السلام علیکم!عزیزانِ گرامی!
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تمام سرکاری سکولوں کو انگلش میڈیم بنا
کر قوم کو پتھر کے دَور میں دھکیل دیا ہے۔ یہ اقدام آئینِ پاکستان کی کھلم
کھلا خلاف ورزی اور نظریہ ¾ پاکستان کی پشت میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
ہمارا تمام دینی، علمی ، ادبی اور تہذیبی سرمایہ ڈالروں اور پاو ¿نڈوں کے
عوض تباہ و برباد کر دیاگیا ہے تاکہ پاکستانی عوام اَن پڑھ اور جاہل بن
جائے اور یہ غیر ملکی ایجنٹ بآسانی اس پر حکومت کر سکیں۔خون بہتا ہوا اور
لاشے گرتے ہوئے تو سب کو نظر آتے ہیںاور ان پرفوری ردِ عمل کااظہار بھی
ہوتا ہے، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ بھی لوگ فوراً چیخنے چلّانے لگتے
ہیں مگر علم و تہذیب کی جڑیں کاٹتی ہوئی چھریاں بہت کم لوگوں کو نظر آتی
ہیں۔ سانحہ نو گیارہ کے بعد تعلیم و تہذیب کی بربادی کے ذریعے ہمیںبحیثیتِ
قوم صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی ۔ اس منصوبہ کوعملی جامہ پہنانے کے
لیے غیر ملکی طاقتوں نے ہمارے تعلیمی نظام کو ہماری قومی زبان سے کاٹنے کے
لیے جونسل کُش حملہ کیا وہ پاکستان کو بنانے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے
ذریعے کیا گیا۔ہماری قومی زبان اور اسلامی تہذیب کو تعلیمی اداروں سے نکال
باہر کیا گیا۔ قومیں ایٹم بموں سے تباہ نہیں ہوتیں بلکہ علوم و فنون کو
زبان سے کاٹ دینے سے نیست ونابودہوجاتی ہیں۔ اگرایٹم بموں سے مرتیں تو
جاپانی قوم اپنے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرنے سے
مرجاتی لیکن اس نے جاپانی نظامِ تعلیم کو جاپانی زبان سے نہیں جُدا نہیں
ہونے دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سائنس و ٹیکنالوجی کے معیار کی یہ حالت
ہے کہ جاپان کی مصنوعہ اشیاءایک نمبر اور اس کے مقابلے میں باقی دنیا کی
بنی ہوئی چیزیں دو نمبرشمارکی جاتی ہے۔ ڈالروں اور پاؤنڈوں کے عوض اپنا
ضمیر بیچنے والے حکمران ان باتوں کوکیونکر سمجھیں گے؟!
اب تک دنیا کے نقشے پر ایسا کوئی ملک وجود میں نہیں آیا جس نے غیر زبان کو
اپنا کر ترقی کی ہو۔قرآنِ مجید نے بڑا دو ٹوک فیصلہ کر دیا ہے کہ ” ہم نے
تمام پیغمبر قوم کی زبان میں بھیجے تاکہ بات کو کھول کر سمجھا سکیں اور
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے،
وہ بڑا زبردست اور حکیم ہے (سورہ ابراہیم)“ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ذریعہ
تعلیم کا مسئلہ واضح انداز میں حل کر دیا ہے کہ بات سمجھ آتی ہے تو فقط قوم
کی زبان میں۔سامراجی طاقتیں ہمیں علوم و فنون کو اپنی زبان میں کیو ں نہیں
پڑھنے دیتیں؟اس لیے کہ ہمیں علوم و فنون کی سمجھ نہ آئے اور ہم پر تحقیق ،
تخلیق اور ایجادات کے دروازے نہ کھلنے پائیں اور ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے
میدان میںان کے ہم پلہ نہ ہو جائیں۔اس لیے سامراجی طاقتیں اپنے غلاموں اور
خادموں کو بھاری رقوم دے کر اور ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کا نظامِ تعلیم
نافذ کرواتی ہیں تاکہ ہمارے بچوں کی تمام تر صلاحیتیں بنیادی سطح پر ہی دم
توڑ جائیں۔ اب صورتِ حال اس قدرسنگین ہوچکی ہے کہ ہم نئی نسل کو اپنی
آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کرمرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
سامراج کا وفادار طبقہ بڑا سفّاک ، بے رحم اور سنگ دل ہے۔ اپنے مفادات کی
خاطر ملک کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔ ہماری قومی
زبان اردو ہماری تہذیب، ہمارے دین اور ہماری علمی و ادبی وراثت کی امین ہے۔
اس کو نظامِ تعلیم سے نکال باہر کرنا قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے اور
ہمیں علمی و تہذیبی طور پریتیم کر کے مارنے کے مترادف ہے۔ ہمارے عظیم
اسلامی ورثے کو اس نام نہاد انگریزی ذریعہ تعلیم کے نیچے دبا کر ختم کرنا
مقصود ہے۔ زندہ قوموں نے دوسری زبانوں سے علوم و فنون کو اپنی زبانوں میں
منتقل کر کے ترقی کی ہے۔ یہی نسخہ ¾ کیمیا ہے جس سے دور رکھنے کی سامراجی
کوششوں کا ہمارے سیاسی شعبدہ بازآلہءکار بنے ہوئے ہیں۔طرفہ تماشا دیکھئے کہ
ہر جماعت آئین کو بحال کرنے اور اس پر عمل کرنے کی دعوے دار نظر آتی ہے مگر
پوری ڈھٹائی سے آئین کی دھجیاں بھی بکھیرتی ہے۔ مسلم لیگ جو اپنے تئیں
نظریہ پاکستان کی محافظ سمجھتی ہے اس نے پنجاب کے ہر سرکاری سکول کو انگلش
میڈیم بنا دیا ہے۔ اب کسی کو اردو میں بنیادی سطح کا امتحان دینے کی بھی
اجازت نہیں ہے۔یہ غیر اسلامی ، غیر فطری، غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق
کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے مگر یہ خلاف ورزی پوری سینہ زوری سے آمرِ مطلق
نام نہاد خادمِ اعلیٰ اور ان کی ٹیم سامراجی امداد کی چھتری کے نیچے کر رہی
ہے۔اس آئین شکن گروہ کی غنڈہ گردی دیکھئے اور آئینِ پاکستان کی دفعہ 251
دیکھئے اور فیصلہ خود کیجئے:
" (۱) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یومِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اس
کو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
(۲) شق (۱) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی
جائے گی جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کیے جانے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
(۳) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیرصوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے
قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے
لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔"
آئینِ پاکستان کی مذکورہ دفعہ کی تینوں شقوں میں انگریزی کے نفاذ کے لیے
ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے بلکہ اس کا شائبہ تک نہیں ہے۔ کوئی شخص جتنی بھی
کوشش کر لے اس دفعہ سے انگریزی کے نفاذ کا مطلب اخذ نہیں کر سکتا۔صوبائی
زبان کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے مگر اردو کی حیثیت متاثر کیے
بغیر۔البتہ اس کی منظوری بھی صوبائی اسمبلی سے لینا ضروری ہے۔اس کے علاوہ
نہ ہی قومی اسمبلی ایسا کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی صوبائی اسمبلی۔ایسی کھلی
، واضح ، شرمناک اور دہشت گردانہ خلاف ورزی پر ذمہ داران کو سزا نہ دینا
صوبے کے دس کروڑ عوام کی توہین ہی نہیں بلکہ انہیں ان پڑھ اور جاہل رکھنے
کی ایسی رعونت آمیز حرکت ہے جس پر فراعنہ مصر بھی شائد شرما جائیں۔
آئینِ پاکستان کی دفعہ 28 بھی ملاحظہ فرما لیں:
" دفعہ 251 کے تابع شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی ایک الگ زبان، رسم الخط یا
ثقافت ہو اسے برقرار رکھنے فروغ دینے اور قانون کے تابع اس غرض کے لیے
ادارے قائم کرنے کا حق ہوگا۔"
آئین کی مذکورہ دفعہ ملاحظہ فرمائیں اور پنجاب میں خادمِ پنجاب کے مذموم
اور آئین شکن اقدامات دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا یہ وہی مسلم لیگ ہے ؟!
وہ قائدِ اعظم کی مسلم لیگ تھی اور یہ مائیکل باربر کی مسلم لیگ ہے۔جو کام
انگریز دو سو سال میں نہیں کر سکا وہ اس کے خادم نے پلک جھپکنے میں کر
ڈالایہ لیگ پاکستان کے لیے اب کلنک کا ٹیکہ اور غدّاری کی علامت بن چکی
ہے۔پنجاب میں ذریعہ تعلیم انگریزی کے ساتھ ساتھ مردانہ تعلیمی اداروں میں
خواتین اساتذہ کی بھرتی ہو رہی ہے۔حالانکہ مرد و خواتین کے سکول الگ الگ
بنائے گئے ہیں۔مردانہ اور زنانہ سکولوں کو ضم کر کے مادر پدر آزاد ماحول
پیدا کیا جا رہا ہے۔شلوار قمیض ہمارا قومی لباس ہے اور ہماری تہذیبی اور
ثقافتی روایات کا آئینہ دار ہے، اسے ختم کر کے پینٹ شرٹ بطورِ وردی نافذ کر
دی گئی ہے اور بچوں کو جبراً انگریز بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ نئے ہائر
سیکنڈری سکولوں میں آرٹس اساتذہ کی بھرتی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔آرٹس
پڑھے ہوئے لاکھوں نوجوانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ڈی
۔ایس۔ڈی(لاہور میں اساتذہ کو تربیت دینے والا ادارہ ) اب ایسٹ انڈیا کمپنی
کا اڈہ بن چکا ہے۔ برطانوی باشندوں مائیکل باربر اور ریمنڈ کو نام نہاد
خادمِ پنجاب نے مشیرِ خاص بنارکھا ہے اور ان سے مردانہ اور زنانہ سکولوں کو
ضم کرنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے جس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔ کالجوں میں بی
ایس پروگرام کے بہانے آرٹس کا خاتمہ اور مخلوط تعلیم کا آغاز کیا ہوا
ہے۔سکول کی دعا حاضری تین دن انگریزی اور تین دن اردو مین کروانے کے
احکامات جاری ہو چکے ہیں۔سکولوں کے در و دیوار پر اردو میں لکھی ہوئی
عبارتیں مٹا کر انگریزی میں لکھ دی گئیں ہیں۔رجسٹر حاضری اور سکول کے نظام
الاوقات وغیرہ اردو میں ختم کر کے انگریزی والے نافذکردئےے گئے ہیں۔نصاب
اتنا غیر فطری ، رٹہ پرور اور نفسیاتی طور پر اذیت دینے والا ہے کہ نہ کوئی
استاد پڑھا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی بچہ پڑھ سکتا ہے۔اسے طوطے کی طرح فقط
رٹایا جا سکتا ہے۔پنجاب امتحانی کمیشن پنجم اور ہشتم کا امتحان لیتا ہے ۔
اس کا کام اس عظیم اور خطرناک تباہی کو چھپانا ہے تاکہ بچوں کی اصل کیفیت
لوگوں کے سامنے نہ آنے پائے۔موجودہ انگلش میڈیم کا امتحان اگر درست طریقے
سے لیا جائے اور ۳۳ فیصد نمبروں کو پاس ہونے کا معیار رکھا جائے تو کم و
بیش فیصد 95 فیصدطلبہ فیل ہو جائیں گے۔ اس بڑی تباہی کو چھپانے کے لیے
پنجاب امتحانی کمیشن بنایا گیا جو نہ جانے کون سا فارمولہ لگا کر بڑی تعداد
میں پاس کر کے نتائج کا اعلان کرتا ہے ا ور قوم کو بے وقوف بناتا ہے۔اس سے
کئی گنا بہتر امتحان قبل ازیںسکول اندرونی طور پر لیا کرتے تھے۔ایم اے
سیاسیات اور معاشیات کا امتحان یونیورسٹیاں اردو میںلیا کرتی تھیں لیکن اب
اس کی اجازت نہیں ہے۔ بی ایڈ اور ایم ایڈ کے امتحانات بھی ظالموں نے
انگریزی میں کر دئیے ہیں۔ابھی ان تمام مذموم مقاصد کو دوام بخشنے کے لیے
مسلم لیگ ن (اب اس جماعت کا نام انگریزی لیگ ہونا چاہیے)نے اپنے انتخابی
منشور میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے جو ضلعی
سطح پر سرکاری تعلیمی نظام کو باقاعدہ انگریزوں کے حوالے کر دے گی۔دوہرا
مانیٹرنگ نظام جاری رکھا جو مردوخواتین اساتذہ دونوں کو بے توقیر کر رہا
ہے۔سرکاری مشینری کو اساتذہ کے خلاف پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا جا رہا
ہے۔ اساتذہ کی جائز اور قانونی اتفاقیہ اور استحقاقیہ چھٹیوں پر غیر
اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے جومختلف قسم کی کرپشن کا سبب بن رہی ہے۔وزیرِ
اعلیٰ پنجاب نے پنجاب اسمبلی کی مدّت پوری ہونے کے آخری ایام میں مائیکل
باربر اور ریمنڈ(مشیر خاص وزیر اعلیٰ پنجاب) کے ساتھ نام نہاد روڈ میپ میں
تین سال کی توسیع کا معاہدہ کیا ہے۔جاتے جاتے قوم کو سامراجی پالیسیوں میں
پھنسا کر جانا اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کی بدترین مثال ہے۔اسی روڈ میپ
کی بدولت ہی آئین کی مذکورہ تمام دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔یہ قدم غیر
ملکی مداخلت کو طول دینے اور آنے والی حکومت کے گلے میں سامراجی پھندا
ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس معاہدہ کو فی الفور کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ
قومی وقاراورملکی سالمیت کے خلاف ہی نہیں بلکہ تعلیمی نظام کو تباہ و برباد
کرنے کی مکروہ سازش بھی ہے۔
ظلم و زیادتی اور وطن فروشی کا وہ کون سا اقدام ہے جو نہیں کیا گیا؟! ان
تمام آئین کُش اور تہذیب کُش اقدامات کی آئینِ پاکستان میں سزا کیا رکھی ہے
،اس کاتعین آئین پاکستان کی دفعہ 6 میں وضاحت کے ساتھ اس طرح کردیاگیاہے،
ملاحظہ فرمائیں:
”(1) کوئی شخص دستور کی تنسیخ کرے، یا زیرو زبر(تباہ) کرے، یا معطل کرے، یا
التوا میں رکھے یا تنسیخ یا تذلیل کرے یا ایسا کرنے کی کوشش کرے یا سازش
کرے، تخریب کاری کرے یا تخریب کاری کرنے کی کوشش کرے یا سازش کرے، یا معطل
یا التوا میں رکھنے کی سازش بذریعہ طاقت کے استعمال یا طاقت کے دکھاوے سے
یا دیگر غیر آئینی ذریعہ سے کرے تو سنگین غداری کا مجرم کہلائے گا۔“
(2) کوئی ایسا شخص جو شق نمبر (1) میں مندرج افعال میں سے کسی اور کی مدد
یا معاونت کرے(یا شریک کار بنے)بعینہ غداری کا مجرم ہوگا۔
(2الف) سنگین غداری کے کسی فعل کو جس کا ذکر ضمن نمبر(1) میں کیا گیا ہے
کوئی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ جائز قرار نہیں دے گی۔
(3 )” مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لیے سزا مقرر کرے
گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہو۔ “
اس دفعہ کو پڑھ کر انسان ورطہءحیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ کس قدر ڈھٹائی اور
سینہ زوری سے آئینی دفعات کو روندا جاتا ہے ۔ مذکورہ تمام دفعات کی کھلم
کھلا خلاف ورزی حکمرانوں کو سیدھا سزائے موت تک لے جاتی ہے۔مملکت کے وقار
اور وجود کے خلاف قول و فعل کو غداری کہا جاتا ہے۔ایسے افراد کی معاونت بھی
غداری کے زمرے میں آتی ہے۔سزا کا دیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ
کوئی شخص اس کی جرات نہ کر سکے ۔
اے لوگو ! سامراج کے پروردہ ان بدمست ہاتھیوں کو لگام نہ دی گئی تو یہ وطنِ
عزیز کے علمی ، ادبی ، اسلامی اور تہذیبی چمنستان کو اپنے بے رحم قدموں تلے
روند ڈالیں گے۔انہیں ووٹ دیتے وقت سو دفعہ سوچ و بچار کرنا ،کیونکہ آقائے
دوجہان کا فرمان ہے کہ” مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاسکتا۔“ ذرا
سوچو! کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک انہی زہریلے سانپوں سے کتنی دفعہ
ڈسے جا چکے ہو؟!آخر کب تک ان کے منہ میں ہاتھ ڈالتے رہو گے؟یہ تمہارے بچوں
کو ان پڑھ اور جاہل رکھ کر اپنے اقتدار کا سورج غروب نہیں ہونے دیتے۔ انہیں
معلوم ہے کہ جب عام لوگ پڑھ جائیں گے تو ان کی وڈیرہ شاہی اور موروثی سیاست
دفن ہو جائے گی۔تعلیم کا حق چھین لینے کے ساتھ ساتھ تمہیں بنیادی سہولتوں
سے بھی محروم رکھیں گے ۔اب خدا کے لیے اپنے آپ کو بدل ڈالواپنے آپ کو اور
اپنی آئندہ نسلوں کو انگریزوں کے ان چاکروں سے بچا لو۔ اپنے ووٹ با کردار
اور ایماندار لوگوں کو دو۔اگران نتخابات کے موقع پر آپ دوبارہ غلطی کربیٹھے
تو کئی صدیوں تک آپ کی نسلیں بھی سزا بھگتیں گییہی سوچ انقلاب لے آئے
گیاللہ اس پاک وطن اور اہلیانِ وطن کا حا می و ناصر ہو۔ آمین! قرآن کریم کی
آیت کریمہ ”بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتاجب تک کہ وہ خود
اپنی حالت نہیںبدلتی “ کومولاناظفرعلی خان نے زبان زدعام مشہورشعر میں پیش
کیاہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے
بدلنے کا
(اساتذہ کرام اور دوسر ے ارباب دانش سے گزارش ہے کہ وہ اس پیغام کی حسب
استطاعت چھپواکرلوگوں میں تقسیم کریں تاکہ جابرحکمران اپنی سابقہ مذموم
پالیسیوں کے ساتھ دوبارہ برسراقتدارنہ آسکیں) |