھر اسے
اشرف المخلوقات کے اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا،اس کی خواہشات دن بدن بڑھتی
جا رہی ہیں ،دنیا جدید سائنسی ایجادات کی وجہ سے گلوبل ویلیج بن چکی
ہے،شروع سے ہی یہی چلا آ رہا ہے کہ کمزور کو دبا کر اپنا رعب جھاڑتے ہوئے
حکومت کرو اور آج بھی یہی صورتحال ہے ،حضرت انسان پتھر کے دور سے نکل کر
غاروں کی اور جنگلوں کی بجائے جدید مکانات میں رہائش اختیار کر چکا ہے لیکن
اس کی محدود سوچ کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی ہے ،نحیف و کمزور کو دبانا
آج بھی جاری ہے انساں میں اقتدار کی خواہش اور اس میں توسیع بڑھتی چلی جا
رہی ہے پہلے طاقت کے منبع کچھ اور تھے لوگ اپنے زور بازو سے ایک دوسرے کو
زیر کیا کرتے تھے ،پھر تلواروں اور مجنیق کا استعمال ہونا شروع ہوا،سواری
کے لئے گھوڑوں اور اونٹوں کو استعمال کیا،دوبدو جنگیں ہوتیں ،لیکن زمانے کے
ساتھ ساتھ سائنسی ایجادات کی بدولت ان میں جدت آ گئی ایسے ہتھیار ایجاد ہو
گئے جو سیکنڈوں اور منٹوں میں کلومیٹروں تک تباہی پھیلا دیتے ہیں جہاں
انساں ترقی کی راہ پر نکلتا چلا جا رہا ہے بظاہر اپنے ہی تباہی کے ساماں
اکٹھے کر رہا ہے ،حقیقت میں یہ دنیا ترقی کی بجائے تباہی کی طرف گامزن ہے ،زخم
تو گولی سے بھی لگتا ہے لیکن زخم زباں بھی لگاتی ہے،گولی والا زخم وقت کے
ساتھ مندمل ہو سکتا ہے لیکن زبان کا لگایا گیا کاری وار ختم مشکل سے ہوتا
ہے کیونکہ انساں میں احساسات کا مادہ کافی زیادہ ہوتا ہے لیکن لگتا ہے
ہمارے حکمران طبقے میں ایسا کوئی مادہ موجود نہیں ،شاید اس لئے انہیں غریب
عوام کا احساس نہیں ہوتا ،ایک وار اور بھی ہوتا ہے وہ قلم کا وار ہوتا ہے
اور یہ وار تلوار اور گولی دونوں سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے جدید دور کے نئے
ہتھیاروں کی بات کی جائے تو ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر کوئی سبقت لے جانے
کی تگ و دو میں ہے دور جدید کے ہتھیاروں میں سب سے موثر اس وقت میڈیا کا
کردار ہے جو لوگوں کے شعور پر حملہ کر رہا ہے لوگ اسی بات کو سچ مانتے ہیں
جو ان کے ذہنوں پہ ثبت ہو جاتی ہے پاکستان میں اس وقت میڈیا ظالمانہ حد تک
آزاد ہو چکا ہے اور اسے کوئی لگام دینے والا بھی نہیں ،اسی میڈیا کے واویلا
کرنے پر جیسے سب اداروں کا احتساب ہوتا ہے اس طرح اس کا بھی کوئی چیک اینڈ
بیلنس ہونا چاہئے،پاکستان میں الیکشن سر پہ ہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے
پیسوں کی بوریوں کے منہ کھل رہے ہیں میڈیا کو خریدا جا رہا ہے کیونکہ
سیاستدان جانتے ہیں کہ الیکشن میں میڈیا کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہے ،مختلف
اینکر ز اور صحافی حضرات اپنے مریدوں (Fans)کے ذہنوں میں جو ثبت کریں گے اس
کا کچھ نہ کچھ اثرضرور ہو گا ۔
موجودہ دور میں میڈیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک پرنٹ میڈیااور
دوسرا الیکٹرانک میڈیا۔اول الذکر میں اخبار ،رسالے اور میگزین آتے ہیں اور
دوسری قسم میں ٹیلی ویژن سکرین آتی ہیں دونوں ہی اپنی اپنی جگہ نہایت اہم
ہیں میڈیا کی ایک تیسری قسم بھی ہے جسے سوشل میڈیا کہتے ہیں جس میں فیس
بک،یوٹیوب،ٹوئٹر کافی اہم ہیں سوشل میڈیا کا دائرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے کل
تک بوسیدہ کیمپیوٹر پر کام کرنے والے آج لوگوں کے شعوروں سے کھیلتے نظر آتے
ہیں ،پچھلے کچھ عرصہ سے دنیا میںجو انقلاب برپا ہوئے ہیں اور لوگوں میں
شعور و آگاہی کے ساتھ بغاوت کا جو بیج بویا گیا تھا اس میں سوشل میڈیا کا
اہم کردار تھا ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے محب وطن صحافی حضرات اور
مالکان نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی بڑے احسن انداز میں کی
ہے لیکن دوسری طرف سوشل میڈیا میں کچھ ایسے لوگ بھی عوام کے شعور سے کھیلنے
کی کوشش کریں گے جو پاکستان کی عوام میں شعور کو پنپنا نہیں دیکھ سکتے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ
سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ دنیا کے ان تیس ممالک میں شامل ہے جن میں سب سے
زیادہ سوشل سائیٹس استعمال کی جارہی ہیں گزشتہ کچھ مہینوں میں اس کے صارفین
کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ پاکستان
میں بھی شعوروں سے کھیلنے والی اس جنگ میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے
ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی کردار ادا کرے۔
ٓآخر میں یہی عرض کروں گا کہ میڈیا کے لئے کچھ ُرولزایسے بنا دینے چاہئیں
جس سے وہ خود اپنا احتساب کر سکے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین |