کیااب تک کی ہماری تعلیم نے ہمیں
صرف بولناہی سکھایاہے؟
یہ بات صحیح ہے کہ انسان اپنے علم وہنر سے پہچانا جاتا ہے مگر صحیح تربات
یہ ہے کہ انسان کی شناخت کابنیادی حوالہ اس کاعلم وفن نہیں، اخلاق وکردار
ہوتے ہیں ۔ اس کی حقیقی عظمت کاتعین اس کے معاملات، طور طریقوں اور زندگی
کی خارجی کیفیتوں اورعملی مظاہرسے ہوتاہے ۔ اگر کسی کے پاس ڈھیروں علم ہو،
علم کے بوجھ سے اس کی پیٹھ دوہری ہوئی جارہی ہو لیکن اس کے اخلاق وکردار،
انداز واطوار، عادات و خصا ئل کاقبلہ اسلام کے مقررکردہ اصولوں کی طرف نہیں
ہے توایساشخص علم وفن کے انتہائی بلندترین اوروشن ترین مقام پر فائز ہونے
کے باوجود محرومیوں کے اندھے غاروں میں ٹامک ٹوئیا ں مارتا پھررہاہے ۔وہ
ایسے انسان کی طرح ہے جوشیریں چشمے کے کنارے کھڑاہے مگراس کی کم نصیبی اسے
اپنی پیاس بجھانے نہیں دے رہی ہے ۔قرآن نے اس طرح کے لوگوں کے لیے سب سے
اچھی مثال پیش کی ہے : مَثَل الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰیۃَ ثُمَّ لَمْ
یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا
اس کاسیاق گوکہ مخصوص حالات اورمخصوص قوم ہے مگر یہ ایک علامتی مثال ہے ۔یہ
بتاتی ہے کہ علم اوراخلاق میں معنوی طور پرکس قدرگہرااتصال ہے۔اگرکوئی اپنے
عمل سے ان میں انفصال پیداکرنے کی کوشش کرے توہ اس گدھے کی طرح ہے جسے
آتاجاتاکچھ نہیں مگراپنی پیٹھ پرکتابیں لادے پھرتاہے ۔ علم و اخلا ق کے
گہرے اورروحانی رشتے کی اس سے اچھی مثال کوئی اور نہیں ہوسکتی۔حماریعنی
گدھاکالفظ ہمارے معاشرے میں نہایت معتوب ہے اسے حماقت کی علامت سے تعبیر
کیا جاتاہے ۔ کسی بے وقوف آدمی کے لیے یاکسی سے غلطی سرزد ہوجائے تو بڑوں
کی زبانوں پراکثرگدھاکالفظ آجاتاہے۔قرآن کی ا س تمثیل کی روشنی میں
کہاجاسکتاہے کہ باعلم آدمی اگربدعملی اور بداخلاقی کی سطح پر آکر کھڑا ہو
جائے تو اس کی حیثیت حمارسے زیادہ نہیں ہے۔یہ بڑی دل چسپ مثال ہے کہ
بداخلاقوں کی خداکی بارگاہ میں حمارکاتحفہ عطاکیاجارہاہے۔
ہمارے مذہبی معاشرے کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ یہ حصول علم کوہی سب سے بڑی
کامیابی تصور کرتا ہے اورسمجھتاہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت مفت میں حاصل
ہوجائے گی بلکہ اگریہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں تربیت کا کوئی تصورہی نہیں ہے
توغلط نہیں ہوگا۔حالانکہ تربیت اگر تعلیم کے ساتھ مفت میں حاصل ہو جاتی تو
قرآن کریم میں جگہ جگہ علم اور تعلیم کے ساتھ تذکیروتذکیہ کے الفاظ الگ سے
کیوں ذکرکیے جاتے ؟ محض علم و تعلیم کاذکرکافی ہوتا۔اخلاق و کردار کے ذیل
میں تربیت کا تذکرہ اس لیے کیاجارہاہے کہ دراصل اسی کے بطن سے اخلاق و
کردارجنم لیتے ہیں ،تواضـع وانکساری کی نمود ہوتی ہے اورزندگی کے عملی
مظاہر کے اٹھان کارخ متعین ہوتاہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ علم کے ساتھ تربیت
یعنی اخلاق وکردارکی اہمیت کیوں ہے؟
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ۶۳سالہ حیات طیبہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنی
عمرشریف کے ابتدائی چالیس سال کے درمیان اپنے معاشرے میں صرف اپنے اخلاق
وکردارکے ذر یعے نہایت ممتازمقام حاصل کرلیاتھا۔ اس عرصے میں آپ نے اخلاق و
کردار کا وہ عظیم ا لشان اورقابل تقلید نمونہ پیش فرمایاکہ لوگ ان کے
گرویدہ ہوگئے۔ چالیس سال کی عمرمیں جب حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے خداکی
وحدانیت کااعلان فرمایاتوآپ کے قریبی لوگ دھیرے دھیرے آپ کی باتوں پریقین
کرتے رہے اور اسلام کے دامن میں پناہ لے لی حتیٰ کہ ان کے بدترین دشمن بھی
گرچہ ایمان نہ لاسکے مگر ان کے بلنداخلاق و کردا رکے زندگی بھر رطب اللسان
رہے۔ اگرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی حیات کے ابتدائی مرحلے میں ہی
انہیں اسلام کی طرف بلاتے توکیالوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ؟ اوراسلام جوآج
ہم تک پہنچاہے کبھی پہنچ پاتا ؟اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلام میں اخلاقی
بنیادیں کس قدر گہری ہیں اورپورااسلامی نظام انہی بنیادوں پرقائم ہے ۔
اخلاق سے وہ کیام لیاجاسکتاہے جومحض درس گاہوں سے کبھی بھی نہیں لیاجاسکتا۔
درس گاہیں علماپیداکرتی ہیں ، مبلغین تیار کرتی ہیں ،مصنفین بناتی ہیں
مگرعمدہ اخلاق بیک وقت خاموشی کے ساتھ وہ کام کرسکتاہے جومبلغین ،علمااورداعیان
سے بھی نہیں ہوسکتا ۔ علماتقریریں کرتے ہیں ،مفتیان کرام فتویٰ دیتے ہیں ،
داعیان دین کی دعوت پیش کرتے ہیں اورمصنفین کتابیں لکھتے ہیں ۔ انہیں اس کے
لیے شعوری طورپرکوششیں کرنا پڑتی ہیں مگر اخلاق کاکمال یہ ہے کہ جب زندگی
اخلاقی سانچے میں ڈھل جاتی ہے توغیرشعوری طور پر اس باعلم خلیق آدمی
کاہرعمل مبلغ ،مصنف ، خطیب اورمفتی کاکام خودبخودانجام دینے لگتاہے ۔اس سے
معلوم ہواکہ علم کے ساتھ اگراخلاق بھی ہوتواس سے تاثیر دوچند ہوجاتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم مخاطب پر پہلی ہی پوزیشن میں اپناعلمی رعب ڈالنے کی کوشش
کرتے ہیں ۔وقتی طورپروہ مرعوب تو ہوجاتا ہے لیکن ذہنی طورپرا س میں کوئی
تبدیلی رونمانہیں ہوتی۔ اس کے برخلا ف اگرہم اسے اپنے اخلاق سے قریب کریں
تو یقین کیجیے کہ ہماری حکمت وتدبیر سے اس کے فکرواحساس میں خوش گوارتبدیلی
پیداہوسکتی ہے ۔
اعلان نبوت سے قبل سیرت نبوی کاچالیس سالہ مطالعہ بتاتاہے کہ پہلے اپنی
شخصیت بنانی پڑتی ہے اوریہ بغیرعمدہ اخلاق کے ممکن ہی نہیں،جب شخصیت مسلم
ہوجاتی ہے تو ارد گر دکے لوگ قائل ہونے لگتے ہیں بس یہی مناسب وقت ہوتا ہے
اپناپیغام پیش کرنے کا۔ہمارامعاشرہ عشق نبوی سے سرشاری کادعوی توببانگ
بلندکرتاہے لیکن سیرت نبوی کے اس پہلو سے عملاًکوسوں دور ہے ۔ وہ پہلے
مخاطب پراپنے علم کاسکہ جمانا چاہتاہے، ذراذرا سی باتوں پرشرعی قلم دان
حرکت میں آجاتاہے اوریہ سلسلہ بہت دورتک جاکررکتاہے ۔
اخلاق وہ چیزہے کہ پتھرکاجگربھی پانی کردیتاہے اور برے سے برے دشمن کوبھی
ہم نوابنادیتاہے ۔ہم اپنے لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ دیوبندی کے نام سے
پکاراجانے والا ہر آدمی دیوبندی نہیں ہے ،تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت
کرنے والاہرآدمی تبلیغی نہیں ہے ،بدمذہبوں کی مساجدمیں لاعلمی سے نماز
پڑھنے والاہرآدمی بدمذہب نہیں ہے ،ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے
اورمراسم وتعلقات رکھنے والاہرآدمی ان کا ہم فکر وہم نوانہیں ہے
مگرہمارا’’اخلاقی کمال‘‘ان سب باتوں کو سوچنے کا موقع ہی کہاں دیتاہے
اورمزے کی بات یہ ہے کہ اسی کو کل دین سمجھاجارہاہے۔دراصل یہ پوراقضیہ
اخلاق سے متعلق ہے ۔ ہم جب اخلاق کی بلندسیڑھی سے نیچے اترکرمحض علم کی سطح
پر آ کھڑے ہوتے ہیں تواسی طرح کے حادثات رونما ہوتے ہیں ۔
اس کوایک اورپہلوسے سمجھنے کی کوشش کریں،کسی بگڑے ہوئے انسان کی اصلاح کرنی
ہوتوپہلے مضبوط دلائل سے ا س کے افکارواعمال کی لغویت واضح کرنی پڑتی ہے
اوران دلائل میں قوت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ انسان حسن اخلاق سے متاثر
ہوچکا ہو ۔ اس مادی دورمیں کسی بھی بات کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے معقولی
اورمنطقی طرزفکر ناگزیر ہوتی ہے۔ اگر آپ ابتدائی دور ہی میں اس کی ڈانٹ ڈپٹ
شروع کردیں گے اورآپ کا ’’مذہبی جوش‘‘اس کی حرکتوں پرسخت نکیر،ناپسندیدگی ،نفرت
اورمخالفت کا مظاہرہ کرے گاتونہ صرف یہ کہ برائیاں دور نہیں ہوں گی بلکہ وہ
آپ سے بدظن بھی ہوجائے گا۔ ایسا انسان ہمیشہ دین کے حوالے سے عدم اطمینان
کا شکار ر ہتا ہے۔آج مسلمان بلکہ دیگراقوام میں اس طرح کے لوگ کثیر تعداد
میں ہیں۔ اگرآپ پہلے اسے پیار اور اخلاق کے ذریعے اپنے قریب کریں اورپھراسے
سمجھائیں توآپ کابڑاسے بڑامخالف بھی آپ کے ہم خیال بن سکتا ہے۔یہ بات خاص
طورپراس لیے کہی جارہی ہے کہ اب وہ زمانہ قصۂ پارینہ بن چکاکہ لوگ خداکے
خوف اور آیات واحادیث سن سن کرمسلمان ہو جایاکرتے تھے مگراس میں بھی
بااخلاق لوگوں کازیادہ کردار ہوتا تھا ۔ آج بالعموم لوگوں کے دلوں سے
خداکاخوف رخصت ہوچکاہے ۔ اسلام کا حکم ہے کہ برائی سے نفرت کی جائے برائی
کرنے والے سے نہیں ۔اس حکم میں غیرشعوری طورپر اخلاق کاسبق دیا جا رہا ہے
مگر ہمارامعاملہ تواس سے بالکل مختلف ہے۔ ہم برائی سے زیادہ برائی کرنے
والے کومشق ستم بناتے ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ بدک کر بھاگ کھڑاہوتاہے،نہ
وہ برائیوں کو چھوڑتاہے نہ برائیاں اسے چھوڑتی ہیں۔
حضرت شیخ سعدی نے بڑی اچھی بات کہی: ’’تعلیم بولنا تو سکھادیتی ہے لیکن یہ
نہیں سکھاتی کہ کب بولنا اور کتنا بولنا ہے۔‘‘ شیخ سعدی نے اس مختصر جملے
میں تعلیم وتربیت کا پورا فلسفہ انڈیل دیا ہے۔ ا س جملے کوالٹ پلٹ کردیکھے
تو کہنا پڑے گاکہ اخلاق و کردارکی ایک مکمل تصویر شیخ سعدی نے ہمارے سامنے
رکھ دی ہے۔اس فلسفے کی روشنی میں ہم بولنا تو سیکھ گئے ہیں مگریہ نہیں سیکھ
سکے کہ کس سے کب بات کرنی ہے ،کیابات کرنی ہے،کتنی بات کرنی ہے اورکیسے بات
کرنی ہے۔اس فلسفے کی عملی توجیہہ دیکھنی ہو تو اوپر کے دورویے دیکھیے ۔یہ
دونوں مثالیں ظاہرکرتی ہیں کہ ہم اپنی اب تک کی تعلیم سے صرف بولناہی سیکھ
سکے ہیں۔
ہماری کم نصیبی کہ ہم دین پر عمل کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر دین کی
حقیقی روح سے ناواقف ہیں۔ اگر دین صرف عبادات کامجموعہ ہوتا تب بھی اخلاق
وکردارکی اہمیت روشن تر ہوتی۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کوبھی عبادات
کے درجے میں شامل کیاہے اوراس کی کرن اخلاق کے سراپاسے ہی پھوٹتی ہے ۔اﷲ
عزوجل کی یہ عظیم حکمت ومصلحت ہے کہ دین کوصر ف عبادات میں محصور نہیں
کیابلکہ معاملات کو بھی عبادات کاہم پلہ بنایا۔اسلامی تعلیمات کے مآخذ کا
مطالعہ بتاتاہے کہ دین کے میزان میں معاملات کا پلڑا عبادات سے بہت بھاری
ہے مگر اس الٰہیاتی مقاصدسے قطع نظرکرکے ہم نے دین کو حقوق اﷲ تک محدود
کردیا ہے ، حقوق العباد یعنی معاملات اور اخلاق وعادات کوتو ایسے بھلائے
بیٹھے ہیں جیسے وہ دین سے باہر کی کوئی چیز ہوں۔
یہ صورت حال اس وقت اورنازک ہوجاتی ہے جب خواص کہے جانے والے بعض لوگوں کو
اس میں ملوث دیکھا جاتا ہے۔ یہ حضرات اپنے علم کی اتنی بلندی سے مخاطب ہوتے
ہیں کہ اگر ان سے کوئی چھوٹا ملاقات کرے یا بات کرے تواپنی بلندسطح سے نیچے
اترکرا س سے ملنااپنی کسر شان محسوس کرتے ہیں۔ بالعموم اس طرح کے حادثات
بڑے عہدوں پرفائزلوگوں اور اکثر مشائخ کے یہاں خوب رونما ہوتے ہیں۔ عقیدت
مند مرید اپنے شیخ کی ایک جھلک دیکھ پانے کے لیے بے قرار ہیں، ملاقاتیوں کے
غول کے غول چلے آرہے ہیں،وہ اپنا کچھ مسئلہ حل کرانا چاہتے ہیں، استفادے کے
خواہش مند ہیں مگرانہیں وقت ہی نہیں دیا جا رہاہے۔ان سے ملاقات کے لیے شیخ
یابڑے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔ہاں، بااثرلوگوں کے لیے مصروفیات کوتہ کرکے
وقت نکال ہی لیاجاتاہے۔ان حضرات کونہ توملاقاتیوں یا مریدو ں کے ضائع ہونے
والے اوقات کااحساس ہوتاہے اورنہ ان کی ضرورتوں کا۔یہ بے چارے ضرورت
مندیایوں کہیے کہ عقیدت مند بسا اوقات جھڑک بھی دیے جاتے ہیں اورپھروہ نا
امیدی کی تصویربنے واپس آتے ہیں۔ کیا اسی کا نام اخلاق ہے؟ یہی دین ہے اور
یہی سیرت نبوی کاسبق؟ ایسا علم جو چھوٹے آدمی سے ملاقات کرنے یابات کرنے
میں مانع بن جائے ، علم کہلائے جانے کاکیسے روادارہوسکتاہے ؟۔ ایسے شخص کو
العلماء ورثۃ الانبیائکاحامل قطعاًنہیں ہوسکتا۔ایسافضل وکمال ،ایساتقویٰ،
ایسا علمی تبحر،ایسامنصب ،ایسی طہارت،ایسی دولت ، ایسی عزت اور ایسی شہرت
کس کام کی ہے؟
یہ ہمارے کم ترشعورکی انتہا ہے کہ آج بڑا آدمی اس کو کہا جاتاہے جو بہت
زیادہ دولت مند ہو یا بہت شہرت یافتہ یا بہت بڑا عالم دین ہو یابہت بڑے
منصب پرفائزہو، قطع نظر اس سے کہ اس کا اخلاق کیسا ہے، معاملاتی
اموراورطورطریقوں میں اس کا مزاج کیا ہے۔ کسی مفکر نے کہا ہے کہ بڑا آدمی
وہ نہیں کہ جس کے پاس چھوٹا یا اس سے کم تر سطح کا انسان پہنچ جائے تو وہ
ان سے تحفظات کے ساتھ گفتگو کرے، اس کا رویہ اسے مایوسی اور احساس کمتری کے
عمیق غار میں ڈھکیل دے۔درحقیقت بڑا آدمی وہ ہے کہ جس سے ملنے والے کو اپنی
ذات کا عرفان حاصل ہو اور وہ اس کے اخلاق وکردارکی ڈورمیں مضبوطی سے بندھ
جائے۔ اگر انسان میں تواضع ہے، انکساری ہے تو وہی سب سے بڑا آدمی ہے اور سب
سے بااخلاق آدمی۔ہمارے درمیان بدمژگیاں اور نا اتفاقیاں اس لیے پیداہوچکی
ہیں کہ ہم باعلم تو ہوگئے ہیں لیکن بااخلاق نہیں بن سکے ہیں یاکم از کم
بااخلاق بننے کی کوشش نہیں کرسکے ہیں۔
ہمارے اپنے ہی لوگ ایک دوسرے کے خلاف تحریریں لکھتے ، تقریر یں کرتے اور
کتابوں پر کتابیں لکھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو باعلم ہونے کا دعویٰ کرتے
ہیں۔ ان سے یہ بات ڈھکی چھپی تونہیں کہ دل علم سے نہیں اخلاق سے جیتے جاتے
ہیں مگر یہاں اخلاق ہی نہیں تو دل کیسے جیتے جائیں اور لوگ کیسے ایک دوسرے
کے قریب آئیں۔ بڑے درد و اضطراب کی بات ہے کہ ہم سب کو ایک ہی ڈنڈے سے
ہانکتے ہیں اوراپناپیغام اس طرح پیش کرتے ہیں کہ گویامخاطب پرمسلط کرنے کی
کوشش کر رہے ہوں۔تو پھر بتایے کہ غلط فہمیاں کیسے ختم ہوں گی اور ہم اپنی
دعوت اپنا پیغام کیسے پہنچاسکیں گے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی
حدیث کلموالناس علیٰ قدرعقولھم(لوگوں سے ان کے عقل ومزاج کے مطابق
گفتگوکرو)کو صرف نفسیاتی رہنمائی کاوسیلہ مت سمجھیے۔اس میں بات کرنے
کاسلیقہ توبالکل سطح پرنمایاں ہے مگر اس کی زیریں لہروں میں اخلاقی تعلیم
بھی جاری ہے۔واضح رہے کہ لوگوں کی نفسیات سمجھ کرجو گفتگوکرے گاوہی
بلنداخلاق ہوگا۔
قرآن واحادیث میں عبادات کے متعلق ارشادات کم ہیں اور معاملات کے متعلق
زیادہ لیکن جب ہم نے عبادات کو لے لیا اور معاملات (جن کا تعلق راست طور پر
اخلاق و تعلقات سے ہے) کو چھوڑ دیا تو پھر ادخلوا فی السلم کافۃ پر عمل
کہاں ہوا؟۔ یہ توھواء پر عمل ہوگیا جس کو قرآن شریف میں ایک مذموم عادت
بتایاگیاہے ۔قرآن کریم کی آیت کریمہ ان اﷲ لایغیرمابقوم حتی یغیرمابانفسہم
میں لفظ بانفسہم پر غور کریں توپتہ چلے گاکہ یہاں دراصل نفس کی تبدیلی
پرزوردیاگیاہے ۔یہ نفس کیاہے؟اندرونی کیفیات ،واردات اوررجحانات کامرکب ہے
۔ اخلاق وعادات اوراندازواطوارانہی سے غذاحاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے نفس کے
داخلی احوال جتنے بہترہوتے ہیں اخلاق بھی اتنی ہی زیادہ بہتری کی طرف مائل
رہتے ہیں ۔اخلاق وعادات غیر محسوس طورپرہمارے نفس کے تارسے جڑے ہوتے ہیں۔یہ
داخلی نظام اگرروشن ومتحرک ہوتاہے تواس کی روشنی ہمارے اخلاقی کائنات کو
منور رکھتی ہے اوراگراس نظام میں کوئی خرابی ہوتی ہے تواس خرابی کاعکس
اخلاق پرضرورپڑتاہے ۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک
مسلمانوں کے اندرونی احوال ، باطنی کیفیات اور نفسیات میں تبدیلی نہ آجائے۔
عبادات کا مرحلہ توبہت بعد میں آتا ہے۔خودکوبدلنے کامطلب ظاہری تبدیلی نہیں
اندرونی تبدیلی ہے اور اگرظاہری تبدیلی بھی ہو تب بھی معنوی تبدیلی والا
مفہوم زیادہ قوی معلوم ہوتاہے کیوں کہ صرف خارجی اورظاہری بدلاؤ کے وہ
اثرات مرتب نہیں ہوسکتے جوباطنی اور معنوی بدلاؤ سے ممکن ہوسکتے ہیں۔
آپ خود غور فرمائیے کہ مسلمان بہت زیادہ عبادات کا اہتمام کرتے ہیں لیکن
کتنوں کو ان کا حقیقی لطف میسر آتا ہے۔؟ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اﷲ عزوجل نے
بندوں کو عبادات کے ساتھ معاملات واخلاقیات میں تبدیلی واصلاح کا حکم یوں
ہی نہیں دیا ہے۔ اسی تبدیلی پر ہی کسی قوم کی تقدیرکافیصلہ معلق کیاگیاہے۔
جب تک معاملات صاف ستھرے نہیں ہوں گے عبادات میں مزہ نہیں آئے گا۔نمازمیں
انسان کے بدن ،کپڑے ، نمازکی جگہ کی پاکی کی شرائط کیایوں ہی رکھی گئی ہیں
؟ وجہ اس کی یہی توہے ناکہ اس سے ظاہری طہارت مرادہے کیوں کہ جب یہ تمام
چیزیں پاک ہوں گی تونمازی کا لطف دوبالاہوجائے گا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ
دین میں اگر عبادات ہیں تو معاملات بھی ہیں ۔کسی ایک کو نظر انداز کیے بغیر
دین مکمل نہیں ہوگا۔ کسی چیز کے ایک حصے پر عمل دوسرے چیز کی کفایت ہرگز
نہیں کرے گا۔
جن حضرات کی نگاہوں سے ’’ ایمان‘‘ اور’’اسلام‘‘کے باہمی ارتباط اوران کے
معنیاتی پہلوؤں پرسے پردے اٹھے ہوئے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ایمان باطنی
کیفیت کانام ہے او ر اسلام ظاہری حالت کانام ۔ٹھیک یہی حال عبادات اور
معاملات واخلاقیات کاہے ۔ مطلب یہ ہواکہ معاملات کا تعلق در اصل ایمان یعنی
باطنی احوال سے ہے اورعبادات کاتعلق اسلام یعنی ظاہری احوال سے ۔مسلمان
ہونے کے لیے بنیادی اہمیت ایمان کو حاصل ہے ۔ داخلی نظام کی درستگی
پرجتنازیادہ ابھاراگیاہے اتنا خارجی اورظاہری نظام کی صحت پرنہیں۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ باعلم انسان کی بنسبت بااخلاق
انسان کی کئی گنازیادہ قدرکی جاتی ہے۔لوگ غیر شعوری طورپر بااخلاق انسان کے
اسیر بن جاتے ہیں اور زندگی بھر اسی زندان کے زندانی بن کررہتے ہیں۔آپ کا
مشاہدہ یقینا اس کی تصدیق کرے گا کہ بااخلاق آدمی کااس کا حسن سلوک انسان
کو زندگی بھر اس کا قصیدہ خواں بنائے رکھتا ہے۔ باعلم آدمی سے انسان کچھ
سیکھ سکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ اس انسان کے دل میں باعلم آدمی کے
لیے کوئی نرم گوشہ بھی موجود ہو لیکن بااخلاق آدمی سے دونوں کاحصول ممکن
ہے۔انسان اس سے سیکھتا بھی ہے اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کی شخصیت کی
چوکھٹ پر اپنی عقیدت کی جبیں بھی خم کردیتاہے۔
ہماری ’’مذہبی فکر‘‘کی پستی یہ ہے کہ بعض عالم کہے جانے والے حضرات چھوٹوں
کو سلام کرنے میں عارمحسوس کرتے ہیں۔ معاذ اﷲ رب العالمین ان کے دماغ میں
نہ جانے یہ کیسے سماگیا کہ ہم نے اگر چھوٹوں کو سلام کرلیا یا اسے عزت دے
دی تو ہماری عزت وعظمت میں فرق پڑ جائے گا۔ اس طرح کے جولوگ بھی بداخلاقی
کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنی عزت نہیں بڑھاتے بلکہ چشم زدن میں آسمان سے
زمین پراتر آتے ہیں اورکم نظر ، کم ظرف اور سطحی شخص ٹھہرتے ہیں۔آیت
کریمہ․․․․کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاایسے لوگوں پرپورے
طوپرصادق آتی ہے۔ تواضع وانکساری اﷲ کی بڑی عظیم نعمت ہے یہ جسے میسر آجائے
تو اسے اﷲ کاہمیشہ احسان مند ہونا چاہیے۔ تواـضع و انکسار ی بذات خودعزت
وعظمت کی دلیل ہے۔اﷲ عزوجل نے متواضع شخص کی عزت وسربلندی کی ضمانت لے کراس
کی عزت وعظمت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ حدیث مبارک من تواضع ﷲ رفعہ اﷲ
تعالیٰ (جس نے تواضع اختیارکی محض خوشنودی رب کی خاطر، اﷲ تعالیٰ اسے رفعت
عطافرمائے گا)جھک کرملنے کوتوہین وتنقیص کے مترادف سمجھنے والوں کے لیے ایک
بہترین نفسیاتی علاج ہے ۔
ہمارے درمیان نہ جانے کتنے لوگ اٹھتے بیٹھتے اپنے محسنوں کے احسان شناس
رہتے ہیں اوراپنے بعداپنے بچوں کی اس احسان شناسی کی تلقین کر جاتے ہیں۔کسی
کی بظاہرمعمولی سی معمولی بات دل میں اس طرح جذب ہوجاتی ہے کہ دل پروارد
ہونے والے خیالات ہمیشہ اسی کے طواف میں لگے رہتے ہیں اور موت تک انسان اس
کی یادوں کاجشن مناتاہے اورکسی کی کوئی بات دل کی گہرائیوں میں اس طرح
جڑپکڑلیتی ہے کہ نفرت و عداوت کاپودااگ آتاہے اور جب بھی وہ بات ذہن میں
آجاتی ہے زخم ہرے کردیتی ہے اور انسان زندگی بھراس زخم کی ٹیسیں محسوس
کرتاہے ۔یہ سب اخلاق کی کرشمہ سازیاں ہیں،علم کی نہیں۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عبادات سے آپ اپنے ہم مذہب لوگوں کوتومرعوب
کرسکتے ہیں لیکن دوسرے لوگوں کو اپنے قریب کرنے کے لیے عبادات نہیں معاملات
اوراخلاق وکردار کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ
اسلام دینی عبادتوں سے زیادہ معاملات اور اخلاق سے پھیلا ہے۔ اتنی اہم چیز
کو نظر اندازکرنے کامطلب کیاہے اورہم اپنے مذہب کی جس سطح پرمقیم ہیں وہ
ہمیں کہاں لے جارہاہے ؟
یہ اخلاق ہی ہے جوآپ کولیڈرشپ کے عظیم منصب پر فائزکرسکتاہے۔کیسے؟اچھی
لیڈرشب اوراچھے قائدکی ایک بڑی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اچھا سامع بھی
ہوتاہے یعنی دوسروں کی باتوں کوبغورسننااوریہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ دوسروں
کوان کی حیثیت کے مطابق عزت دیں اوراپنے بلندمرتبے سے اتر کر اس کی سطح
پرگفتگوکریں ۔اسی مزاج کاتودوسرانام اخلاق ہے۔ اخلاق اندرونی طورپرآپ
کوتیارکرتاہے کہ آپ دوسرو ں سے حسب صلاحیت گفتگوکریں اورپھرکوئی فیصلہ
لیں۔کہاجاتاہے کہ عموماًقائدین کے آنکھ اورکان نہیں ہوتے ۔وہ دیکھتے ہیں تو
دوسرو ں کی آنکھوں سے اورسنتے ہیں تودوسروں کے کانوں سے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ عوام الناس اپنے قائدین سے بدظن ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتاہے جوآج کل
ہمارے معاشرے میں ہور ہا ہے ۔
ایک وقت وہ تھا کہ بداخلاقی ہمارے معاشرے میں نہایت معیوب سمجھی جاتی تھی
اوربداخلاق شخص کونہایت گری ہوئی نظرسے دیکھاجاتاتھالیکن ہمارے زمانے تک
آتے آتے صور ت حال یہ ہوگئی ہے کہ بد اخلاقی کی بعض قسمیں فیشن بن چکی ہیں
اور طرفہ تماشہ یہ کہ انہیں گلیمر GLAMOUR سمجھا جا رہا ہے ۔یہ ہماری فکری
پستی کی بدترین صورت حال ہے۔کم علمی کی بنسبت بداخلاقی زیادہ معیوب ہوتی ہے
۔کم علم تو عزت کاحق دار ہے لیکن بداخلاق کوعزت دینے کاکوئی جواز نہیں۔ہم
آپ آئے دن اس طرح کے تجربات سے دوچارہوتے رہتے ہیں۔
پہلی وحی اقراء علم کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ اقراء یعنی پڑھنا صرف کتابوں
کامطالعہ نہیں ہے بلکہ کائنات میں پھیلی ہوئی خدا کی نشانیوں کامطالعہ
کرناہے کہ دل میں خداکی عظمتیں راسخ ہو جائیں اورکائنات میں پھیلی ہوئی ان
نشانیوں کودیکھ کردل اطمینان سے بھرجائیں کہ یہ نشانیاں ہمیں تواضع
،انکساری ،محبت ، انسانیت ،خیرخواہی ،ہم دردی جیسے ہزاروں اخلاقی پہلوؤں سے
روشناس کراتی ہیں۔
حدیث نبوی فلیبلغ الشاہد الغائب کیاصرف نظریاتی ترسیل وتبلیغ کے ہم معنی
ہے؟نہیں،بلکہ یہ فکری ونظریاتی ابلاغ کے ساتھ ساتھ عملی ابلاغ کی بھی دعوت
دے رہی ہے اوریہ عملی ابلاغ اخلاق وکردارنہیں تو اور کیا ہے ؟دعوت وتبلیغ
کے باب میں پیش کی جانے والی آیت کریمہ جادلھم باللتی ھی احسن(لوگوں سے سب
سے بہترطریقے سے مکالمہ کرو)گوکہ تبلیغی پس منظرمیں نازل ہوئی ہے مگراخلاق
سے بھی اس کارشتہ اتنا ہی مضبوط ہے جتنادعوت وارشادسے ہے۔یہ بتاتی ہے کہ
مخاطب سے گفتگوکرتے کرتے اگربات چیت مباحثے کی طرف مڑجائے تب بھی اخلاق کے
سرے کومضبوطی سے پکڑے رکھیئے ۔
ہمارے فہم ناقص میں آدمی اورانسان کومترادف سمجھناغلط ہے۔آدمی اور انسان
میں بالکل وہی فرق ہے جوبداخلاق اوربااخلاق انسان میں ہے۔اس مفہوم کویوں
بھی تعبیر کیا جا سکتاہے کہ آدمی شیطانی خصائل کا ا ستعارہ ہے اورانسان
اسلامی خصائل کااستعارہ۔ کوئی بھی شخص آدمیت سے سفرکے انسانیت کے مرتبے تک
اسی وقت پہنچ پاتاہے جب عمدہ اخلاق وکردارکازادرہ اس کا رفیق سفرہو۔
حضرت آدم کے سجدے کے بارے میں تمام فرشتوں کی حکم الٰہی کی اطاعت اورشیطان
کی حکم عدولی براہ راست اخلاق سے متعلق ہے۔شیطان کاسجدے سے انکار کردینا
علم اوراخلاق کے تصادم کابھیانک واقعہ ہے جس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ خداکی
بارگاہ سے ہمیشہ کے لیے دھتکاردیاگیا۔اس طرح دنیامیں سب سے پہلی بار بد
اخلاقی کامجرم شیطان قرارپایا۔ پہلی بارنزول وحی کے وقت جب حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم اچانک غیرمتوقع صورت حال سے گھبراگئے تواسی حالت میں اپنے
گھرتشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو ساراواقعہ سنایا۔اس وقت حضرت
خدیجہ نے جوجواب عنایت فرمایااورجس سے حضورکوحوصلہ وتوانائی ملی وہ تاریخ
اخلاق کا روشن ترین باب ہے ۔انہوں نے فرمایا: اے ابوالقاسم! خدا یقینا آپ
کی حفاظت فرمائے گاکیوں کہ آپ سچ بولتے ہیں ،دیانت دار ہیں، برائی کابدلہ
بھلائی سے دیتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ ‘‘
پہلی مثال اس وقت کی ہے جب اﷲ نے انسان کوپیدا کیا اوردوسری اس وقت کی جب
اس نے انسانوں کواسلام کی لازوال دولت سے مالامال کیا۔انسان کی ولادت اور
اسلام کے آغازکی یہ مثالیں محض اتفاقی نہیں ہیں کہ تاریخ آدم اور سیرت نبوی
کاحصہ سمجھ کرنظراندازکردیاجائے ۔اس کے بین السطورمیں جودرس ہے اسے سمجھنے
کی ضرورت ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اسلامی روایت کی تاریخ اپنی نہادمیں اخلاقی روایت کی تاریخ
ہے ۔اس تاریخ سے ا گر اخلاق و کردارکے صفحات حذف کردیے جائیں توجوکچھ بچے
گااسے کسی اورکی تاریخ تو کہا جا سکتا ہے اسلامی تاریخ ہرگزنہیں کہا جا
سکتا ۔ |