یہ ایک چھوٹا سا تاریک کمرا ہے
جہاں پر ٹیبل کی ایک جانب 4کرسیوں پر 4خواتین اور ایک طرف ایک کرسی پر ایک
نوجوان کاپی قلم ہاتھ میں لیا بیٹھا ہے، نوجوان کا مقصد ان چار خواتین کی
کہانیوں کو نوٹ کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا کہانیاں سنانے کا سلسلہ شروع
ہوتا ہے -
پہلی خاتون: میرا بیٹا کہتا تھا ماں میں پِنڈ سے دوسرے شہر جاﺅں گا وہاں
حجام کی دکان کھولونگا کچھ پیسے جمع کر کے تجھ تک پہنچوادونگا تو اس سے
چھوٹی کا دہیج جمع کرکے اس کی شادی کردینا ،لیکن میں نے کہا نہیں پہلے تو
شادی کرلے، تو وہ کہتا ارے میری بھولی ماں میرا کیا ہے میں تو لڑکا ہوں
میرا مسئلہ نہیں ،تو پہلے چھوٹی کی شادی کر الے اس نے جیسا کہا ویسے ہی ہوا
پیسے بجھوا کے چھوٹی کی شادی کروالی اور پھر کچھ عرصہ بعد خود بھی سج دھج
کے آگیا ،اب کوئی بتائے کفن میں سجے دلھے سے کون شادی کریگا اس کے دوست
بتاتے ہیں کہ اسے یہ کہہ کے مارا گیا تو کہیں اور کا ہے ،خاتون نے ایک گہر
ی سانس لی اور آنکھوں سے بارش ہونے لگی۔
دوسری خاتون۔ میرے دو ہی بیٹے تھے بڑا بیٹا کچھ عرصہ قبل ایک بم دھماکے میں
اپنی ایک ٹانگ اور بازو کھو چکاہے اور گھر پر میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے
کے سوا کسی کا م کا نہیں اس دھماکے کے بعد نہ تو وہ بولتا ہے نہ ہی کچھ سن
سکتا ہے، یہ بھی بہت کرم ہے مولا کہ وہ سانس لیتا ہے اس سے چھوٹا بیٹا جو
23سال کا تھا اس کی آنکھیں قدرتی طور ہماری نسل کے در کے دوسرے لوگوں سے
کچھ ہٹ کر تھیں جو اس کے لئے ایک طرح کا تحفظ تھا، لیکن اس کو کیا پتا تھا
کہ وہ اس کا شناختی کارڈ دیکھ کر ماریں گے ،خاتوں نے ایک خطرناک چیخ ماری
اور آنسوں کا سیلاب شروع ہوگیا۔
تیسری خاتون۔میر ا بیٹا بچپن سے ہی کہتا تھا کہ میں فوجی بنوں گا میں اس کو
سمجھاتی تھی کہ میر ا بچہ فوجی تو سرحد پر ہوتا ہے اور میں تجھے اپنے آپ سے
اتنا دور نہیں چھوڑ سکتی بس پھر کیا ہوا کہ میر ی دعا قبول ہوئی وہ فوجی تو
نہ بنا البتہ پولیس میں اسکو نوکری مل گئی وہ اپنے چھوٹے بھائی سے کہتا تھا
کہ میں تو پولیس میں ہی لگ گیا لیکن تم پڑھنا اور بڑا افسر بننا ،اس کی
شادی کی تاریخ بھی تہہ کر دی تھی، اسنے میٹھی عید سے 4دن پہلے اپنی دلہن کے
لئے نئے کپڑے بجھوائے اور مجھے پیغام دلوایاکہ یہ اپنی بہو کو عید کا تحفہ
دینا میں عید کی رات آﺅنگا ، عید کی رات بھی آئی مگر وہ نہ آیا بلکہ اسکی
لاش آئی اس کے ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ ڈیوٹی سے چھٹی کر کے جارہا تھا کہ 2
موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کردی اور وہ اپنے 2 ساتھیوں سمیت موقع پر ہی
شہید ہوگیا،اس کی دلہن نے ان کپڑو ں کو یہ کہہ کے آگ لگا دی کہ اب کیاسجنا
اب کیا سنورنا؟، میں روتی اسی لیئے نہیں کہ میرا بیٹا شہید ہوا ہے اور شہید
مرتے نہیں۔
چوتھی خاتون۔اپنے سامنے بیٹھے اس نوجوان کو بڑی حسر ت سے دیکھا ،تھوڑا سا
مسکرائی اور پھر اچانک رونے لگی ،نوجواں نے کہا خاتون آپ اپنی کہانی سنائیں
تو وہ خاموش ہوگئی ،نوجوان نے بار بار یہ ہی سوال دوہرایا لیکن کوئی جواب
نہ ملا تو نوجوان حیرت میں چلاگیا پھر نوجوان کو کہیں سے آواز آئی''ابے
غائب لوگوں کی کیسی کہانیاں؟''
ان چار کہانیوں سے ملتی جلتی کہانیاں یقینا آپ کو اپنے آس پاس میں بھی ملتی
ہونگی، دنیا کے ہر تشدہ زدہ یا انتہاپسندی سے متاثر معاشرے میں جو سب سے
زیادہ متاثر کن طبقا ہوتا ہے وہ بچے اور خواتین ہوتے ہیں اور یہ ہی حال
ہمارے معاشرے کا بھی ہے جہاں تمام ماﺅں کے دل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ |