کسی قوم کی بے وقعتی کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس میں کتنی غیرت و حمیت ہے ۔ وہ اپنی خواتین
کی عزت و آبرو کی حفاظت کس حدتک کرتے ہیں۔ دنیا میں خواتین کی عزت و آبرو
کے لئے تلواریں میان سے نکلتی رہی ہیں۔ غیرت و حمیت کے نام پر انہیں قتل
بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اسلام میں عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک اور پروقار زندگی
دینے کے ساتھ تمام حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ موجودہ دور کے مسلمانوں نے
اسلام اور مسلمان کے درمیان زبردست خلیج پیدا کردی ہے۔ اپنے اعمال و افعال
سے دنیا کی بدترین قوموں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔ اس کی شناخت ایک دہشت
کے طور کی جانے لگی ہے۔ جن چیزوں کوبتانے اور ان پر عمل کرانے کی ذمہ داری
ہمیں سونپی گئی تھی وہ دوسری قوم ہمیں اس کا درس دے رہی ہے کیوں کہ ہم نے
ان اچھائیوں کو ترک کرکے ان کی برائیوں کو اپنا لیا اور انہوں نے ہماری
خوبی اپنالی۔ جس کی وجہ سے نہ ہم محفوظ ہیں اور نہ ہی ہماری خواتین نہ اور
ان کی عزت و آبرو۔ دنیامیں آج ہم مظلومیت کی محض علامت بن کر رہ گئے ہیں۔
ہر قوم ہمیں بے کس، لاچار اورقابل رحم نظروں سے دیکھتی ہیں۔ تصور کیجئے جس
قوم کے ذمے انصاف کا قیام تھا وہ دربدر انصاف کے لئے بھٹک رہی ہے۔ ایک
ہونکار پر کئی قاتلوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن اپنی ایک بیٹی کو اس کے
چنگل سے نہیں چھڑاسکتے۔ یہ کسی غیرت مند قوم کا شعار ہرگز نہیں ہوسکتا۔
مسلمانوں کا پہلے دوسری قوموں کے اندر رعب تھا دبدبہ تھا لیکن مسلمان اپنی
بدعملی اور بداخلاقی کی وجہ سے اسے کھو بیٹھے۔ معاشرے میں وقار ، رعب اور
دبدبہ اپنے بلند اخلاق سے قائم کیا جاتا ہے ۔ ظلم و زیادتی سے صرف خوف پیدا
کیا جاسکتا ہے جس کا شکار پوری دنیا میں مسلمان ہیں۔ مسلمانوں میں خوف و
دہشت اس قدر گھر کرگئی ہے کہ وہ دوسروں کے انصاف کے لئے لڑنا تو دور کی بات
اپنے لئے بھی دوسروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کا حال تو
اس معاملے میں سب سے زیادہ خراب ہے۔ وہ اس حالت میں بھی نہیں ہیں کہ وہ
اپنی لڑائی لڑسکیں۔ ان کی پوری لڑائی دوسری قومیں کی اردگرد گھومتی ہے۔
یہاں اگر کسی مسلم لڑکے نے پیار و محبت کی شادی کسی غیر مسلم لڑکی سے کرلی
تو اس کی پاداش میں پوری مسلم بستی کو آگ کے حوالے کردیاجاتا ہے لیکن اگر
یہی کام کوئی غیر مسلم لڑکا جبراً کرتا ہے تو مسلمان اس کا بال باکا بھی
نہیں کرپاتے۔ مسلم لیڈر شپ سے اس معاملے میں کوئی قدم اٹھانے کی توقع ہی
نہیں کی جاسکتی کیوں کہ ہندوستان میں مسلم لیڈر کو سیکولر ہونے کے لئے
ضروری ہے کہ یا تو وہ اپنی بیٹیاں غیر مسلموں کو دیں یا اپنے گھر میں غیر
مسلم لڑکیاں لائیں۔ مثال کی کوئی کمی نہیں ہے جدھر نظر دوڑائیں آپ کو نظر
آجائے گی۔ہندوستان کے بڑے شہروں دہلی، ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، بھوپال،
لکھنو اور دیگر شہروں میں مسلم لڑکیاں ہندؤں سے بیاہی جارہی ہیں کچھ مجبوری
میں تو کچھ شوق سے تو کچھ جبراًلیکن یہ سلسلہ بڑے پیمانے چل پڑا ہا ہے۔ یہ
آر ایس ایس کے منصوبے کا ایک حصہ ہے کہ مسلم خواتین سے ہندو نسل تیار کی
جائے۔ کسی قوم کی غیرت و حمیت کا اٹھ جانا محض ایک واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس
کا اثر آنے والی کئی نسلوں پر پڑتا ہے اور وہ قوم ذہنی غلامی ، خوف و دہشت
کے سائے میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے اور جو قوم اس طرح کے
حالات سے دوچار ہو اس قوم سے کسی بہتری یا انقلاب کی کیسے توقع کی جاسکتی
ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں خواتین کی آبروریزی کو
ایک ہتھیار کی شکل میں اختیار کیا گیا۔بوسینا، عراق، شام،
میانمار،افغانستان اور کشمیر سمیت ہندوستان میں مسلم خواتین کی آبروریزی کو
ایک اسلحہ کے طور اپنایا گیا ہے جس پر اختتام پذیر جی 8 کے وزرائے خارجہ کے
اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
160لندن میں ختم ہونے والے جی ۔8 ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جنگ
کے دوران آبروریزی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر تشویش ظاہر کی گئی
ہے۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ کے مطابق جنگ اور شورش والے خطوں میں جنسی
تشدد کو ختم کرنے کے لئے قدم اٹھائے جائیں گے۔برطانیہ کے وزیر خارجہ کے
مطابق ان علاقوں میں جنسی تشدد بہت بڑا ظلم ہے جو ناقابل تصور تکلیف لے کر
آتا ہے اوراس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جی ۔8 ممالک تین کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی
رقم دیں گے۔شورش زدہ علاقے میں جنسی تشدد کو جینیوا کنونشن کے خلاف تصور
کیا جائے گی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی۔ جنسی تشدد
سے متعلق معاملات میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی زینب بنگورا کے مطابق جو
لوگ ایسے جرم کرتے ہیں ان کو سزا ہونی چاہئے ۔ تشدد زدہ علاقوں میں جنسی
تشدد کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔ ایسے مجرموں کے لئے نہ معافی نہ چھپنے
قابل کوئی جگہ ہونی چاہیے۔
برما میں گزشتہ ایک سال سے مسلمانوں پر قیامت صغری ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہزاروں کی
تعدادمیں انہیں وحشیانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ ہزاروں مسلم خواتین کو
بڈھسٹ بھکشوؤں نے آبرویزی کا نشانہ بنایا۔ یہ عمل جاری ہے۔ ایمنسٹی
انٹرنیشنل نے بھی اس طرح کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
ایمرجینسی کے نفاذ کے بعد بھی تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس وقت برما
اور شام میں خوف و دہشت قائم کرنے کے لئے مسلم خواتین کی آبروریزی کو بطور
ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی
کا شکار بننے والی ایک برمی مسلم خاتون نے بتایاکہ زیادہ تر روہنگی عورتوں
کے ساتھ برمی فوجی اہلکاروں، برمی باشندوں اور ناتالا (برما کے نئے
باشندے)نے آبروریزی کی۔ اس وقت جب تمام روہنگی مردوں کو فوجی اہلکاروں نے
ایک جگہ جمع کر رکھا تھا اس دوران ایک دستے نے گاؤں میں داخل ہوکر گھروں پر
دھاوا بولا ، عام گھریلو اشیاء تباہ کردیا، تمام قیمتی چیزں لوٹ لیں اور
خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا۔پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق میانمار
کی سکیورٹی فورسز مسلمان خواتین کو ایذائیں پہنچاتی ہیں اور انہیں جنسی
تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بہت سی مسلمان خواتین کو
زور زبردستی اٹھا لیا جاتا ہے اور جنسی زیادتی کے بعد انہیں واپس گھر بھیج
دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بے کس خواتین ساری عمر حقارت آمیز زندگی
بسر کرتی ہیں۔ شادی شدہ عورتوں کی صورتحال مزید بدتر ہے انہیں نامعلوم
مقامات پر لے جاکر ان سے بیگار لیا جاتا ہے اور کسی قسم کی مزدوری نہیں دی
جاتی، بعض اوقات تو بہت سی خواتین کبھی بھی گھر لوٹ کر نہیں آتیں۔
شام سے ایسی رپورٹیں مسلسل موصول ہو رہی ہیں کہ وہاں جیل میں بند قیدیوں کے
ساتھ جنسی تشدد روا رکھا جارہا ہے۔بی بی سی کے فرگل کین کی ایک رپورٹ کے
مطابق ایک شخص نے خاتون کو تہہ خانہ کے کنارے پر دیکھا،'' وہ لوگ اس خاتون
کی عصمت دری کر رہے تھے۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ عینی شاہدایک
انسانی حقوق گروپ میں کام کرتا تھا اور اسے گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں
گرفتار کیا گیا تھا۔دوسری کہانی ایک اور عینی شاہدکی تھی جب پکڑنے والے
لوگوں نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور غیر ملکی
میڈیا کو مظاہروں کی فوٹیج دینے کی بات قبول کرلے۔ انہوں نے اپنے تجربات
بیان کرتے ہوئے کہا،'' وہ مجھے پیٹتے تھے، تھپڑ مارتے تھے اور کئی طرح کے
توہین آمیز سلوک میرے ساتھ کرتے تھے۔ مجھے پتہ ہے جب کسی کو گرفتار کیا
جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ جو افسر
آبروریزی کرتے تھے، وہ جانوروں کی طرح سلوک کرتے تھے۔ایک خاتون نے مجھے
بتایا کہ '' پہلے مجھے ایک سیکورٹی افسر نے غلط منشا سے چھونے کی کوشش کی۔
یہ ساری سرگرمی دوسرا افسر دیکھ رہا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ اس کے بعد مجھ
پر تین اہلکاروں نے حملہ کر دیا اور تینوں جانوروں کی طرح برتاؤ کر رہے تھے،
میں نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن میں ان کے سامنے چھوٹا پڑ گیا۔ جب
انہوں نے میری آبروریزی کی تو میں نے کہا کہ براہ مہربانی مجھے چھوڑ دو،
میرے ساتھ ایسا مت کرو۔'' جب ان کی عصمت دری ہو رہی تھی تو ان کی نقل کرتے
ہوئے کچھ حملہ آور کہہ رہے تھے کہ، تم چاہتے ہو اسد عہدے سے ہٹ جائیں ؟ تم
یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم بشارالاسدکو پسند نہیں کرتے ہو‘‘۔جیل میں ہی ایک کم
سن لڑکے کو بھی لایا گیا۔ اس کے ساتھ بھی بدفعلی کی گئی۔ اس کے ساتھ جنسی
استحصال ہوتا رہتا تھا اور یہ لڑکا اپنی ماں کو یاد کرتا رہتا تھا۔ان جیلوں
یا اذیت خانے سے جو لوگ زندہ نکل کر آ پائے ہیں ان کا کہنا ہے کہ شام میں
یہ ایک ایسی جگہیں ہیں جہاں آپ کی آواز کوئی نہیں سنتا اور کوئی آپ سے ملنے
نہیں آتا ۔ ایک اور خاتون نے بتایا کہ انہیں دو ماہ تک دمشق میں فلسطین کی
خفیہ فوجی یونٹ میں رکھا گیا۔شام میں بچوں کے جسم کو جلتے سگریٹ سے داغا
گیا۔ خاتون نے اپنے تجربے بیان کرتے ہوئے کہا، خواتین سے پوچھ گچھ کے دوران
چوہوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ایک دوسری عورت کو دی گئی ایک اذیت کے بارے
میں انہوں نے کہا،'' انہوں نے اس عورت کی اندام نہانی میں چوہے کو ڈال دیا
تھا وہ چلا رہی تھی اس کے بعد ہم نے فرش پر خون بکھرا دیکھا۔ اس کے بعد اس
سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی ہے؟ وہ اسے چڑھا رہے تھے۔ وہ بہت
دکھی تھی۔ ہم اسے دیکھ سکتے تھے اس واقعہ کے بعد وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ شام میں باغیوں کو کچلنے کے لئے
ہزاروں خواتین کی علویوں (بشار الاسد حامی فوج )نے آبروریزی کی ہے۔ صحیح
تعداد کا پتہ لگانا بے حد مشکل ہے کیوں کہ ترسیل ذرائع ابلاغ کو ٹھپ
کردیاگیاہے۔ انسانی حقوق کارکنوں وہاں نہیں جانے دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ
کے انسانی حقوق کے کارکن بھی وہاں نہیں جاپارہے ہیں۔خواتین شرم کی وجہ سے
اس طرح کے وحشیانہ واقعات کو بتانے سے گریز کرتی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے
مطابق ایسے معاملات میں لوگوں کو داغ لگنے کا ڈر لگتا ہے اس لئے متاثرہ
سامنے بھی نہیں آتی ہیں۔کچھ معاملات میں متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ
بدسلوکی فلسطین کی خفیہ فوجی یونٹ میں ہوئی، تو بہت سے معاملات میں متاثرہ
شرم کے مارے یہ نہیں چاہتیں کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اسے لوگ یا
لواحقین جانیں۔
بوسنیا ہرزے گووینیا میں 1992-95 کی جنگ کے دوران ہزاروں مسلم خواتین کی
آبروریزی کی گئی تھی ۔ اسے ’’ماس ریپ‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے
پر اس طرح کے ذلت آمیز سانحات شاید ہی کہیں پیش آئے ہوں۔ بوسینیا کی جنگ
میں 20 سے 50 ہزار خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے خصوصی
ایلچی مارگوٹ والسٹرم کے مطابق پچاس ہزار سے ساٹھ ہزارکے درمیان خواتین کی
آبروریزی کی گئی تھی۔ انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل فار فارمر یوگوسلاویہ نے اس
انسانیت سوز واقعہ کو’’ منظم عصمت دری‘‘ جنسی غلامی اور نسل کشی کا جنگی
جرم قرار دیا تھا۔ افغانستان میں میں 2001 میں امریکی حملہ اورطالبان کے
خلاف جنگ کے دوران ہزاروں افغانستانی خواتین آبروریزی کا نشانہ بنایاگیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ خواتین کو اپنی عزت گنوانی پڑی بلکہ اس
کی پاداش میں وہ جیل میں بند ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس
واچ کا کہنا ہے کہ سینکڑوں افغان عورتیں گھروں سے بھاگنے اور شادی کے علاوہ
جنسی تعلقات جیسے اخلاقی جرائم کے باعث جیلوں میں ہیں۔ ان میں کچھ ایسی بھی
ہیں جو خود جنسی زیادتی کا شکار ہوئی تھیں۔ ہندوستان میں گجرات فسادات کے
دوران سینکڑوں مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی ۔ ان میں سے کئی خواتین
کے ساتھ اجتماعی آبروریزی بھی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 2007میں شراوستی میں
کئی درجنوں مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی مقصد صرف خوف و دہشت قائم
کرنا تھا۔ ابھی گزشتہ سال اترپردیش کے استھان میں بھی مسلم خواتین کے ساتھ
جنسی تشد د کاواقعہ پیش آیا تھا۔ گزشتہ سال اترپردیش کے کئی شہروں میں پے
درپے ہونے والے مسلم کش فسادات میں مسلم خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ
بنایاگیا تھا۔ مشہور مصنفہ اروندھتی رائے نے دہلی میں 23 سالہ پیرا میڈیکل
کی طالبہ کی اجتماعی آبروریزی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ گجرات
میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا، کشمیر میں سیکورٹی فورسز کرتے ہیں عصمت دری، منی
پور میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس وقت تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا
ہے۔کھیرلانجی میں دلت خاتون اور اس کی بیٹی کو ریپ کر کے انہیں جلا دیا گیا
تھا۔ تب تو ایسی آواز نہیں اٹھی تھی۔ ایک جاگیردارانہ ذہنیت ہے لوگوں کی جو
تبھی آواز اٹھاتا ہے جب بڑی ذات کے، غلبہ والے لوگوں کے ساتھ دلی میں کچھ
ہوتا ہے۔فورسز غریب کشمیریوں کا ریپ کرتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کے خلاف
کوئی پھانسی کا مطالبہ نہیں کرتا۔ جب کوئی اونچی ذات کا آدمی دلت کا ریپ
کرتا ہے تب تو کوئی ایسی مطالبہ نہیں کرتا۔کشمیر میں شورش کے دوران بڑے
پیمانے پر عورتوں کی آبروریزی کو فوجیوں نے اسلحہ کے طور پر استعمال کیا
تھا۔ مسلم طبقہ میں خوف و دہشت پیدا کرنے کے لئے مسلم خواتین کے ساتھ آئے
دن ہندوستان میں آبروریزی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ کم سن لڑکیوں کو اٹھا
لیا جاتاہے لیکن مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی حال
ہی میں اترپردیش کے پڈرونا میں ہوا ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ چین اور روس شام کا سب سے بڑا ہمدرد ہے۔ چیچنیامیں روس
نے مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا ۔ روسی فوجیوں نے جس طرح باغیوں کو
کچلنے کیلئے طریقہ اپنایا اس پر عالمی برادری نے نہ صرف انگلی اٹھائی بلکہ
غم و غصہ کا اظہار بھی کیاتھا۔ جہاں روسی فوجیوں نے نہ صرف بڑے پیمانے پر
انسانی حقوق کی پامالی کی تھی بلکہ چیچن مسلم خواتین کی آبروریزی بھی کی
تھی۔ چین میں کاشغر کا علاقہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے چین مسلمانوں کی
ناراضگی اور علاحدگی کے مطالبے کو کچلنے کیلئے تمام حربے اپنا رہا ہے۔ روس
اور چین شام کے معاملے میں ایک ساتھ ہیں اور شامی حکومت کو قابو میں کرنے
کے لئے جو بھی قرارداد پیش کی جاتی ہے اسے ویٹو کردیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
شام سے اتنی ہی ہمدردکیوں ہے ۔ اس نے عراق اور دوسرے مسلم ممالک کے معاملے
میں ویٹو کا حق کیوں نہیں استعمال کیا تھا۔ عراق کے خلاف امریکہ کا ساتھ
دیا مقصد مسلمانوں کی تباہی تھی ۔ آج روس اور چین شام کا ساتھ دے رہے ہیں
یہاں بھی مقصد مسلمانوں کی تباہی ہے۔ شام میں ساٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں
کا قتل عام ہوچکا ہے۔برما میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے چین اسے
روک سکتا ہے لیکن چین نے اسے روکنا تو دور اس مظالم کی مذمت تک نہیں کی ہے۔
روس اور چین کی وجہ سے اقوام متحدہ بھی کچھ نہیں کر پارہی ہے۔ اقوام متحدہ
کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر نوی پلے نے شام کی حکومت پر لگے الزامات کو
بین الاقوامی فوجداری عدالت کو بھیجنے کی بات کہی ہے۔ ان میں جنسی تشدد کے
الزامات بھی شامل ہیں لیکن چین اور روس اس طرح کی کوئی بھی کوشش کو ویٹو کے
ذریعہ ناکام کردیں گے۔ خواتین کی آبروریزی کو آج بڑے پیمانے پر حزب مخالفت
یا مدمقابل کے مورل کو ڈاؤن کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا
جارہاہے۔ جو خواتین اس درد سے گزرتی ہیں وہ درد کبھی بھی خواتین کا پیچھا
نہیں چھوڑتا اور اس کا اثر آنے والی نسلوں پر پڑتا ہے۔ ذہن ،دل اور دماغ پر
پڑتا ہے۔ اس سے اچھی نسل کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ
اس کیلئے سخت قوانین وضع کئے جائیں اور اس کا نفاذ کے امتیاز، تعصب،
علاقائیت، مذہب ذات پات کے نظام سے اوپر اٹھ کر مساویانہ طور پر نافذ کرنا
ہوگا تب جاکر کہیں خواتین کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچاسکیں گے۔ |