لوڈ شیڈنگ کا عذاب

کراچی سمیت ملک کے دیگرچھوٹے بڑے شہروں میں تعطیلات کے ایام میں بھی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایسا معلوم ہوتاہے جیسے لوڈشیڈنگ قوم کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سبب بجلی کی کمیابی اور طلب میں اضافہ بتایا جاتا ہے، توانائی کے بحران نے تو ملکی معیشت کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے اس سبب سے ہی بیروزگاری اور جرائم میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔پاکستان میں کرپشن ہماری استطاعت، ہماری قوت برداشت اور ہماری بقاءکے لئے خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ثمرمبارک مند زیر زمین بیکار پڑے ہوئے کوئلے سے بجلی اور ڈیزل بنا کر توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں مگر کرپشن نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں کاروبار کرنے والی بیرونی کمپنیاں اور انکے ایجنٹ اپنی لوٹ مار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ہمارا کروڑوں ڈالر کا جو زرمبادلہ تیل اور گیس کی درآمد پر صرف ہوتا ہے، اس سے نہ صرف بیرونی کمپنیوں کی جیبیں بھرتی ہیں بلکہ ہمارے ملک کے اندر پالیسیاں بنانے اور چلانے والے بھی اس سے مستفید ہوتے ہیںاور یہ رقم اتنی بڑی ہوتی ہے،جو پاک فوج کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ لوگ اس لوٹ مار سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ اسی لوٹ مارنے ہمارا کاروبار تباہ کردیا ۔ معاشرتی زندگی کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ عوام کا جینا دوبھر کردیا ۔لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف صنعتی پیداوار رک گئی ہے بلکہ برآمد کنندگان آرڈر بھی وقت مقررہ پر پورا نہیں کرپارہے، صنعتیں بند ہورہی ہیں لاکھوں مزدور بے روزگار ہورہے ہیں ۔ اسپتالوں اور کلینکس جہاں جنریٹرز کا مناسب بندوبست نہیں ہے وہاں مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے واٹر بورڈ کے پمپنگ اسٹیشنوں سے پانی کی سپلائی نہیں ہورہی جس سے متعدد علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔پی ایم ٹیز کی خرابی ، گرنے والے تار یا کیبل فالٹس کی شکایات کا ازالہ بھی تاخیر سے ہوتا ہے فالٹس کے باعث بند ہونے والی بجلی دو سے تین روز تک بحال نہیں ہوپاتی اور کم زیادہ وولٹیج کے باعث عوام کے قیمتی برقی آلات اور مشینری جل جانا روز کا معمول بن گیا ہے اس پر طرہ یہ کہ صارفین کو بغیر ریڈ نگ کے ہزاروں روپے کے اوسط بل بھیجے جارہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شہر کے اکثر علاقوں میں بلز موصول ہی نہیں ہورہے ۔ اتوار کو ہونے والی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے شہریوں کے آرام کا ایک دن بھی عذاب بن جاتا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے صارفین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔گزشتہ برس بھی بجلی کے صارفین کے لئے یہ انکشاف ایک المیہ ہی تھا ، کہ یہ محکمہ 64 ارب روپے سے زائد کی اوور بلنگ کی انتہائی غلط اور مجرمانہ حرکت میں ملوث ہے۔ پیپکو نے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے اور مصنوعی طریقے سے نقصان کو پوراکرنے کے لئے64 ارب ایک کروڑ 50لاکھ روپے کی اوور بلنگ کی تھی ۔ دس فیصد ماہانہ زائد میٹر ریڈنگ ظاہر کرنے میں بعض الیکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور انکے اعلی حکام بھی ملوث پائے گئے تھے۔اوور بلنگ کی مد میں ایسی بدعنوانی سب سے زیادہ بجلی کے بلوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں لائن لاسز کو پورا کرنے کے لئے ہر حلقے کے صارفین پر اوور بلنگ کا بوجھ ڈالنے کی ہدایت کی خفیہ ای میل بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔ محکمہ بجلی کے بعض بدعنوان اہلکار اور بعض افسران بھی بجلی چوری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، ریڈنگ کی تاریخ سے پہلے میٹر کو گھما کر پیچھے کردیا جاتا ہے لیکن اس بدعنوانی اور کرپشن پر قابو پانے والا کوئی نہیں ۔ یہ صورتحال گھریلو صارفین کے لئے انتہائی اذیت ناک ہے ۔ غریب عوام پہلے ہی گرانی کے طوفان کی اذیت کا شکار ہیں ۔ گرانی نے انکی قوت خرید ختم کردی ہے اس پر بھاری بھرکم بغیر ریڈنگ کے اوسط بلوں کی ادائیگی ان کے لئے ایک اذیت ناک مسئلہ بن چکی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ محکمے کے بدعنوان افسران کا کڑا محاسبہ کیا جائے اور عوام سے وصول کئے گئے زائد بلوں کو آنے والے بلوں کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کر کے انکی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف حاصل ہومگر بدقسمتی سے صورتحال یہ ہے کہ تمامتر حکومتی دعوﺅں اوریقین دہانیوں کے باوجود بجلی کا بحران اور بغیر ریڈنگ اوسط بلنگ کا طوفان روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ توانائی کے اس بحران نے گھریلو صارفین کے لئے ہی مشکلات پید ا نہیں کیں بلکہ پوری قومی معیشت کو بھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے ۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان کی مصنوعات کے لئے دوسرے ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا جس سے تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے اور حکومت بجٹ کے علاوہ تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لئے کرنسی نوٹ چھاپ چھاپ کر افراط زر کی شرح میں اضافے کا سبب بن چکی ہے جس سے مہنگائی کے ایک ایسے طوفان نے جنم لیا ہے جس نے غریب عوام کی کمر و ہمت توڑ کر رکھ دی ہے ۔ پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے لیکن اس کے باوجو داس کا توانائی کے بحران سے مسلسل دوچار رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ضروری منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے ۔ پاکستان میں پانی ، کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے ایک طویل عرصے تک محض اپنی کم کوشی کی وجہ سے ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ جو وقت ضائع ہوا اس کا ہاتھ آنا تو ممکن نہیں لیکن اگر اب بھی ہماری قیادت غلطیوں کا عملی اعتراف کر کے ان کا ازالہ کرنے پر توجہ دے ، کرپشن اور بدعنوانی کے راستے بند کرے، توانائی کے بحران پر قابو پانے کی مخلصانہ کوشش کرے تو چند ہی برسوں میں صورتحال کو تبدیل کیا جاسکتاہے ۔ ملک بھر میں بڑے ڈیموں کے ببجائے چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر میں پانی کو محفوظ کیا جائے تو ان سے مقامی سطح پر پیدا ہونے والی بجلی سستی بھی ہوگی اور اس سے نیشنل گرڈ پر پڑنے والا بوجھ بڑی حد تک کم بھی کیا جاسکتا ہے۔ تھر کول کے ذخائر سے آئندہ پانچ سو سال تک بیس ہزار کلو واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے علاوہ چولستان مین بھی ونڈ ملز لگا کر قابل ذکر حد تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ان علاقوں میں مسلسل ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کو اگراستعمال میں لایا جائے تو ہم جرمنی جیسے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوائی بجلی پیدا کرنے کے قابل بن سکتے ہیں ۔ جرمنی اس وقت صرف اس ذریعے سے 21000میگاواٹ بجلی حاصل کررہا ہے ہم بھی اگر اپنے ملک کو ترقی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے عزم پر ٹھوس منصوبہ بندی کریں تو تھوڑے ہی عرصے میں توانائی کے اس سنگین بحران پر قابو پانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔کے ای ایس سی کا ڈھانچہ بہت بوسیدہ ہوچکا ہے اور اس کے اندر گزشتہ تیس برسوں سے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ کراچی میں بجلی کی مانگ 2200 میگا واٹ کے لگ بھگ ہے اور کارپوریشن کے اسی مقدار میں بجلی دستیاب ہے، 1600 میگا واٹ وہ خود پیدا کرتی ہے جبکہ ۰۰۶ میگا واٹ واپڈا سے لیتی ہے مگرایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دو آئی پی پیز پلانٹس فرنس آئل پر چلتے ہیں جس کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ ہوچکا ہے۔اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے مہنگے پلانٹ بند کردیئے جاتے ہیں جو سات آٹھ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کی لوڈ شیڈنگ کا باعث بنتے ہیں ۔حکومت کو ان معاملات پر کامل سنجیدگی سے غوروخوض اور کراچی کے عوام کی مشکلات کو اپنی ترجیحات میں اولیت کا درجہ دینا چاہئے ۔بالا دست طبقوں نے اپنے آرام و آسائش کی خاطر عوام کو شدید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ارزاں نرخوں پر فرنس آئل کی فراہمی ، آئی پی پیز کے واجبات کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے بالخصوص ہائیڈل پاور جنریشن میں بھرپور سرمایہ کاری سے بحران کا ایک مستقل حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔
Asher Najmi
About the Author: Asher Najmi Read More Articles by Asher Najmi: 3 Articles with 1664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.