حضرت آدم علیہ اسلام کا ارتقاء وجود منشاء خداوندی ہے بعد از ارتقاء انسان
کے لیے اطاعت خداوندی ہے. بندہ و بشر, ارض و سماں, گردش کا ئنات, ستارہ و
سپر, چلتی ہوائیں, بہتا پانی , ساکن پہاڑ, گرتے آبشار, ابلتے لاوے, برستا
پانی, بدلتا موسم, ست رنگی کہکشاں, ہوا میں تیرتے پرندے, پانی میں مچھلیاں,
ریگستانوں میں بھاگتے اونٹ, میدانوں میں دوڑتے گھوڑے, آسمانوں کو چھوتی
نگاہیں, درود پاک پڑھتی زبانیں اللہ ہی کی ثناء بیان کرتی ہیں وہ اعلیٰ و
ارفع ترین ہے, بے عیب ہے اول و آخر ہے کائنات خداوند کرشمہ خداوندی ہے. جس
کو جو حکم ہوا وہ کام پر مامور ہوا. ہواؤں میں تیرنے والے, پانی میں غوطہ
لگانے والے ,خشکی پر بد مست بھاگنے والے کوئی بھی دوسرے کی حدوں میں نہ جا
سکتا ہے مگر صرف انسان کو شرف حاصل ہے کہ وہ جہازوں سے اڑنے لگا کشتیوں سے
تیرنے لگا اور میدانوں میں گاڑیاں بھگانے لگا اسے خداوند کی مرضی و منشاء
سے یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ حدوں کو پھلانگ سکے اور کائنات کے گھمبیر و
پیچیدہ نظام کا مطالعہ تو کرے مگر یہ اختیار سے باہر کر دیا گیا سو انسان
قیاس کی حد تک رہ گیا وہ جستجو ایام میں ہمہ تن مصروف ہے مگر جستجوء رضائے
خدائے زوالجلال سے غافل ہے یہ تمام نعمتیں جو ہمیں میسر ہیں اطاعت خداوندی
کی ترغیب ہیں صرف انسان ہی اشرف المخلوقات ہے یعنی عقل و شعور اور جستجو کی
خوبیاں رکھنے کے ساتھ ساتھ بہکنے کی بھی صلاحیت سے مالا مال ہے اور اپنی
بنائی ہوئی پر تو متکبر ہے حالانکہ وہ اللہ ہی کی دی ہوئی نعمتوں سے مزین
ہوا اور جو خالق کائنات نے تخلیق کیا اس پر تجسس کیا. حکم خداوندی ہی رضاء
خدا ہے جو ہمارے لیے اطاعت خداوندی ہے
وہ ثناء جمال عشق بیاں
عجب رنگ مُحَمَّدۖ کا سفر آسماں
لب سوز و جان با ادب بیاں
اَللہ مُحَمَّدۖ و قرآن کا عہد و پیماں |