صحافی اور اس کی بے وقعت زندگی

یکہ توت واقعے میں شہید ہونیوالے صحافی طارق اسلم سے چار سال قبل راقم کا تعارف اس وقت ہوا جب طارق اسلم نے خیبر یونین آف جرنلسٹس کی ممبر شپ کیلئے اپلائی کیا تھا اس وقت مرحوم کسی ادارے سے وابستہ تھے راقم کو اس بارے میں پتہ نہیں تھا لیکن نئے ممبرشپ پر راقم نے اعتراض کیا تھا جس پر جنرل باڈی اجلاس کے بعد خیبر یونین آف جرنلسٹس کی اس وقت کی انتظامیہ نے بھی اسے ممبرشپ کینسل کروادی جس کا پتہ اطلاع چلنے پر مرحوم طارق نے پریس کلب پشاور میں راقم سے ملاقات کی اور شکوہ کیا کہ آپ نے مجھ پر اعتراض کیا تھا جس کی وجہ سے میری ممبرشپ نہیں ہوئی راقم نے اس سے معذرت کی اور کہا کہ خاص طور پر اس کا نام نہیں لیا تھا تاہم نئے ممبرشپ پر اعتراض کیا تھا جس کی زد میں وہ بھی آیا اس لئے اگر وہ اس سے متاثر ہوا ہے تو اس پر معذرت خواہ ہوں یہ مرحوم کیساتھ راقم کی پہلی ملاقات تھی- بھاری بھر کم شخصیت کے مالک طارق اسلم خاموش طبعیت کے مالک تھے چند مخصوص دوستوں کیساتھ بہت کلوز تھے ورنہ دوسری صورت میں ریزرو رہتے تھے پشاور پریس کلب اور ان کے دفتر میں کئی مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی اسی طرح مختلف کوریج کے دوران چلتے چلتے رابطے ہوئے تاہم کبھی بھی اپنا دکھ کسی کو نہ بتانے والے صحافی دوست نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ راقم کی وجہ سے اس کی ممبرشپ ابتداء میں ختم ہوگئی تھی اور مرحوم اچھے طریقے سے ملتا تھا - گذشتہ رات گھر بیٹھے اطلاع ملی کہ وہ صحافی دوست خودکش بم دھماکے کا نشانہ بنا ہے اور سولہ دیگر افراد کیساتھ وہ بھی شہداء کی فہرست میں اپنا نام شامل کرگیا-

ان کی شہادت کے بعد جب ان کے شہادت کے حوالے سے نگران وزیر اطلاعات سے بات ہوئی تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ " ہم صحافیوں کی خدمات کو سراہتے ہیں" سات لفظوں میں انہوں نے سب کچھ ختم کردیا جس کے بعد مقامی اخبار سے وابستہ صحافی کی شہادت کے بعد مختلف سوشل سائٹس پر ان کے بارے میں سٹوریاں چلنی شروع ہوگئیں کہ مرحوم کو تنخواہ نہیں مل رہی تھیں اور بچوں کی سکول کی فیسیں ادا نہ کرنے کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا تھا - شہادت کے روز اس نے کئی دوستوں سے قرض پیسوں کیلئے رابطے کئے لیکن کسی نے انہیں مثبت جواب نہیں دیا اس طرح کی سٹوریاں انٹرنیٹ پر آن لائن ہونے کے بعد ہمارے بہت سارے صحافیوں نے اپنے کمنٹس دینے شروع کردئیے کہ یہ زیادتی ہے اور اس طرح نہیں کرنا چاہئیے یہ سلسلہ خودکش حملے کے دوسرے روز شروع ہوا اور پتہ نہیں کب تک جاری رہیگا جس میں ملک بھر سے ہمارے صحافی دوست اور عام لوگ بھی مذمتی بیان جاری کرکے " کار خیر" میں حصہ ڈال کر اپنا نام درج کرنے کی کوشش کرینگے-کرائے کے مکان میں رہائش پذیر صحافی خودکش حملے میں شہید ہوگیا اور اب ہم سب لوگوں کی دکانداری شروع ہوگئی مقامی این جی او سے لیکر بین الاقوامی این جی او تک سب مذمتی بیان دو دن تک جاری کرینگے اور پھر اللہ اللہ خیر صلا کوئی پوچھ گچھ نہیں معذرت کیساتھ ہم صحافی بھی بڑے کمینی چیز ہیں اپنوں کی موت پر بھی دکانداری کرتے ہیںاپنے مرنے والے ساتھیوں کی جنازوں میں جا نہیں سکتے کیونکہ خبریں اہم ہوتی ہیں اپنے مریں تو مرتے رہیں مرنے کے بعد اب دو یا تین دن بعد بند کمروں میں اجلاس ہونگے جس کے پریس ریلیز اخبارات میں شائع ہونگی جس میں متعلقہ واقعے کی مذمتی بیانات شائع ہونگے یا پھر اگر بہت زیادہ ہوا تو چار دیواری کے اندر تصاویر نکالنے کیلئے احتجاجی مظاہرے والی پوز بنائیں گے جس میں ریاست کے خود ساختہ چوتھے ستون کی شان میں قصیدے پڑھے جائینگے اور آزادی اظہار کے نعرے لگیں گے اور پھر سب کچھ "اللہ حوالے" -

کیا وجہ ہے کہ دنیا جہاں کا غم اپنے اوپر لادنے والے اور دنیا بھر کو دکھانے والے صحافی اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے اپنی آواز کہیں تک نہیں پہنچا سکتے اس کی بڑی وجہ بھی ہم لوگوں میں چھپے کچھ آستین کے وہ سانپ ہیں جو نام تو صحافیوں کا لیتے ہیں اور ان کے نام پر آنیوالے بہت ساری مراعات تربیت دورے حکومتی فنڈز لے لیتے ہیں اور بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے ہیں لیکن جب ان کے اپنے ساتھیوں پر اس طرح کے حالات آتے ہیں تو پھر انہیں اکیلا چھوڑا جاتا ہے کہ اگربدحالی کا شکار اپنے کسی ساتھی کے حق میں آواز نکالی یا بات کی تو پھر"ان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں یا پھر انہیں ملنے والا ماہانہ بھتہ" متاثر ہوتا ہے اس لئے کون اپنے ماہانہ بھتے/ بوتل /مراعات/ سے ہاتھ دھونا پسند کرتا ہے -کوئی دس سال قبل پشاور کے ٹٹ پونجئیے صحافیوں کیلئے سرکار نے ریگی میں میڈیا کالونی کا اعلان کیا تھا اس اعلان پر عملدرآمد بھی سست روی کا شکار ہے جس میں زیادہ تر ہاتھ ہمارااپنوں ہی کا ہے اس باعث اب یہ حال ہوگیا ہے کہ ہماری طرح کے صحافیوں نے وہ زمینیں بیچنی شروع کردی کہ اور بھی غم ہے زمانے میں کیونکہ صحافی اگر سر چھپاتے ہیں تو پائوں نظر آتا ہے اور پائوں چھپانے کی کوشش میں سر نظر آتا ہے اسی باعث سفید پوشی کا شکار زیادہ تر صحافی اس چکر میں ہیں کہ میڈیا کالونی میں پلاٹ تو پتہ نہیں کب ملیں گے اس لئے جو سامنے کے مسائل ہیں ان کے حل کیلئے پلاٹ ہی فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ کے بہت سارے ٹٹ پونجئے صحافیوں سے مخصوص صحافیوں نے پلاٹس لے لئے کہ انکی یہ سرمایہ کاری مستقبل میں انہیں بہت فائدہ دے سکتی ہیں-

بات یکہ توت واقعے میں شہید ہونیوالے صحافی طارق اسلم کی ہورہی تھی ان کے خاندان اور بچوں سمیت اس طرح کے دیگر صحافیوں کے بارے میں اگروہ بین الاقوامی اور قومی این جی اوزجو ان صحافیوں کے نام پر کروڑوں روپے لے رہی ہیں تو اس سے بہت سارے صحافی گھرانوں کے گھروں کا چولہا بھی جلتا رہے گاور ان کے بچے بھی تعلیم جیسی بنیادی حق سے بھی محروم نہیں رہینگے -لیکن ان میں یہ سوچ ہی نہیں اور اگر کبھی کسی نے سوچنے کی کوشش کی تو ان کا راستہ روکا گیا ایسے میں آزاد صحافت اظہار آزادی کی رائے عوام کو صحیح معلومات کی فراہمی جیسے نعرے تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ گھسے پھٹے جملے سن سن کر بھی دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے حکمرانوں کو صرف اپنے جیسے لی ڈر ہی نظر آتے ہیں اور ٹٹ پونجئیے صحافی بھی اس ملک کے فیدو گامے کی طرح ہیں جن سے کام تو بہت لیا جاتا ہے لیکن ان کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا-ہاں ٹیکس ادا کرنے والے غریب شہریوں کے خون پسینے کی کمائی " خفیہ فنڈز" کے نام پر مخصوص لوگوں کو دینے میں انہیں کوئی شرم نہیں جیسے یہ ان کے آبائو اجداد کا مال ہو-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499389 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More