پاکستان خوبصورت وادیوں،
کوہساروں، زرخیز زمینوں اورپورٹ جیسی سہولت سے مالا مال ہے۔ مگر پھر بھی یہ
ملک تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا ملک نہ بن سکاکیونکہ اس ملک میں کروڑ پتی
بننے والوں کی تعداد کافی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھی ہے، لیکن اس حقیقت کو
بھی پسِ پردہ رکھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ جس تیزی سے اس ملک کی قوتِ
خرید بڑھی ہے اور کروڑ پنتیوں کی تعداد میں اضفاہ ہوا ہے اسی رفتار سے خطِ
افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ جس کا صاف صاف
مطلب تو یہ ہوا کہ امیر امیر تر ہوگئے اور غریب غریب ترین۔ عجیب مسئلہ ہے
کہ ملک سے مفلسی ختم کرنے کے بجائے حکومت اعداد و شمار کے سہارے غریبوں کی
تعداد گھٹانے میں مصروف ہوگئی ہے۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت
غربت کو امیری کے پیرہن میں پیش کرنا چاہتی ہے۔ کئی سروے رپورٹ کے مطابق
ملک کے کئی حصوں میں سینکڑوں کسانوں نے محض بھوک اور افلاس یا قرض کے بوجھ
کی وجہ سے تنگ دستی کا شکار ہیں، پلاننگ کرنے والے نہ جانے کس طرح پلاننگ
کرتے ہیں کہ غربت بجائے کم ہونے کے اور بڑھتا ہی جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار
کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو غربت کی شرح میں
کمی کا رجحان دکھایا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
یہاں کے باشندوں کا ایک طویل عرصے سے یہی مسئلہ رہا ہے کہ ان کی تمام تر
زندگی دو وقت کی روٹی کے حصول کی تگ و دُو میں ہی صَرف ہوتی ہے اور تمام
عمر گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ کے سوال کا جواب کی تلاش میں سرگرداں رہتے
ہیں مگر ایک تھکا دینے والی جہدِ مسلسل کے باوجود اس سوال کا مستقل جواب نہ
ہی حکومت تلاش کر سکی اور نہ ہی کوئی غریب۔ ہمارے ملک کے عوام ایسی غربت،
مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہیں مگر مملکت اس طرف توجہ نہیں
دیتی اگر عوام کی فلاح وبہبود پر توجہ دیا جاتا تو آج نتیجہ مختلف ضرور ہو
سکتا تھا۔
پاکستان کے معاشی وجود کو جو بیماریاں لاحق ہو چکی ہیں ان میں بلا شبہ
بدعنوانی اور کرپشن سب سے گھمبیر مسئلہ ہے اورمہنگائی، غربت و بیروزگاری
جیسے مسائل بھی یہاں سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ کتنے ہی ہزار لوگ خط افلاس سے
نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں غریبوں کی تعداد کے بارے میں
تو قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا مگر یہ اندازہ لگانے بے حد آسان ہے کہ ان
کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے ۔ لوگ اجتماعی خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں
اور اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے افلاس، غربت جو یہاں کہ غریبوں کو سانپ بن کر
ڈس رہا ہے۔ کئی اخبارات میں آئے دن اس طرح کے ہولناک اور دلدوز خبریں چھپتی
ہیں کہ غریبی کی وجہ سے فلاں نے اپنی بیوی بچوں سمیت خود کشی کر لی۔ کیا
ہمارے یہی کچھ ہوتا رہے گا یا اس کی کوئی داد رسی بھی کی جائے گی یہ ایک
سوالیہ نشان ہے جو اس ملک کے کرتا دھرتاﺅں سے چیخ چیخ کر پوچھ رہا ہے کہ
آخر یہ سب کب تک؟
عوام اس انتظار میں ہیں کہ کیا کبھی ایسی حکومت آئے گی جو غربت کو جڑ سے
ختم کرے گی۔ غربت ختم کرنا کوئی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا کھیل نہیں ۔ سبق
لینی ہے تو دوسروں سے لیں ، کیا بنگلہ دیش ہم سے زیادہ غریب نہیں تھا مگر
اب وہ ہم سے زیادہ امیر ہو چکا ہے۔ ہمارے ارباب کو بھی کہیں اور نہیں تو
بنگلہ دیش جا کر معلوم کرے کہ انہوں نے وہاں کی غربت کس طرح ختم کی اور یہ
ترقی جو وہ روز افزوں وہاں ہو رہی ہے کس طرح حاصل کی اس کے بعد وہی فارمولا
یہاں بھی آزمایا جائے ۔ یہاں تو بس یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر شاخ پہ الو
بیٹھا ہے ۔ اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہر شاخ پہ الو بیٹھ جائے تو انجام
گلستاں کیا ہوگا۔
سنو ! کوئی خریدار ہے نظر میں
مفلسی کے دن ہیں وفا بیچنی ہے
کہنا اور لکھنا بہت سخت ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات بہت
بری بھی لگے لیکن سچائی یہی ہے کہ آج تک کسی بھی حکمران نے غریبی کے خاتمے
کے لئے کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے ۔ پارلیمنٹ میں بل تو ضرور پاس
ہوتے ہیں مگر اس پر عمل در آمد نہیں کروایا جاتا۔ البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ
کاغذی سطح تک اس پر عمل در آمد ہو جاتا ہے اور رپورٹیں تیار کر لی جاتی ہیں
کہ پہلے غربت فلاں شرح پر تھی اور آج کم ہوکر فلاں شرح پر آگئی ہے۔
ہر طبقہ ہی مہنگائی کی زد میں ہے لیکن خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے
لوگ اس چکی میں زیادہ پِس رہے ہیں ۔ پہلے دور کے لیڈر ذاتی درد کو نظر
انداز کرکے اجتماعیت کے درد کو محسوس کرتے تھے، لیکن آج کے لیڈر اپنے علاوہ
کسی کا درد محسوس نہیں کرتے۔ اب وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب عوام اپنا اچھا
کل چننے کے لئے بے تاب ہیں۔ الیکشن میں ووٹ عوام کے شعور کا امتحان ہوگا کہ
وہ اپنے لئے کس طرح کے حکمران چننا پسند کرتے ہیں۔ بہرحال حکومت کو چاہیئے
کہ وہ منصوبہ بندی کمیشن سے غربت کی تعرف ضرور پوچھے کیونکہ یہ سارا معاملہ
جو سنگین ہو رہا ہے اس کی اصل وجہ ہی اس ملک میں غربت کا پروان چڑھنا
ہے۔ہماری تو مثال ایسی ہے کہ:
صحنِ غُربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
غربت کا عفریت ہمارے ملک میں روز ہی کسی نہ کسی نگل جاتا ہے ۔ ایک اخبار
میں لکھا ہے کہ آئی ایم ایف کے خیال میں پاکستان میں بے روزگاری سرکاری
دعوﺅں کے برعکس کہیں زیادہ شدید اور خطرناک حد تک زیادہ ہو چکی ہے اور اس
وقت تک کم از کم یہ شرح 33.8فیصد تک ہے۔ اگر معاشی شرح بھی اسی طرح رہتی ہے
تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ یہاں ملازمت کے نئے مواقع دستیاب نہیں ہونگے
اور جو ہونگے وہ صرف سیاسی بنیادوں پر ہی ہونگے۔
پاکستان میں غربت میں 77فیصد اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس کا فیصلہ گیلپ پاکستان
کے تحت کرائے گئے ایک سروے میں چاروں صوبوں کے شہریوں سے سوال کیا گیا تھا
کہ کیا غربت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی ہوئی ہے تو 77فیصد پاکستانیوں نے
گذشتہ دس برسوں میں غربت بڑھنے کا اعتراف کیا ہے۔ غریب کی تعریف میں وہ لوگ
شامل تھے جن کے پاس سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ تک نہیں ہے۔ اسی سروے میں ایک
سوال پر لوگوں کا کہنا یہ بھی تھا کہ غریبوں کی مدد کرنے کے رجھان میں بھی
خاصی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔اختتامِ کلام میں بس اتنا لکھنا چاہوں گا کہ:
یوں نا جھانکو غریب کے دل میں
یہاں حسرتیں بے لباس رہتی ہیں |