مساجد میں دھنیں اور آپۖ کی وعیدیں

ایک حساس اور اہم مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کرانے کی جسارت کر رہا ہوں اور امام مسجد کی اجازت کے بعد اس مسئلے پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، میرا مقصد کسی کو بدنام اور بے توقیر ثابت کرنا ہرگز نہیں بلکہ اصلاح پیش نظر ہے اور اللہ عزوجل سے امید ہے کہ اس نیک سلسلے میں اللہ میری کمی بیشی معاف فرمائے اور مجھے ہدایت کی طرف گامزن فرمائے آمین۔

گزشتہ دنوں شہر کی ایک مسجد میں نماز عصر پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دوران نماز کسی بھائی کا موبائل فون بج اٹھا جس کی ٹون ایک فلمی گانے پر مبنی تھی۔ اب حالت یہ تھی کہ سب نمازی حضرات نماز کے دوران اللہ کے حضور حاضر تھے اور دوسری طرف شیطانی گانے کے بول ایک ہولناک منظر پیش کر رہے تھے۔ جیسے تیسے نماز مکمل ہوئی تو تسبیحات کے بعد امام مسجد کی دلوگیر اور دل بے چین کر دینے والی آواز آئی۔ حالانکہ ایسے مواقع پر نمازی حضرات اور امام صاحبان کا رویہ بڑا درشت اور سخت ہوتا ہے۔ مگر مذکورہ امام مسجد نے بڑے سبق آموز لہجے میں بغیر کسی کو دیکھ اور بغیر کسی کی طرف انگلی اٹھائے فرمایا “کہ حالانکہ مسجد میں جگہ جگہ ہدایت درج کروادی گئی ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنے موبائل فون بند کرلیں مگر چونکہ انسان جلدی میں ہوتا ہے اور کبھی کبھی بھول جاتا ہے مگر بھائیوں جوں ہی دوران نماز اگر کسی کا موبائل بجنے لگے تو خدارا جیب میں ایک مرتبہ ہاتھ ڈال کر موبائل نکال لیں اور دیکھ کر موبائل بند کر کے دوبارہ جیب میں رکھ لیں آپ کی نماز میں انشااللہ کوئی کمی واقع نا ہوگی۔ پھر مزید فرمایا کہ ہمیں ہماری نمازوں کا حال تو پہلے ہی پتہ ہے کہ ہوتے ہم اللہ کے دربار میں ہیں اور اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا مطلب ہے دنیا اور دنیا والوں سے بے خبر اور بے نیاز ہو جانا اور اگر پھر بھی ہم دوران نماز موبائل کی صورت میں دنیا سے پانچ چھ منٹ بھی رابطہ نہیں ختم کرسکتے اور اللہ سے پانچ چھ منٹ بھی صحیح رابطہ نہیں رکھ سکتے کیا۔ اور ایک حدیث بیان فرمائی کہ دوران نماز حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کسی بچے کے رونے کی آواز آئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قرآت مختصر فرما دی اور نماز کے بعد ارشاد فرمایا کہ آج میرا زرا لمبی قرآت کرنے کا ارادہ تھا لیکن جب میں نے بچے کے رونے کی آواز سنی تو مجھے بچے کی ماں کی بےچینی کا احساس ہوا اسلیے میں نے قرآت مختصر فرمائی (اللہ واقعے سے متعلق میری کمی بیشی معاف فرمائے آمین ازطرف فرقان) ۔

چنانچہ زرا ہم موبائل رکھنے والوں کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ اول تو اپنے موبائل کی دھنوں کو کیا ہم کسی طرح کفر و شرک و گانے بجانے سے پاک نہیں رکھ سکتے کیا۔ کیا دنیا میں ایسی کوئی آواز نہیں جو ہم اپنے موبائل کی گھنٹی کے طور پر محفوظ کرسکیں اگر نہیں تو خدارا ہم اپنے موبائل کو سائلنٹ اور وائبریشن پر تو لگا سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہم کیا یہ سوچتے ہیں کہ ہماری نمازیں اور ہماری عبادات کیا اتنی حقیقتاً خالص اور اصل ہیں کہ موبائل نکالنے اور بند کرنے سے ہماری عبادت کے خشوع و خضوع میں فرق پڑ جائے گا اور کیا ہم دنیا اور دنیا والوں سے اتنے بے فکر ہوتے ہیں کہ بجنے والی دھنیں دوران نماز ہمیں متاثر نہیں کر رہی ہوتیں۔

میں تو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری ایسی عبادت کہ جس سے مخلوق کو تکلیف اور کافی تکلیف ہو رہی ہو میرے کسی کام آنے کی مجھے تو امید نہیں لگتی۔

تو میرے بھائیوں خدا کا کچھ تو خوف کرو مجھ گناہ گار پر بھی یہ بات لاگو ہوتی ہے۔ اور اللہ کے واسطے جو وقت ہم اللہ کے لیے خالص کرلیتے ہیں اس میں تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نا کریں۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے سورہ لقمان آیت نمبر ٦ میں
﴿ اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو لہو الحديث خريدتے ہيں، تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كى راہ سے روك سكيں، اور اسے مذاق بنائيں، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے ذلت آميز عذاب ہو گا

اكثر مفسرين حضرات كہتے ہيں كہ: " لہو الحديث " سے مراد گانا بجانا ہے.

اور كچھ حضرات كا كہنا ہے كہ: آلات موسيقى كے ہر آلہ كى آواز اس ميں داخل ہے، مثلاً بانسرى، باجا، سارنگى، وغيرہ كى آواز يہ سب كچھ اللہ تعالىٰ كى راہ سے روكنے والى ہيں، اور ضلالت و گمراہى كا سبب ہيں. (موبائل کی ٹونز بھی میری طرف سے شامل کر دیکھیے اللہ مجھے معاف فرمائے اگر میں نے ناحق کہا تو ازطرف گناہ گار فرقان )

صحابہ كرام ميں سے جليل القدر صحابى و عالم دين ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے ثابت ہے كہ انہوں نے اس آيت كى تفسير ميں فرمايا:

اللہ كى قسم يہ گانا بجانا ہے، اور ان كا كہنا ہے: يہ دل ميں اس طرح نفاق پيدا كرتا ہے جس طرح پانى سبزہ اگاتا ہے.

اس موضوع كى احاديث بہت ہيں جو سب گانے بجانے اور اس كے آلات كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، اور يہ كہ يہ بہت سارے شر اور برے انجام كا وسيلہ ہے، علامہ ابن قيم رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " اغاثۃ اللھفان " ميں گانے بجانے اور آلات موسيقى كے موضوع پر تفصيلاً كلام كى ہے.

كالم نگار نے نبى كريم صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بولتے ہوئے يہ منسوب كيا ہے كہ نبى كريم صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم موسيقى اور گانے سنا كرتے تھے، اور عيد اور مختلف تہوار مثلاً شادى بياہ اور خوشى كے موقع پر اس كا حكم ديا كرتے تھے.

حالانكہ نبى كريم صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم سے تو صرف يہ ثابت ہے كہ آپ نے بطور خصوص صرف دف بجانے كى اجازت دى ہے اور اس ميں بھى ناچ اور عشق و محبت كے اشعار نہ ہوں، اور موسيقى كے آلات استعمال نہ ہوں، اور صرف عورتوں ميں ہى ہو مرد اس ميں شامل نہ ہوں، آج كل كے گانوں كى طرح نہيں جس ميں يہ سب كچھ پايا جاتا ہے.

بلكہ رسول كريم صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم نے تو نكاح كا اعلان كرنے كے ليے شادى بياہ كے موقع پر دف بجانے كے ساتھ صرف وہ اشعار پڑھنے كى اجازت دى ہے جو ان قبيح قسم كے اوصاف سے خالى ہوں، اور اس ميں ڈھول باجا اور دوسرى آلات موسيقى استعمال نہ كيے جائيں.

بلكہ صحيح حديث ميں تو يہ ثابت ہے كہ آپ صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ہر قسم كے موسيقى كے آلات حرام كيے ہيں، اور انہيں استعمال كرنے پر شديد قسم كى وعيد سنائى ہے، جيسا كہ درج ذيل صحيح بخارى كى حديث ميں بيان ہوا ہے:

نبى كريم صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئيں گے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر ليں گے، اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئيں گے، اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہيں گے كل آنا، تو اللہ تعالىٰ انہيں رات كو ہى ہلاك كر ديگا، اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا "

يہاں رسول كريم صلىٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم نے زنا كارى، اور مردوں كے ليے ريشم پہننا، اور شراب نوشى كرنا، اور گانے اور موسيقى سننا اور آلات موسيقى كا استعمال حرام كيا اور اسے زنا و شراب اور مردوں كا ريشم پہننا كے ساتھ ذكر كيا ہے، جو آلات موسيقى اور گانے بجانے كى شديد قسم كى حرمت پر دلالت كرتا ہے.

اللہ میری کمی بیشی معاف فرمائے ایک حدیث کسی جگہ پڑھی تھی کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مساجد میں سے موسیقی کی آوازیں آئیگیں۔

ہم لوگ بڑے حیران تھے کہ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ مساجد میں سے مسلمانوں کی موجودگی میں موسیقی اور گانے بجانے کی آوازیں آئیں۔ مگر کیا آج ہماری مساجد میں سے موبائل ٹونز کے زریعے سے اور ہمارے جیسے مسلمانوں کی جیبوں میں سے موسیقی کی آواز ہماری بدنصیبی کی دلیل دیتی نظر نہیں آتیں اور کیا یہ حق ثابت نہیں کرتیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق فرمایا تھا اور وہ بھی آج سے چودہ سو سال پہلے۔

میں تو بڑا شرمندہ اور گناہ گار اپنے آپ کو سمجھتا ہوں کہ وہ وعیدیں جو حضور اقدس صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سالوں پہلے دیں تھی وہ ہم ندنصیبوں کی وجہ سے پوری ہورہیں ہیں۔

اللہ ہمارے ایمان کی جان کی مال کی عزت و آبرو اور انجام کی حفاظت فرمائے اور ہماری معاملہ خیر کے معاملوں کے ساتھ انجام پہنچائے۔

فقط آپکا دوست و طالب دعا
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533250 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.