کسی بھی مہذب معاشرے میں انسان
کی سوچ، خیالات اور فکر پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا دائرہ کار اور
حدود و قیود متعین کرنے میں برتی جانے والی غفلت کے باعث منفی پہلوؤں کے
سبب معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا تدارک کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ انسان
اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فکری و عملی اعتبار سے آزاد ہے اور یہی اس کا
بنیادی اور فطری حق بھی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ کے اندر اس آزادی کی کچھ
حدود و قیود بھی مقرر ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے ہی حقیقی آزادی کا مفہوم
سمجھ میں آتا ہے اور اس کے منفی اثرات سے دوسرے انسانوں کو ایک محفوظ ماحول
فراہم کرنے میں رہنمائی حاصل رہتی ہے۔ اس متوازن پیمانہ کو نظر انداز کرنے
سے زندگی میں نقصانات و حادثات کا ہمہ وقت اندیشہ رہتا ہے۔ انسانی سوچ پر
پہرہ تو نہیں مگر جب افکار کی آزادی اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے سماجی
زندگی میں بگاڑ پیدا ہو نا شروع ہو جائے تو ایسے ہی تصور کو شیطانی ایجاد
کہا گیا ہے۔ دوسروں کی مکمل آزادی کا خیال رکھتے ہوئے، خودساختہ خیالات و
تصورات کو مسلط کیئے بغیر، عزت نفس اور آزادی اظہار کا احترام کرتے ہوئے ہی
حقیقی آزادی کے ثمرات سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ آج دنیا کے اندر ایسے ہی
تہذیب یافتہ معاشرے حقیقی اخلاقی پستی اور افکار کی بے لگام آزادی کا
ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے
جمہوریت اور اخلاقیات کے چمپیئن کہلوانے میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے
میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ اگر اپنی مرضی کو دوسروں پر ٹھونسناہی افکار کی
آزادی اور تہدیب یافتہ معاشرہ کی علامت ہے تو پھر ایسا عمل طاقتور کو مزید
طاقتور اور کمزور کو کمزور تر بنانے میں سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ کسی
دانا نے حقیقی آزاد خیالی کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی کہ:"You are free
to open your hands before my nose begins" آزادی سوچ کی بھی کوئی حد مقرر
ہوتی ہے اور ایسی آزادی جو دوسروں کے لیئے اذیت و دل آزاری کا باعث نہ بنے
بلکہ راحت و تسکین اور امن و آشتی کا پیغام ثابت ہو حقیقی آزادی کہلاتی ہے۔
آزادی افکار کو علامہ اقبال نے بھی شیطانی ایجاد کا درجہ دے کر دراصل مسلم
معاشرہ کو اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں
بھیانک نتائج کی طرف متوجہ کیا ہے۔ کیوں کہ فارغ ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتا
ہے اور جن اذہان پر شیطان کا قبضہ ہو جائے ان میں خیر کی بجائے شر انگیز
امور ہی انجام پاتے ہیں جن سے معاشرہ میں بے حیائی، فحاشی، بدامنی، تخریب
کاری، تعصب، فساد، قتل و غارت، تباہی و بربادی اور ظلم و بربریت کے سوا کچھ
حاصل نہیں ہوتا۔ غرض یہ کہ معاشرے کے اندر ایسی تمام خرابیاں جو سماج کے
سنگین بگاڑ کا باعث بنتی ہیں ان کا تعلق آزادی افکار کے بے لگام استعمال سے
ہی متصل ہے۔ انسان کے انہی فرصت و فراغت کے لمحات کو دوسروں کے لیئے مفید
اور موثر بنانے کے لیئے صحت مندانہ سوچ کا کسی مسلّمہ قواعد کار کے تابع
رہتے ہوئے ہی اپنے شب و روز کو ڈھالنا ناگزیر ہو جاتا ہے تبھی آزاد خیالی
کے زیریلے اور منفی اثرات سے معاشرہ کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
بطور مسلمان تو ہمیں اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کو مکمل تحفظ
دینے کی ضمانت فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ایک دوسرے کی مذہبی آزادی
کا خیال رکھتے ہوئے ہر شخص کو اپنے خیالات و سوچ کے مطابق زندگی بسر کرنے
کا پورا پورا حق ہے نہ کہ اپنے ان خیالات و سوچ کو جبراً دوسروں پر مسلط
کرنے کی کھلی آزادی دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ایسی سوچ جو کسی مصدقہ رہنمائی کے بغیر
قائم کرلی جائے جس سے اصل حقیقت سے دوری اور گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو
اسی آزاد خیالی کے باعث ہے۔ انسان کا اپنی تخلیق پر غور نہ کرنا، کائنات کے
آفاقی نظام کواللہ تعالیٰ کے عظیم کارناموں کی بجائے محض ایک سطحی سوچ کے
تابع کر دینا، ہم جنس پرستی سے ایڈز تک کے سبھی کارنامے اسی آزادی افکار کا
دیا ہوا تحفہ ہیں جن کے منفی اثرات آج دنیا میں نمودار ہو رہے ہیں۔ شُترِ
بے مہار کی طرح جو جی میں آیا کر گزرنا، جب اور جہاں چاہا اپنی سوچ مسلط کر
دینا، طاقت کے بل بوتے پر کمزور کو زیر کرنے کی حوس میں اپنی حمایت و نصرت
کے حصول کے لیئے خود ساختہ نظریات کا سہارا لینا، یہ سب شیطانی کارنامے ہی
تو ہیں جو نہایت خوبصورتی سے انسانی گمراہی کا سبب بن جاتے ہیں۔عصرِ حاضر
میں بے لگام آزادی افکار سے متاثرہ مغربی معاشرہ کی ایک واضح مثال موجود ہے
بالخصوص امریکہ کے ہاتھوں دنیا کے کمزور ممالک کا استحصال ایک لمحہ فکریہ
ہے ۔ اس ضمن میں ایسے مسلمان ممالک جو اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور برابری
کی بنیاد پر دنیا کی قوموں کے اندر باعزت زندہ رہنے کی تمنا رکھتے ہیں، کی
آواز کو دباتے ہوئے ان کو بنیادی حق سے محروم کر دینا دراصل انسانی حقوق پر
غاصبانہ تسلط جمانے کے مترادف ہے۔ دوسرے کی سوچ اور دلیل کو یکسر نظر انداز
کر دینا اصل میں آزادی افکار کی پیداوار ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا
ہوتا ہے اور عدم توازن کی فضا پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لےتی ہے جس
کے نتیجہ میں ہر طاقتور کمزور پر اپنا تسلط قائم رکھنے میں اخلاقی حدود کی
پامالی کو اپنا بنیادی حق سمجھ بیٹھتا ہے۔ موجودہ دور میں اسلامی ممالک کے
ساتھ روا رکھا جانے والا مغربی طرز عمل آزادی افکار کے مفہوم کو مزید وضاحت
کے ساتھ سمجھنے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ اسی دوہرے معیار کے پیش نظر ایک
کمزور انسان سے آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے جو اصل
میں سماجی و معاشرتی خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔ فکری آزادی سے متعلق تصور تو
یہ ہونا چاہیئے کہ اگر میں اپنے دائرے میں رہتے ہوئے آزاد ہوں تو یہی حق
دوسرے کو بھی حاصل ہونا چاہیئے۔اسی توازن کو درست کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ |