پنجابی زبان کا اپنا ہی ایک لطف
و مز ا ہے ۔ پنجابی میں " ریس کرنا " کے معنی ہیں نقل کرنا ۔ گھروں میں اور
عموماََ گفتگو میں ریس کرنے کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ وسائل ہوں یا نہ ہوں
لیکن دوسروں کی برابری کرنے کی ریس نے ہمیں تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ ہمارے
سیاستدانوں نے بھی جاتے جاتے کچھ ایسا ہی کیاہے ۔ اسمبلیوں سے جاتے ہوئے
اپنے لیے مراعات کی ایک بارش کردی اور پھر سب کو منظور بھی کر لیا۔ پانچ
سال یا جتنا بھی عرصہ نصیب میں ہو منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اور سینٹ
جانے کے بعد بھی اپنا ایک مقام بر قرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ عزت و وقار سے
رہنا اچھی بات ہے لیکن جن مراعات کو وہ اپنا حق سمجھ رہے ہیں وہ شاید مناسب
نہیں ہے ۔ زیادہ تر سیاست دان اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے ہیں ۔اپنے عہد
حکومت میں اُنہوں نے کمایا بھی بہت ہے ۔ اسمبلی میں آئیں یا نہ آئیں، اپنے
لوگوں کے مسائل پر بات کریں یا نہ کریں یہ اُن کی مرضی لیکن مراعات ساری
حاصل کیں اور جاتے جاتے اپنے بجلی ، گیس اور دیگر کے واجبات بھی ادا کئے
بغیر چلے گئے۔
اہم سوال یہ ہے کہ جب وہ اتنا کچھ چاہتے ہیں کہ حاصل کریں تو وہ کس کی ریس
کر رہے ہیں۔ اُن لوگوں کی جو سرکاری ملازمین ہیں۔ جنہوں نے اپنی جوانی سے
لے کر بڑھاپے تک اپنا سارا وقت قوم و مُلک کے لیے وقف کیا۔ جنہوں نے
سردوگرم موسم کے اُتار چڑھاؤ دیکھے۔ دُکھ سُکھ اور پریشانی میں اچھا بُرا
وقت گزار لیا۔ پاکستان کی خدمت کے لیے جہاں بھیجا گیا چلے گئے۔ گھر والے
اُن کے ساتھ ہر دُکھ سُکھ برداشت کرتے رہے۔ دن رات میں تفریق نہ ہوئی۔ جن
کی عادت محنت و مشقت بن گئی۔ جنہوں نے اپنی ذات سے بڑھ کر سوچا۔ جب بھی
قربانی دینے کی باری آئی تو ساری قوم کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنی تمام
توانائیاں صرف کر کے جب اُن کے ناتواں کاندھے مزید بوجھ نہیں اُٹھا سکتے
تواُن کے اثاثے اُن کی پنیشن بُک، ایک قطع زمین یا گھر وہ بھی اگر نصیب میں
ہو۔ یا اُن لوگوں کی ریس کر رہے ہیں جنہون نے اپنی محنت اور مشقت سے اپنے
لیے راستے بنائے اور ترقی کی اور آج اُنہیں عزت و وقار حاصل ہے۔ ریس کسی کی
بھی کریں جن لوگوں نے کوئی مقام حاصل کیا ہے اُنہوں نے بے لوث خدمت کی ہے۔
محنت کی ہے اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ایک مثبت سوچ کے ساتھ
آگے بڑھے ہیں۔ اگر ان کی ریس کرنی ہی ہے تو ان جیسے تو بن جاؤ۔ اپنے ماہ
وسال ، اپنی سوچ اپنی طاقت اور وسائل اپنے مُلک کی بہتری کے لیے استعمال
کرو۔ اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ کرؤ اپنی انفرادی حیثیت سے باہر نکلو اور اُن
جذبوں کی قدر کرو جو لوگوں کے دلوں میں اس مُلک و قوم کے لیے ہیں(انور
پروین، راولپنڈی) |