تعلیم کسی بھی قوم کا سرمایہ
افتخار ہوتی ہے ، بامقصد تعلیم نوجوانوں کے لئے روزگار کے دروازے تو کھولتی
ہی ہے ساتھ ہی ملک کو بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رکھتی ہے ، مگر ہمارے
چند ارباب اختیار خود نہ صرف تعلیم بلکہ تعلیم کے انتظامی دفاتر کو ہی
کمائی کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ ریجنل ڈائریکٹوریٹ آف کالجز کراچی ، جہاں
کراچی کے 132 سرکاری کالجز کے انتظامی معاملات کی نگرانی کے لئے تاحال کوئی
مستقل ریجنل ڈائریکٹر تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ریجنل
ڈائریکٹر کالجز کراچی کی اسامی تنازعات ، بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں میں
گھری ہوئی نظر آتی ہے۔ سابق ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی پروفیسر دیدار
مرتضیٰ بھٹو اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے کہ سینئر صوبائی وزیر
تعلیم سندھ کی زاتی چپقلش پر انکا تبادلہ اندرون سندھ کردیا گیا، اس کے بعد
سے اس اسامی پر مستقل بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں نے اپنے پنجے گاڑ دیئے۔
ایک اور سابق ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی اسٹنٹ پروفیسر نجمہ نیاز ہفتہ
کھیل کا چکر چلا کر کراچی کے تمام سرکاری کالجز سے کھیلوں کی سرگرمیوں کی
مد میںزبردستی فی کالج دو ہزار روپے وصول کرچکی ہیں جس کے انکشاف کے بعد
سابق سیکریٹری تعلیم سندھ ناہید شاہ درانی نے، نہ صرف یہ کہ اس ہفتہ کھیل
کا انعقاد رکوادیا بلکہ موصوفہ سے وضاحت بھی طلب کرلی کہ کن قواعد و قوانین
کے تحت وہ یہ رقم کالجز سے وصول کررہی تھیں۔ اسٹنٹ پروفیسر نجمہ نیاز جنہیں
مخصوص اہداف حاصل کرنے کے لئے ریجنل ڈائریکٹر کالجز جیسے اہم اور کلیدی
عہدے پر نوازا گیا تھا ، گریڈ 1 سے 4 تک کی غیر تدریسی اسامیوں پرسفارشی
بھرتیاں کرکے اپنا کردار بخوبی نبھاگئیں ۔ مزید ستم ظریفی کی مثال قائم
کرتے ہوئے انہوں نے گریڈ 5 سے 14 تک بھرتیوں کےلئے ازسرنو اپنے من پسند اور
سفارشی امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کرلیںتھیںحالانکہ اس حوالے سے ایک
اور سابق ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی پروفیسر مسز منور شفیق خان کی جانب سے
میرٹ پر بذریعہ انٹرویو اور ٹیسٹ ، امید واروں کے ناموں کا حتمی انتخاب کیا
جاچکاتھا ، تاہم اسے یکسر مسترد کردیا گیا تاکہ یہاں بھی سفارشی بنیادوں پر
بھرتیاں کی جاسکیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ، جب ان بھرتیوں کی بازگشت
دیگر ایوانوں تک پہنچی تو ان سفارشی بھرتیوں کے ریکارڈ غائب کرانے کے
منصوبے پر کام شروع ہوا اور اچانک ایک روز ریجنل ڈائریکٹوریٹ کالجز کراچی
کے دفتر میں چوری ہوگئی جسکا مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ یہ واردات عادی
چوروں کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ عادی چور
دفتر کے پنکھے ، قیمتی لائیٹیں اور مہنگی اشیاءلے جانے کے بجائے ، موصوفہ
کے ہاتھوں بھرتی کئے گئے سینکڑوں افراد کا دفتری ریکارڈ اور کمپیوٹر ہارڈ
ڈسکس ہمراہ لے گئے تاکہ نہ رہے گا بانس ، نہ بجے گی بانسری۔ اب کچھ زکر ان
سفارشی بھرتیوں کے طریقہ ءکار کا بھی ہوجائے تو قارئین کو ماضی کی طرح اب
بھی یہ جان کر بلکل حیرانگی نہیں ہوگی کہ یہ ساری بھرتیاں بغیر کسی ٹیسٹ
اور انٹرویو کے کی گئی تھیں جس کے لئے محکمے کے ہی اعلیٰ حکام کا دباﺅ
نمایاں تھا جبکہ من پسند افراد کی فہرستیں تک راتوں رات تیار کرکے دی گئی
تھیں جو محنت مزدوری کی کمائی سے تعلیم حاصل کرکے بھرتیوں کے لئے در در کی
ٹھوکریں کھانے والے قوم کے نوجوانوں کو مزید مایوسیوں کے سپرد کرنے کے
مترادف تھا۔ سفارشی اور قواعد و ضوابط نظرانداز کرکے کی جانے والی بھرتیوں
کا ریکارڈ چوری ہوا تو محکمہ جاتی کارروائی کی رسم ادا کرتے ہوئے دفتر کے
دو چوکیداروں کو معطل کردیا گیا اورخاتون پاکستان گورنمنٹ ڈگری کالج کی
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر تنویر انجم کو انکوائری افسرمقرر کرتے ہوئے ایک
تحقیقاتی کمیٹی ،تین روز میں واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کے ساتھ
تشکیل دےدی گئی لیکن ریکارڈ چوری کے اس طے شدہ ڈرامے کے اصل کرداروں کے
متعلق راز سے تاحال پردہ اٹھنا باقی ہے۔ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر بعد ازاں
پروفیسر رانی غنی کی تقرری کی گئی جنھوں نے غیر قانونی بھرتیوں کی نئی
تاریخ رقم کی اور بعد ازاں محکمے کے اعلیٰ حکام سے رنجش ہوجانے کے باعث
انھیں بھی بالآخر اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔ کسی بھی ملک و قوم کی
خوشحالی اور ترقی کی بنیاد اچھی تعلیم ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے نام نہاد
تعلیم یافتہ تعلیمی افسر شاہی کی باکمال کرپشن نے ملکی ترقی کی اس بنیاد کو
کھوکھلا کرکے رکھدیا ہے۔ جن اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں طلبہ کی علمی پیاس
بجھانا تھی وہ تدریس چھوڑ چھاڑ کے دفتری امور پر مامور، انتظامی عہدوں پر
قابض دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیںاور باقی رہ جانے والوں میں سے بعض ،
ذاتی کوچنگ سینٹرز کے جال پھیلارہے ہیں۔ حکومت اساتذہ کی کمی کا رونا رو کر
کتنے ہی تعلیمی اداروں کو دیگر تعلیمی اداروں میں ضم کرتی چلی جارہی ہے۔
دفتری امور کے لئے بھرتی کئے گئے ، برسوں سے سنیارٹی کے نام پر دھکم پیل کا
شکار غیر تدریسی ملازمین کو جگہ جگہ سرپلس پول میں بھیجاجارہا ہے مگر دفتری
امور اور انتظامی عہدوں پر قابض اساتذہ کی بڑی تعداد کو واپس تعلیمی اداروں
میں نہیں بھیجا جارہا اور نہ یہ معمہ حل کیا جارہا ہے کہ اساتذہ طلبہ کو
تعلیم دینے کے بجائے دفتری امور سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں
غیر تدریسی عملے کے نام پر بھرتی کئے گئے ملازمین اس نام نہادتعلیمی افسر
شاہی کی رعایا تصور کئے جاتے ہیں جنھیں موقع بہ موقع قاعدے قوانین یعنی
رولز ریگولیشنز کے لیکچر دیتی یہ تعلیمی افسر شاہی اپنے کالے کرتوتوں کو
یکسر فراموش کئے بیٹھی ہے۔ مالی و انتظامی کرپشن کا وہ حال ہے کہ الاماں
االحفیظ، بغیر ٹیسٹ و انٹرویو غیرقانونی بھرتیاں کی جارہی ہیں، لاکھوں کے
فنڈز باپ دادا کا مال سمجھ کر جیبوں میں بھرا جارہاہے ، غیر قانونی تقرریاں
و تعیناتیاں کی جارہی ہیں ، طلبہ میں تقسیم کی جانے والی کروڑوں روپے کی
کتب ردی میں ڈال دی گئی ہیں تاکہ بعد ازاں اپنے ذاتی کوچنگ سینٹرز میں آنے
والے طلبہ کو فروخت کی جاسکیں، من پسند طلبہ کو علحٰیدہ کمروں میں بٹھا کر
امتحانی پرچے دلوائے جارہے ہیں، پریکٹیکل امتحانات میں تو 100 فیصد
نمبردلانے کے دعوے و وعدے شہر کی دیواروں، پوسٹروں، بینروں، پبلک ٹرانسپورٹ
حتٰی کہ جگہ جگہ درسگاہوں کے اندر اور باہر داخلی راستوں پر دیکھے جاسکتے
ہیں۔ترقیاں پسند نا پسند کے معیار پر بانٹی جارہی ہیں ، الیکشن کمیشن کی
جانب سے نئی سرکاری نوکریوں پر پابندی عائد کئے جانے کے باوجود پرانی
تاریخوں میں بھاری نذرانوں کے عوض نوکریوں کے آفر لیٹر دھڑا دھڑ جاری کئے
جارہے ہیں، پرائمری و جونیئر اسکول ٹیچرز کی نوکریاں فروخت کی جارہی ہیںجن
کو تقرری بھی نہیں دی جارہی ہیں ، بیروزگار اپنی زمینیں اور زیورات فروخت
کرکے نوکریوں کے آفر لیٹر حاصل کر رہے ہیں جبکہ انکی تقرریاں ایسے اسکولوں
میں کی جا رہی ہیں جہاں اسامیاں ہی خالی نہیں ہیں ، افسران نے حکومتی
اراکین سے سازباز کے ذریعے سندھی، عربک اور ڈرائنگ ٹیچرز کی اسامیاں فروخت
کرکے کروڑوں کا بزنس کرلیا ہے، جعلی ڈومیسائل اور ڈگریاں تک بنا کر دی
جارہی ہیں، تعلیمی درسگاہوں کو شادی بیاہ کے پروگرام کے لئے مستعار دیا
جارہا ہے، درسگاہیں اوطاقیں اور مویشیوں کے باڑوں میں تبدیل کردی گئی ہیں،
پورے صوبے میں 99 درسگاہیںمفلوج و بند پڑی ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ
ساز کرے کے مصداق تعلیمی افسر شاہی کی اس کھلم کھلاکرپشن اور غنڈہ گردی کے
باوجود معطل کئے جاتے ہیں بےچارے نچلے گریڈ کے ملازمین ۔ زمین پر خدا بنی
یہ تعلیمی ا فسر شاہی کبھی ان ملازمین کی تنخواہیں رکوادیتی ہے تو کبھی
انکی ترقیاں۔ کبھی اس لئے ، کہ ڈیوٹی پر دیر سے آئے ، تو کبھی اس لئے کہ
صاحب کو سلام نہیں کیا۔ کیا مذاق بنا رکھا ہے جناب اس قوم کے ساتھ ، اس
تعلیمی افسر شاہی سے کوئی پوچھنے والا نہیں ، کوئی بازپرس کرنے والا نہیں،
قوم کو مفلوج کرنے کے لئے تعلیم کو تجارت بنا دیا گیا ہے۔ افسر شاہی اپنے
بچوں کو بڑے نام والے نجی اسکولوں یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے
بھیج کر نہایت بے فکری سے ملکی تعلیمی کرپشن کے اس سمندر میں غوطے لگانے
نکل کھڑی ہوتی ہے جس کا تاحد نگاہ کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔تعلیم کے شعبے
میں روز بروز سنگین ہوتی ہوئی صورتحال وسائل کی کمی سے نہیں ، حکمرانوں کی
طبقاتی ذہنیت سے جڑی ہوئی ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ کرپٹ تعلیمی افسرشاہی کو
لگام دے کر تعلیم پر خاص توجہ دی جائے ورنہ آنے والا وقت کڑا ہوگا۔ |