قصور تو کراچی والوں کا ہی ہے

چلیں آج روڈ ماسٹری کرتے ہیں۔سڑک چھاپنے کا کام تو ہم نے بھی بہت کیا۔ایک بار پھر سڑکوں کو یادکرتے ہیں۔اگرچہ ہر طرف سیاسی گہما گہمی ہے، ہر جانب لوگ سیاست کی باتیں کرنے اور سننے میں دلچسپی لے رہیں ۔لیکن ہم سڑکوں کی بات کریں گے عجیب بات ہے نا۔ ؟ بات یہ ہے کہ کراچی کا روڈ نیٹ ورک جس طرح کا ہوگیا ہے اس بارے میں گفتگو کرنا ناگزیر ہے۔

میرا ایک دوست کئی سال بعد امریکہ سے کراچی آیا اور بغیر سلام دعا کیے کہنے لگا ” یار کراچی تو باالکل ہی بدل گیا،ہم نے تو سنا تھا کراچی والے اور کراچی کے حالات بدلے ہیں ۔ مگر یہاں آنے کے بعدپتا چلا کہ سارا نقشہ ہی بھول بھلیاں کی طرح ہوگیا ہے“۔کہنے لگا یاریہاں جس نے بھی سڑکوں پر کام کیا وہ بہت ذہین تھا،اس نے جہاں کام کرانے کی ضرورت بھی نا تھی وہاں بھی کراگیا۔ ٹھنڈی سانس لیکر اس نے پھر بولنا شروع کیا ۔لگتا ہے کہ فلائی اوورز جسے بالائی گزرگاہ بھی کہا جاتا ہے اس کا تو جال کھڑا کردیا گیا ہے؟ یار یہاں کیا ماضی میں ”ٹھیکیداروں “کی گورنمنٹ تھی ؟ ممکن ہے کہ سیمنٹ وغیرہ فری میں ان ترقیاتی کاموں کے لیے ملتا ہو؟ وہ بولے جارہا تھا۔۔۔یار کمال ہوگیا شہر کی سڑکوں کو ایسا بنادیا گیا جیسے ہائی ویز کی سڑک ہو۔۔۔تم کو پتا ہے ہائی وے پر زیبراکراسنگ یا سڑک عبور کرنے کی سہولت نہیں ہوتی۔مگر حیرت ہے کہ یہاں فلیٹوں کے سامنے ، بازاروں کے قریب اور ہر اسٹاپ کے ساتھ بھی سڑک عبور کرنے کے لیے کسی قسم کی سہولت نہیں دی گئی۔۔۔۔۔میں نے کہا یار کیا میں جواب دے سکتا ہوں ۔۔۔کہنے لگا کیا جواب دوگے یار مجھے معلوم ہے کہ یہاں سڑک کے حادثات میں راہ گیر وں کے جاں ہونے کے واقعات بہت ہوتے ہونگے ،اس وجہ سے یہاں کے حق پرستوں نے سوچا ہوگا کہ سڑک عبور کرنے کی سہولت ختم کردی جائے اس طرح حادثات نہیں ہونگے۔یار وہ دور اب تو ختم ہوگیا نا؟ میں نے جواب دیا ہاں بھائی ختم ہوگیا۔ فوراََ بولا شکر ہے ورنا تو میری یہاں چند ماہ موجودگی کے دوران بھی دو چار فلائی اوورز بن جاتے ۔۔۔۔یارانور حیرت ہے سانس لیکر اس نے کہا اور قہقہ لگایا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔بھائی ابوالحسن اصفہانی روڈ اور یونیورسٹی روڈ کے سنگم میں تو فلائی اوورز کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی پھر اسے کیوں تعمیر کیا گیا؟فرحان اس وقت تک بولتا رہا جب تک میرے ساتھ رہا ، مجھے تو اس نے کچھ کہنا کا موقع بھی نہیں دیا اور پھر یہ کہہ کر اچانک جانے کے لیے کھڑا ہوگیا کہ بھائی تیرا شہر اب ایسا نہیں رہا کہ کچھ دیر سکون سے بیٹھا جاسکے ۔کیونکہ مجھے ابھی سی این جی بھی بھروانی ہے اور دیکھ سی این جی اسٹیشن تیرے گھر کے سامنے ہے مگر پتا ہے اس تک پہنچنے کے لیے مجھے راستہ آدھا میل دور سے ملے گاکیونکہ اب اس شہر میں کسی ”گاڑی “ کو یوٹرن کی اجازت نہیں ہے ۔ البتہ یہاں سیاسی رہنما اپنے بیانات پر یوٹرن لے سکتے ہیں۔ فرحان بولا ، میری گلی کے کونے پر بھی بیرئر لگا ہو ا ہے اس لیے مجھے لمبا چکرلگاکر اپنے گھر جانا پڑتا ہے اس لیے بھائی ، میں تو چلا۔۔۔۔۔فرحان تو چلاگیا لیکن جاتے جاتے مجھے جھنجھور ڈالا۔میں سوچنے لگا کہ کراچی پاکستان کا دل ملک کا سب سے بڑا شہرہے ،یہاں صرف ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا اور امن و امان سے متعلق دیگر مسائل ہی نہیں بلکہ یہ بھی مسائل ہیں جو گھر سے نکلتے ہی انسانوں کو لپٹ جاتے ہیں۔شہر کے حقیقی نمائندوں نے شہرکی ، گلیوں اور سڑکوں کے ساتھ جو مذاق کیا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔شہر کی ہر بڑی اور چھوٹی سڑک پر ایک نہیں بلکہ تین سے زائد بالائی گزرگاہیں تعمیر کردی گئیں ، دور دور تک سڑکوں کے آئی لینڈ کو بڑے جنگلے لگاکر اس طرح بند کردیا گیاکہ کوئی بھی شخص سڑک پارنا کرسکے۔سڑک عبور کرنے کے لیے سینکڑوں گز کے فاصلے پر اورہیڈ برج تعمیر کیے گئے ہیں۔ان میں اکثریت ایسے پلوں کی ہے جو لوہے کہ ہیں انہیں یہاں لاکر فٹ کردیا گیا لیکن اس کی بلندی اتنی ہے کوئی مریض اور یا معذور شخص سڑک عبور کرنے کے لیے اس کو استعمال کرنے کا تصور نہیں کرسکتا۔غریب پرور شہر جہاں ہر سڑک کے قریب رہائشی اور تجارتی عمارتیں ہیں، ان مقامات پر لوگ پتھاروں اور ٹھیلوں پربھی کاروبار کرتے ہیں۔

سگنل فری شاہراہ کے نام پر ہر چوک اور موڑ پر فلائی اوور تعمیر کردیئے گئے اور سگنلز ختم کردیئے گئے۔ جیسے ہائی ویز ہوتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ بغیر اسٹڈی کیے اربوں روپے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔عام خیال یہ ہی ہے کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لاگت کے منصوبے اس لیے مکمل کرائے گئے کہ بھاری کمیشن حاصل کرلیا جائے۔کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ یہ منصوبہ کیوں بنایا گیا؟ اس کے مستقبل میں کیا نتائج ہونگے؟ ٹریفک کا نظام رواں رکھنے کے نام پر اربوں روپے کے ریت کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے۔اب بعض مقامات پر ان فلائی اووز کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔لیکن منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے والے بے فکری سے گھوم رہیں ہیں انہیں کوئی بھی نہیں پوچھ رہا اور پوچھے گا بھی نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے صرف ہر ایک کو ڈراتے ہیں۔

یقین کیجئے کہ میرے شہر میں گلشن چورنگی ، شاہراہ پاکستان ،یونیورسٹی روڈ ،اور نارتھ ناظم آبادمیں تعمیر کیے جانے والے پل تعمیراتی اصولوں کے خلاف ہیں۔لیکن کیا ان منصوبوں کے بارے میں کوئی تحقیقات کی جائے گی؟شائد نہیں۔لیکن اگر عدالت خود ایکشن لے تو اور بات ہے۔

آسان ٹریفک کے ذرائع کے نام پر جگہ جگہ فلائی اوور کی تعمیر ایک مذاق بن چکی ہے کیونکہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان فلائی اووز پر جب گاڑیاں خراب ہوتیں ہیں یا سی این جی وغیرہ ختم ہونے سے یہ بند ہوجاتی ہیں تو ٹریفک معطل ہوجاتا ہے جس کااثر آس پاس کی سڑکوں پر پڑتا ہے۔

کراچی کی آٹھ ہزار کلو میٹر طویل سڑکوں کو فلائی اورز کی تعمیر کے بعد بارہ ہزار کلو میٹر تک کردیا گیا ہے۔لیکن ان سڑکوں اور فلائی اووز پر چلنے والی تقریباََ 25لاکھ گاڑیوں کو اور انہیں چلانے والوں کو کوئی سہولت نہیں مل سکی بلکہ سڑک کے درمیانی راستے بند کرکے انہیں مزیدمشکلات سے دوچار کردیا گیا۔
یہ ہی نہیں اس شہر میں جہاں کوئی سابق صوبائی وزیر، مشیر یا مخصوص جماعت کا غلبہ ہو وہاں کسی غیر متعلقہ شخص کا ہی نہیں بلکہ اسی علاقے کے لوگوں کا اپنے گھروں کو سیدھے راستے پہنچنا ناممکن ہوگیا ہے کیونکہ ہر گلی پر بیئریر لگے ہوئے ہیں ۔سیکیورٹی کے نام پر وہ ہی لوگ رکھوالے بنے ہوئے ہیں جن سے عام افراد ڈر تے ہیں۔

فرحان ہی نہیں بلکہ اکثر لوگ جب بیرون ممالک سے اپنے شہر واپس آتے ہیں تو وہ یہاں کی تکالیف دیکھ کر جلد ہی پلٹ جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مگر اس بات کی فکر کون کرے گا ۔قصور تو کراچی والوں کا ہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو کیوں منتخب کرتے ہیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166046 views I'm Journalist. .. View More