شودر ہیں صرف شودر

سیرسپاٹے کا شوق ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔مگر اس کی جانب کھچے جلے جانے میں کوئی تو راز مضمر ہوگاکہ بڑے بڑے نام اعلی پائے کے مسافرہوگزرے ہیں۔جدھر کا سفرنامہ آپ لکھ رہے ہیں اُس سے زیادہ قیمتی چیز اور کشش کاباعث آپ کاانداز بیان ہے۔اور یہ عطیہ قدرت ہے۔جیسے آپ سینکڑوں تولے سونادے کر بھی اچھی آوازاور ولایت نہیں خرید سکتے بالکل ایسے ہی قدرت کے عطیہ کردہ فن سفرنامہ کامقابلہ محض محنت سے نہیں کرسکتے۔اس لیئے اگرمیرازیرنظرسفرنامہ آپ کوپسندنہ آئے یاپھر وہاں کے مکینوں کی خستہ حالی پررحم آئے تو دونوں صورتوں میں ہاتھ دعاکیلئے ضروربلند کرنا۔

مجھے بھی پچھلے دنوں ایک ملک میں جانے کااتفاق ہوا۔جہاں کے عوام حیرت انگیز حد تک وراثت کے قانون کوتبدیل کرنےکے خلاف ہیں۔

وہاں پرجو بحث چل رہی تھی اس میں وہ لوگ محض دوڈھائی ہزار کے لگ بھگ سچے اورامانتدار لوگوں کی
تلاش میں تھے۔اُن کی تلاش بسیار سے مجھے حیرت ہوئی۔جدھر چوک ‘گلی یاسکرین پردیکھا لوگوں کاموضوع یہی تھا۔ہرکوئی پریشان تھاکہ اب کیاہوگا۔وہ لوگ پچھلی چھ دہائیوں سے کم وبیش ڈکیتوں‘ چوروں‘ لٹیروں کو اپنے قبائل ‘برادریوںیاعلاقے کاچوہدری بناتے رہے۔مگرچونکہ ان کے ہاں اتنی بڑی تعداد (2500)اچھے لوگوں کی نہیں تھی اسلئے فقط انہی خائن لوگوں کی آل اولاد کو ولی عہدتسلیم کرکے سربسجودہوتے رہے۔

انکے بقول کوئی تیس چالیس برس قبل انھیں ایک مسیحاملا‘لیکن مرض لادوانکلا۔بہت کوششیں کیں لیکن تقدیر ۔۔۔سمجھئے یااپنی نااہلی۔پھر ایک عجب واقعہ ہوا۔ایک شخص آیااس نے شرط لگائی کہ مختلف قبائل کاسرداریاچوہدری بننے کیلئے کیوں نہ شرطیں رکھ دی جائیں۔بے چارے مکینوں نے ہاں میں ہاں ملادی۔شرائط رکھ دی گئیں ‘تمام چھوٹے وڈے نے گُگی ماری۔لیکن پھردودہائی سے زائد عرصئہ تک یہ شرائط بھی سرد خانے میں پڑی رہیں۔اس بدنصیب زمین کے باسی کہتے تھے کہ وہ مفادپرست شخص تھا‘ہماری مرضی کے بغیرسارے قبائل وبرادریوں کامنتظم اعلی بنارہا۔میںنے علاقے کے ایک بزرگ سے پوچھاتو کہنے لگے ”پُترویکھ ناں گل پاویں اوہنے سچی کیتی اے پربندہ تے ڈنڈے آلاسی ناں“میں نے پوچھابزرگو!اگرچہ وہ شخص آپ کی نظروں میں ٹھیک نہیں تھامگریہ توآپ مانتے ہیں ناں کے دنیاکی کوئی مہذب تہذیب یاکوئی بھی مذہب جھوٹے ‘بددیانت اور لوگوں کے ساتھ برابرتاﺅکرنے والے شخص کواس قابل نہیں سمجھتاکہ وہ لوگوں کاسردار‘چوہدری یاوڈیرہ بنے؟؟بزرگ نے اثبات میں سرہلایا اورکوچ کرنے کی نیت سے اپنے جسم کوحرکت دی تومیں نے روکااورپوچھاباباجی یہ بتائیے کہ اگرکوئی عورت نامحرم سے گفت وشنیدکرے اور ہتھ پنجہ بھی کبھی کبھار ہوجائے تو آپ کی نظرمیں اُسے کیاسزادی جانی چاہیئے ؟کہنے لگے پُتر”توگلاں تے ٹھیک کرداایں پرزمانہ بدلداجارہیااے۔ایتھے ہوندی غیرت تے جرورنظرآﺅندی۔میں تے کہنہ واں ایہوجئی کُڑیاں نوں سمجھابجھاکہ گھربہادتاجائے تے چنگی گل اے“۔

اب بزرگوسے میں نے درخواست کی کہ مہربانی فرماکر جواب اردومیں دیں کہ پنجابی سمجھ نہیں آتی۔انھیں ناگوارتوگزراکیونکہ وہ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ لسانیت پرست بھی تھے ۔کہنے لگے بیٹا ادھر ہرکوئی اپنی مادری زبان کی ترقی کی بات کرتاہے تو میں بھی اسلیئے ہرکسی کواپنی زبان میں ہی جواب دیتاہوں ۔اس بات پرمیں نے اُن سے پوچھاکہ آپ کے علاقے کے فلاں فلاں سیاسی کوپنجابی تودورکی بات آپ کے ملک کی قومی زبان بھی نہیں آتی توکہنے لگے واہ اوہ سوہنیا!ہم توڈیڑھ صدی سے غلام تھے اورغلام ہی ہیں۔بس فرق یہ ہے کہ رنگ بدلاہے حاکم کا‘باقی اُس کاتمدن وہی ‘زبان وہی‘ثقافت وہی۔ہم پرتووہ بس حکومت کرنے آتے ہیں۔میں نے پھروہی قصہ چھیڑاہیررانجھے والا۔توفرمانے لگے”بیٹایہ بات ہرگزنہیں کہ آج سے بیس تیس برس قبل ہماراحکمران اصول غلط بناگیاتھا۔بلکہ بات یہ ہے کہ اب موجودہ سیاسی اکھاڑے کے پہلوان شاید اٹھارہ کروڑ عوام میں سے کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ حکومت کااہل ہو۔وگرنہ ہمارے ملک میں تودوڈھائی ہزارنہیں پانچ ہزاربھی سچے ‘دیانتدار‘انسانی حقوق کے سچے علمبرداراورانتظامی صلاحیتوں سے مالامال لوگ مل سکتے ہیں مگرمرنایہ ہے کہ ہم عوام پرلے درجے کے بے حس‘اوراہل کوفہ کے پیروکار ہیں۔یہ حکمرانی کارسیاطبقہ سچ ہی تو کہتاہے کہ دفعہ باسٹھ ‘تریسٹھ پرکوئی پورانہیں اُترتا۔اس سے انکی مراد ان کاوہ کنبہ ہے جو انگریزسے لے کرکانگریس‘پھریونینسٹ پارٹی ‘مسلم لیگ‘پھرایوب خان سے لے کرمشرف تک حکومت میں رہاہے۔باقی کے لوگ توانکی نظرمیں صرف شودر ہیں صرف شودر“۔

پھربزرگو سے پوچھاکہ وہ بندہ جوآپ کے ملک میں چوہدری بننے کے خواہشمند حضرات سے اُلٹے سیدھے سوال کرتارہا؟؟اُس کو کیاسزادینی چاہیئے ۔تو بولے بیٹاوہ ایویں بادشاہ بندہ ہے۔بھلاجولوگ اپنے دین کوچیزکہتے ہوں‘جو اپنے مذہب کے قوانین کو قدیم مقدس شہ سمجھ کرمحض کتابوں یاعبادت گاہوں تک محدود کرچکے ہوں ‘جن کے قول وفعل میں کھلاتضادہو؟وہ کیسے اور کیونکردین فطرت کے بارے میں معلومات رکھناباعث فخرسمجھیں گے؟پھرمزید کہنے لگے اوہ جیوندارہویں!انگلستان اور امریکہ کی مثالیں دینے والے یہ عوام کوکیوں نہیں بتاتے کہ وہاں بھی دیانت داراورصادق ہوناشرط ہے تب جاکربندہ ایوان بالاوزیریں یاسینٹ میں جگہ بنانے کا اہل ہوتاہے۔

اگرچہ میراطرزبیان سفرنامہ کے آداب کے مطابق درست نہیں لیکن پھربھی قارئین سے التماس ہے کہ میرے ساتھ ساتھ اُس ملک کے عوام کے لیئے بھی دعاکریں جواب کی بار بھی ڈوبنے کیلئے تیاربیٹھے ہیں۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.