بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم۔
تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو ہے پالنے والا تمام کے لیے۔
آنحضرت محمد مصطفٰی صلیٰ اللہ تعالی نے فرمایا جب آدمی قبر میں رکھ دیا
جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر چل دیتے ہیں، وہ ان کے جوتوں کی آواز
تک سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اس کو بٹھلاتے ہیں۔ پوچھتے
ہیں تو ان صاحب (محمد مصطفٰی صلیٰ اللہ تعالی) کے باب میں کیا اعتقاد رکھتا
تھا؟ وہ کہتا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
پھر اس سے کہا جاتا ہے دوزخ میں جو تیری جگہ تھی اس کو دیکھ لے۔ اللہ نے اس
کے بدل تجھے بہشت میں ٹھکانا دیا ہے۔ محمد مصطفٰی صلیٰ اللہ تعالی نے
فرمایا تو وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور کافر یا منافق (کمبخت)
فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے۔ میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کہتا تھا۔ جو لوگ
کہتے تھے، پھر اس سے کہا جائے گا۔ نہ تو نے خود غور کیا اور نہ عالموں کی
پیروی کی۔ پھر لوہے کی گرز سے اس کے کانوں کے بین ایک مار لگائی جاتی ہے۔
وہ ایک چیخ مارتا ہے۔ کہ اس کے پاس والی مخلوق آدمی اور جن کہ سوا سن لیتی
ہے“ (صحیح بخاری)
حضرت ابو سیعد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا آنحضرت محمد مصطفٰی صلیٰ
اللہ تعالی نے فرمایا۔ جب میت کھاٹ پر رکھا جاتا ہے تو پھر مرد اس کو اپنی
گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے آگے لے چلو
اور اگر نیک نہیں ہوتا۔ وہ اپنے لوگوں سے کہتا ہے ہائے خرابی! مجھے کہاں
لیے جاتے ہو۔ اسکی آواز ہر مخلوق سنتی ہے۔ ایک آدمی نہیں سنتا۔ سنے تو بے
ہوش ہوجائے (صحیح بخاری)
پیارے دوستوں آج تو ہم اس دنیا میں ایسے الجھے کہ اللہ اور اسکے رسول کے
حکموں کو بھول ہی گئے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور ہمیں ایک دن جانا
ہے۔ قیامت کے دن ایک فرشتہ منادی کریگا کہ فلاں ابن فلاں۔ فلاں فلاں کا
بیٹا یا بیٹی آج اسکی نیکیاں گھٹ گئی۔ وہ بازی ہار گیا۔ اب کامیاب نہ ہوگا۔
اسکے بعد فرشتے اسکو حلق سے پکڑیں گے اور جہنم کی طرف لیکر چلیں گے وہ
چلائے گا رحم کرو، فرشتے کہیں گے۔ کہ تیرے اللہ نے ساری زندگی تیرے لئے
رحمت کے دروازے کھولے پر تو نا آیا اب تو رحمان نے رحم نہیں کیا ہم کیا
کریں۔ دوزخ کے سات حصے ہیں۔ جن میں سب سے ہلکا جہنم ہے۔ اور یہ مسلمانوں
کیلیے ہے اگر جہنم کی زنجیر کی ایک کڑی زمین پر گر جائے تو وہ زمین کو
جلاتی ہوئی پار نکل جائے۔ موت سے پہلے کسی وقت بھی توبہ کرلیں تو اللہ قبول
کرتا ہے۔ اسکی رحمت بندے کا انتظار کر رہی ہے۔ لیکن وقت گزر گیا تو پھر کچھ
کام نا آئے گا۔ مرنے کے بعد کسی نے نہیں پوچھنا کہ آپ نے ایم بی اے کیا ہے
یا ایم بی بی ایس کیا اور کتنے گھر بنائے اور کتنے مزے کیے بقول شاعر۔
ملے خاک میں اہل شان کیسے کیسے
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشان کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے
اور
اجل ہی نے نہ چھوڑا نہ کسٰرا نہ دارا
اس سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اور یہ کہ
یہی تجھ کو دھن ہے رہوں سب سے اعلٰی
ہو زینت نرالی وہ فیشن نرال
جیا کرتا ہےکیا یونہی مرنے والا
تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈال
اجل کر جائے گی سب کچھ سفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے۔
ہمارا دوست کہتا ہے یہ اس لیے نہیں لکھی کہ پڑھ کر محفوظ کرلیں یہ اس جثبے
سے لکھی جاتی ہے کہ دوست کچھ اپنے دلوں میں اللہ کریم کی یاد کو زندہ کریں
نماز پڑھیں زکر کریں وہ آپ کی طرف ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی
سے اس کو بھلائیں گے تو وہ تو پہلے ہی بے نیاز ہے۔ اپنا نقصاف آپ خود کریں
گے۔ اکثر دوستوں کے پاس وقت نہیں ہوتا نا۔ بحرحال موت سے پہلے وقت ملا تو
سوچئے گا اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے آمین۔ |