رات ہاسٹل کے روم میں بیٹھ کہ
دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے گزشتہ دنوں بارانی یونیورسٹی میں
ہونے والا Spring festival زیر بحث تھا ۔بات سے با ت نکلتی گئی اور کلچرل
شو تک جا پہنچی ہمارے ایک دوست جو پختون ہیں کہنے لگے ہمارے پختونوں نے
میلا لوٹ لیا انھوں نے نا صرف اپنے روایتی نغمے پر روایتی رقص پیش کیا بلکہ
اپنا روایتی لباس بھی زیب تن کیا ہوا تھا ۔ان کی بات حقیقت بھی تھی ایک
بھائی ہیں سرائیکی کہنے لگے جب بھی سرائیکی بولنے والا ملتا ہے یا سرائیکی
کا کوئی لفظ سماعت سے ٹکراتا ہے تو عجیب سی خوشی ہوتی ہے اور یہی اپنا پن
ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم نا صرف اپنی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس
کے ساتھ ساتھ ہم اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔پنجابی دوست نے اپنی ثقافت کی
خوبیاں بیان کی اور کلچرل شو میں اپنی نمائندگی کا زکر کرنے لگا ۔اس نے کہا
کہ ہم نے یہ سنا ہوا تھا کہ کشمیری توculturally enrich nation ہے مگر ہمیں
اس وقت حیرت ہوئی جب آپ لوگوں نے کشمیری نغمہ لگوایا مگر آپ دو کے علاوہ نہ
تو کسی نے تالیا ں بجائی نہ ہی کوئی سامنے آیا حالانکہ کشمیری طلباء کی ایک
اچھی تعداد یونیورسٹی میں پڑھتی ہے ۔ہم دل ہی دل میں نادم بھی ہوئے مگر ہم
نے آئیں بائیں شائیں کر کے اس بات کا جواب دے بھی دیا ۔ہماری باتیں شاید ان
کے دل پر زیادہ ہی اثر کر گی موضوع بدلہ کشمیر کی آزاد ی زیر بحث آئی پختون
بھائی تھوڑا جذباتی ہو گیا کہنے لگا ہمارے قبائلی پختونوں نے کشمیر کی جنگ
لڑی اگر وہ نا لڑتے تو آج اپ بھی انڈیا کے ساتھ ہوتے ۔موضوع تھا بھی بڑا
نازک اور ہمارا مطالعہ بھی ماشائاللہ ”کافی زیادہ “ہے (کشمیر کے متعلق) ہم
نے ان کے جذبات کو اسقدر ٹھنڈا کر دیا کہ ان کو مجبوراً اٹھ کے جانا پڑا ۔
ان کے جانے کے بعد میں اور میرے رومیٹ جو خوش قسمتی سے کشمیری ہی ہیں
کامران تنویر بھائی کافی دیر ہم ایک دوسرئے کا منہ تکتے رہے سمجھ ہی نہیں
آرہی تھی کہ کہاں سے شروع کریں بات ۔آج کی اس بحث نے ہیں کافی کچھ سوچنے پر
مجبور کر دیا تھا خصوصاً ثقافت اور تاریخ آزادی کشمیر کے حوالے سے ہماری کم
علمی اور ناشناسائی ۔
قصور اس میں کچھ اپنا بھی ہے اور کچھ اس معاشرے کا جس میں ہم رہتے ہیں کہا
جاتا ہے ایک نومولود کی socialisationمیں چار insititutionبہت اہم کردار
ادا کرتے ہیں یا یوں کہیی کے یہ ہی بچے کی socialisationکا کردار ادا کرتے
ہیں تو غلط نا ہو گا ۔پہلا ہے خاندان چند لمحوں کو غور ضرور کرئیے گا کہ ہم
ایک کشمیری ہونے کہ ناطے اپنے بچوں کو کشمیری ثقافت کے بارے میں کتنا بتاتے
ہیں ہم نے اجتک کتنی بار اپنے بچوں کو یہ بتایا ہے کہ کشمیری ثقافت کیا ہے
یا ہم نے کبھی یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر کس طرح آزاد ہوا کس نے آزاد
کروایا کہ ہم بتا بھی کیسے سکتے ہیں ہمیں خود علم ہو گا تو بتائیں گے نا ؟ہم
اپنے بچوں کو یہ ضرور بتاتے ہیں بیٹا ڈاکٹر بننا ،انجینئر بن کہ ہمارہ نام
روشن کرنا ۔شازونادر ایسے لوگ ہیں جو بتاتے بھی ہوں لیکن اکشریت ایسے لوگوں
کی ہے جن کو علم ہی نہیں کہ کشمیر کی ثقافت کیا ہے ۔اہل دانش کہتے ہیں کہ
اگر آپ نے کسی قوم کو ختم کرنا ہے تو اس کی identityختم کرو اور کسی قوم کی
شناخت اس کی ثقافت ہوتی ہے اور کلچر میں میں سب سے اہم مرکب اس علاقے کی اس
قوم کی زبان کو تصور کیا جاتا ہے ہمارہ حال تو یہ ہے نہ ہمیں کشمیری جو
ہماری مادری زبان ہے آتی ہے نہ ہم اردو صیح طرح سے بھول سکتے ہیں اور انگلش
میں تو ہماری ہمیشہ سپلی ہی آتی ہے ۔
بچہ جب بولنے لگتا ہے ہم اسے mama،Papa،Helo،Tata،Bye Bye کرنا سیکھاتے ہیں
اور پھر اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارہ بچہ” انگریزی“ بھول رہا ہے لیکن
اس بات کا علم تب ہوتا ہے جب صاحب موصوف کی میٹرک میں انگلش کی سپلی آئی
ہوتی ہے میرا اس بات سے قطعً اختلاف نہیں ہمیں انگلش نہیں سیکھنی
چائیے،انگلش بھی سیکھائیں مگر ساتھ ساتھ اس کو کشمیری زبان کے چند الفاظ
سیکھائیں تا کہ ہماری زبان جو کہ اہستہ اہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے اس کو
بچایا جا سکے ۔اس کے بعد دوست احباب اور معاشرے کا کردار آتا ہے ۔اخر میں
دوسرا اہم میری نظر میں سکولنگ ہے ۔جو کہ ایک فرد کی شخصیت پر گہرئے نقوش
مرتب کرتا ہے ۔ہمارا سکولنگ کا سسٹم بھی ہماری طر ح ہی نرالا ہے ۔ہمارئے
نصاب ہیں مطالعہ کشمیر شامل ہی نہیں ہے نا تاریخ کشمیر کا کہیں جامع زکر ہے
نا تحریک کشمیر کا۔بس ایک بات رٹائی جاتی ہے” کشمیر کو آزاد کروانے میں
ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی“میرے نذدیک نہ تو کتاب میں صفحات کی کمی
ہوتی ہے نا ہی ہمارے پاس تاریخ دانوں کی کمی ہے ان بزرگوں کا نام بھی لکھ
دیا جائے ان کی سوانح عمری نصاب میں شامل کر دیا جائے تو ہم اس قابل تو ہو
جائیں کہ اگر کوئی ہمیں یہ بولے کہ ہم نے آزاد کروایا ہے کشمیر تو ہم بھی
جواب دے سکیں ۔،ہمارے شاعر ،ہماری نظمیں ہماری کہانیاں ،ہماری مضمون ہمارے
ہیروز انگریز ہوتے ہیں۔آج کا ہمارہ طالب علمWilliam Shakespear ،Ken
Babstock ،،Clark Coolidge،W..W.Worth کے بارے میں ۳ ۳ صفحات کے مضامیں تو
لیکھ کہ دے گا مگر اس کو غنی کاشمریؒ ،کونہ رانی،للہ عارفہ،حبہ خاتون ،ارنی
مال بڈ شاہ سید علی حمدانی ؒ کے بارے میں کوئی بھی علم نہیں ہے ۔وہ آپ کو
پاکستان کا حدود اربعہ سنا دے گا مگر اس کو یہ پتہ نہ ہو گا کہ آزاد کشمیر
کے شمالی اضلاع کون سے ہیں جنوبی اضلاع کون سے ہیں ۔وہ twinkle twinkle
little star بڑی سر اور لے کے ساتھ اپ کو سنائے گا مگر آزاد کشمیر کا قومی
ترانا اس کو نہیں آتا ہو گا ۔پاکستان کے ہر صوبے کی بات کریں تو وہان اپنی
مادری ذبانوں میں کی ترویج میں لئیے ابتدائی کلاسز میں بطور مضمون شامل کیا
گیا ہے مگر ہم اتنے بدقسمت اور بے حس ہیں قوم بن چکے ہیں ہماری زبان بھی ہم
سے چھینی جا چکی ہے ۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ کشمیری ہونے کا راگ الاپتے پھرتے
ہیں مگر ہمیں کشمیری زبان کا الف ب تک ہیں آتی ۔آپ نے ضرور دیکھا ہو گا جب
بھی کوئی دو پختون ملتے ہیں وہ کہیں بھی ہوں وہ بات پشتو میں کریں گے ۔حالنکہ
ان کی بھی ہماری طرح قومی ذبان اردو ہے ۔یار لوگ جب ملتے ہیں تو کوشش ہوتی
ہے منہ کو مروڑ کے اردو بھولیں تا کہ اگلا یہ سمجھے کہ میں لکھنو کا باشندہ
ہوں ۔ ہم میں اور پختونوں میں فرق اتنا سا ہے ان کو خود پر اپنی ثقافت پر
اور اپنی ذبان پر فخر ہے ۔مجھے اور اپ کو نا اپنی زبان کا پتا ہے نا ثقافت
کا نہ ہی تاریخ کا پھر ہمیں مجبوراً دوسرے کی حاں میں حاں ملانی پڑتی ہے
وقت ٓنے پر ہم یا تو چپ کر جاتے ہیں یا چھپ جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ میرے اور
اپ کے سامنے ہے 65سال ہو گے ہیں- |