مذہبی و سیاسی جماعتوں، اساتذہ و
طلبہ تنظیموں اور ماہرین تعلیم نے نصاب تعلیم سے قرآنی آیات، سیرت رسول ،
اسلامی تاریخ اور نظریہ پاکستان سے متعلق مضامین ختم کرنے کے خلاف ملک گیر
تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک ان گمراہ کن تبدیلیوں
کو واپس نہیں لیا جاتا، پورے ملک میں احتجاجی تحریک جاری رکھتے ہوئے تعلیمی
کانفرنسوں، سیمینارز ، جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا جائے گا،
تعلیمی نصاب سے سیرت رسول نکال کر ”ڈینگی مچھر“کا مضمون شامل کرنا اسلام کی
توہین ہے، ڈالروں کی خاطر اس طرح کے مذموم فیصلوں کو غیور پاکستانی قوم کسی
صورت قبول نہیں کرے گی۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کے خلاف بھرپور قانونی
جنگ لڑی جائے گی، ملک بھر میں ملٹی میڈیا کے ذریعہ عوامی سطح پر بیداری مہم
چلائی جائے گی۔ان کا کہنا تھاکہ بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے منظم سازشوں
اور منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات اور نظریہ پاکستان
سے متعلقہ مضامین کو نکالا جارہا ہے۔قوم برطانوی ٹاسک فورس کے سربراہ
مائیکل باربر اور ریمنڈ کی بنائی ہوئی تعلیمی پالیسیاں ملک میں نہیں چلنے
دے گی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگی اور نظریہ پاکستان سے
متعلق مضامین ختم کر کے دیومالائی کہانیاں شامل کرکے ملک کو سیکولر بنانے
کی کوششیں کی جارہی ہیں۔علامہ اقبال کی جگہ ایک ہندو کی شاعری نصاب میں
شامل کرنا نظریہ پاکستان کی بنیادوں پر حملہ ہے۔ کلمہ طیبہ کی بنیادوں پر
حاصل کیے گئے ملک پاکستان میں ایسی مذموم حرکتیں کسی صورت برداشت نہیں کی
جاسکتیں۔حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ اگرنصاب میں تبدیلی واپس نہ لی گی
تو ہم راست اقدام کر یں گے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل حکومت پنجاب نے دسویں جماعت کی اردو لازمی کی نئی
کتاب میں اسلام سے متعلق تقریباً تمام اہم مضامین اور نظموں کو نکالنے کا
حکم دیا تھا۔جن میں ”رب کائنات“، ”محسن انسانیت“ ، ”طلوع اسلام“، ”صدیقہ“،
جیسے موضوعات کی نظموں کو کتاب کے حصہ نظم سے نکال دیا جائے گا جبکہ حصہ
نثر سے ”حضرت عمر فاروق،عظیم منتظم“، ”نظریہ پاکستان“، ”فاطمہ بنت عبداللہ“
اور دوسرے اسلامی مضامین کو نئی کتاب میں کوئی جگہ نہ ملے گی اور علامہ
اقبال جیسے قومی اور اسلامی شاعرکو مکمل طور پر غائب کر دیا جائے گا۔
تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کو روکنے کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس کے دوران
متفقہ طور پر اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ 2012ءمیں پنجاب اسمبلی نے قرآن
پاک کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی قرارداد منظور کی تھی محکمہ تعلیم کو
اس پر عمل درآمد کا پابند بنایا جائے اور غیر ملکی مشیر برائے تعلیم مائیکل
باربر اور ریمنڈکی ہدایات پر عمل درآمد کی بجائے مسلمان ماہرین تعلیم سے
مشاورت کر کے تعلیمی پالیسیاں بنائی جائیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام اور
دفاتر میں اردو رائج کرنے کے ساتھ ساتھ ایم بی بی ایس، انجینئرنگ اور
مقابلے کے امتحانات بھی اردو زبان میں لیے جائیں۔ آغا خان بورڈ اور دیگر
سیکولر نصاب تعلیم پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔ ڈالروں کی خاطر اسلام
دشمنی پر مبنی اقدامات کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آہستہ آہستہ
قرآنی آیات، احادیث اور اسلامی تاریخ کے سنہری اسباق حذف کرنے کا سلسلہ ختم
کیا جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلام و پاکستان دشمن این جی اوز نوجوان نسل کے
اخلاق و کردار تباہ کرنے کیلئے تعلیم کے نام پر بھاری فنڈز خرچ اور اپنی
تیارکردہ نصابی کتب تقسیم کررہی ہیں۔ ان کی ملک دشمن سرگرمیوں پر فی الفور
پابندی لگائی جائے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے ہرسطح پر الگ ادارے قائم کیے
جائیں۔ تعلیم کے میدان میں غیر ملکی سازشوں کو ہر سطح پر بے نقاب کیا جائے
گا۔ نظام تعلیم قوموں کی تہذیب بدلنے کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے، تعلیم کے
حوالہ سے تمام غیر ملکی امداد کو مسترد کر دینا چاہیے۔ ماہرین تعلیم کا
کہنا تھاکہ اگر ملک مسقط میں ساری تعلیمات عربی زبان میں دی جاسکتی ہیں۔
چندی گڑھ میں ایم بی بی ایس پنجابی میں ہو سکتا ہے اور جلال آباد میں فارسی
زبان میں تعلیم دی جاسکتی ہے تو پاکستان میں بھی قومی زبان اردو میں نوجوان
نسل کو تعلیم سے روشناس کروایا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے
نظریاتی اساس پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ قرارداد مقاصد پر عملدرآمد کی ضرورت
ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں علماءکرام کو نمائندگی دی جانی چاہیے اور تمام
پرائیویٹ و سرکاری سکولوں کا نصاب یکساں ہونا چاہیے۔نصابی کتب سے اسلامی
تعلیمات و اقدار اور نظریہ پاکستان سے متعلقہ مواد کا اخراج کسی صورت
برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غیر ملکی ماہرین کی ہدایات پر نصاب تعلیم کی
تیاری قوم کے لیے مہلک ثابت ہو گی۔ 18ویں ترمیم کے تحت نصاب تعلیم تیار
کرنے کی ذمہ داری وفاق سے صوبوں کو منتقل کرنا غیر دانش مندانہ اقدام ہے
جسے فی الفور واپس لیا جانا چاہیے۔پاکستان نظریاتی ریاست ہے، اس کے نصاب
تعلیم کا محور و مرکز اس کا اساسی نظریہ ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسی کتابوں کی
قطعاً ضرورت نہیں جو ہمارے نظریات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔
دوسری جانب تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن، ممتاز صحافی اور نظریہ پاکستان
ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی نے کہا کہ ہم مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ
نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ کو ہر سطح پر نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا
جائے۔ ہماری نئی نسل پاکستان کا مستقبل ہے، ان کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری
ہے کہ پاکستان کیوں اور کیسے معرضِ وجود میں آیا۔ ملک و قوم کے مستقبل کو
محفوظ بنانے کی خاطر ضروری ہے کہ نسلِ نو کو قیامِ پاکستان کے حقیقی اسباب
اور مقاصد سے آگاہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں نصابِ تعلیم کا کردار کلیدی
اہمیت کا حامل ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری درسی کتابیں نظریہ پاکستان
کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
باخبر ذرائع کے مطابق ورلڈ بینک کی جانب سے حکومتِ پنجاب کو درسی کتابوں کی
مفت تقسیم کے لیے اڑھائی ارب روپے کی خطیر رقم فراہم کی گئی ہے۔ ورلڈ بینک
کے نمائندے مائیکل باربر کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر کی حیثیت حاصل
رہی ہے جو نصابی کتب میں ایسا مواد شامل کرنے کی ہدایت دیتا تھا جن کے باعث
ہماری نئی نسلیں اپنی شاندار اسلامی تاریخ اور نظریہ سے بے بہرہ رہ جائیں۔
اس پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم GTZ بڑی سرگرم
ہے جو تیکنیکی معاونت کے لبادے میں سیکولر نظریات کے حامل مواد کی ترویج و
اشاعت کو یقینی بنا رہی ہے۔ نصاب تعلیم کو سیکولر بنانے کے ذمہ دار ملکی و
غیر ملکی عناصر کو برخاست کیا جائے، ان کی طرف سے نصاب میں پیدا کردہ نقائص
کو دور کر کے اسے قومی امنگوں کے مطابق ازسرِنو تشکیل دیا جائے۔ ملک بھر کے
سنجیدہ حلقوں کی جا نب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اسلامی اور قومی
ہیروز کے تذکروں کو نکال کرآئندہ کسی وقت بش، اوبامہ، ریمنڈ ڈیوس،پرویز
مشرف،میرجعفر،میر صادق جیسے لوگوں کو نئی نسل کے سامنے متعارف کرایاجائے
گا؟ ہم محض اڑھائی ارب روپے کی خاطر اپنی نئی نسل کو غیر ملکی ہاتھوں میں
فروخت نہیں کر سکتے۔ نصاب تعلیم قوم سازی کا انتہائی موثر ذریعہ ہے، اسے
تیار کرنے کی ذمہ داری صرف محب وطن افراد کو ہی سونپی جانی چاہیے۔ |