کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا اسے
نا ممکن ہم خود بنا دیتے ہیں۔ اگر مگر کی تکرار سے اپنی سہولت کی خاطر۔تن
آسانی کی عادت اتنی آسانی سے چھوڑنے کو من نہیں چاہتا۔ رائی نظرآنے والی شے
پہاڑ سے بھی بھاری پن کا احساس دلاتی ہے۔ اندھیرے میں چشمہ ڈھونڈتے ہوئے
پاؤں ٹھوکر نہ کھائیں تو سمجھ بوجھ ،عقلمندی سے تعبیر کرتے ہیں ۔زندگی کی
معمولی کامیابی کے قصے فاتح عالم کے انداز تکلم میں بیان کرنے میں فخر زماں
کا لقب پانے میں حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اور اسے سمجھنے میں افلاطون اور
سمجھانے میں ارسطو سے بھی اگے نکل جاتے ہیں۔ میں کے کنواں میں اپنا ہی عکس
دیکھ کر پھولے نہیں سماتے ۔پہاڑوں میں پلٹ کر آنے والی اپنی ہی آواز کی
گونج سے منور رہتے ہیں ۔ کنواں سے پانی لا کر مٹکے بھرنے سے جو تسکین ملتی
ہے۔ مٹکے کےپانی سے پیاس بجھنے میں نہیں ۔کولہو کا بیل واپس لوٹنے پر کوسوں
میل کی مسافت کی تھکاوٹ کے احساس سے چور ہوتا ہے ،کوا چھت کی منڈھیر پر
بیٹھا گھر والوں کی نظر بچا کر راہزنی کی تاک میں رہتا ہے، کوئل تنہا
درختوں کے جھنڈ میں چھپی اپنی ہی دھن میں مگن گنگناتی رہتی ہے، طوطے اپنی
آوازوں سے ہنگامہ برپا کرکے پھلوں کے پکنے کا اعلان کرتے ہیں ، قاصد کبوتر
پیغام رسانی ہی سے محبوب نظر ہو جاتے ہیں ،شہباز بلندیوں کی اپنی حدود میں
داخل ہونے والوں کے لئے اجل کا پیغام بن جاتے ہیں ، بہار میں کھلتے پھول
بڑی چونچ کی چڑیا کو دعوت طعام دیتے ہیں اور جو آگ کو چکھتے ہیں آگ ہی سے
جلتے ہیں ۔ سر اٹھا کر اونچے پتوں تک جانے والے باندھ کر پتوں ہی پر جھکا
دئیے جاتے ہیں ، خود شکار کرنے والے قید میں ہڈیوں سے گوشت کو نوچتے
ہوئےغرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، کمزور کی آنکھ اسکی مفلسی و لاچاری کی
علامت بن جاتی ہے۔ طاقت کا نشہ خوف بن کر نظروں میں اتر آتا ہے۔وہ ہماری
قید میں ہیں ہم زمین کی اور زمین نظام شمسی کی قید میں، سارا جہاں ہی قید
کی ایسی زنجیروں میں جکڑا ہے۔ جو ایک پل کے لئے بھی خود کو جدا نہیں کر
سکتا۔ ہمارے قیدی ہماری تابعداری میں رہیں اور ہم نا فرمانی میں۔زمین کو
حکم نہیں کہ حدوں سے باہر چلی جائے ۔ چاندنیء مہتاب کو رخصتی کی اجازت نہیں
اورآفتاب کو روشنی پھیلانے میں کمی کی۔جو وجود چند ہزار قدموں سے زیادہ کی
سکت نہیں رکھتا آسمان پہ کمندڈالنے کا خواہش مند ہے۔مٹی کی بندشِ قید تو
مٹی تک ہے۔ روح کی آزادی ہی انہیں کائنات کی تحقیق پر آمادہ کرتی ہے ۔جو
آزادی ہمیں نصیب ہوئی چند خواہشات کے بدلے میں اسے گروی رکھ دیا۔ہم سے جو
کہا کہ جہاں میں پوشیدہ کیا کیا ہے ۔ہم نے فائدے کے لالچ میں انگار ہی بھر
لئے۔ پانی کے نیچے سرنگ بنا دی تو بڑی بات ہوئی جس نے سمندر ہی ٹھہرا دیا
اسے بھلا دیا ۔بھاگ بھاگ کر شائد تھک جائیں مگر سمیٹنے سے تھکتے نہ ہی رکتے
ہیں۔ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھی جا کر دیکھ لیا ۔ یہاں بھی آہٹ
میرے ہی قدموں کی ہے اور وہاں بھی میرے ہی قدموں کی۔ یہ قدم اسی زمین کے
وفادار ہیں ۔ جب تک ان پر وزن رہتا ہے اسی سے بغلگیر ہوتے ہیں ۔ جس گھر کے
رہنے والے نہ ہوں وہاں اناج بھر بھر کیا کرنا۔عقلمندی کی یہی بات سمجھنے کی
ہے کہ دوست کو دوست رہنے دو۔ زمانہ کو نہ ستاؤ ۔ دور گزر جائے گا۔ زمانہ
پھر بھی رہ جائے گا ۔ |