الحمد اللہ رب العالمین والعاقبت
للمسلین والصلوت والسلام علی رسولہ الکریم
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ عزوجل اس عاجز و عاصی کو صحیح بات سمجھنے اور علی
الاعلان اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ ناچیز و عاجز انتہائی کم علم ہے
اور اللہ سے دعا ہے کہ مجھ سمیت تمام کو علم اور اس کے مطابق عمل کی توفیق
عطا فرمائے۔ اور دوسروں پر مفتی و مولانا بن جانے سمیت دوسرے فتوے ڈالنے
جیسی باتوں سے بچا اور پھر میں ہمیشہ کی طرح یہ واضح کر دینا اپنا فرض
سمجھتا ہوں کہ اللہ میری کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور میں اپنے فہم کے
مطابق دین و دنیا میں عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور جہاں مجھے یہ احساس ہو
جائے کہ میں غلطی پر ہوں تو اللہ سے معافی کا فورا طلب گار ہوتا ہوں۔ اور
میں کسی آیت کو پیش کر کے یہ ہرگز جرات نہیں کر سکتا کہ میں یہ کہنے کی
کوشش کروں کہ زیر مثال آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے جو میں نے سمجھا اور جو
دوسروں نے سمجھا وہ غلط سمجھا اللہ مجھے صحیح سمجھ عطا فرمائے اور مجھے شر
انگیز فتہ انگیزی اور فتوی دینے (اپنی اوقات و حیثیت سے تجاوز جس کا مجھے
اختیار نہیں کہ میں نا تو کوئی مفتی ہوں اور نا کوئی عالم) سے محفوظ فرمائے
اور ہمیں اور ہمارے دوستوں کو جو غلط فہمیاں ہو جاتیں ہیں اللہ ان سے ہم سب
کو محفوظ فرمائے۔
سب سے پہلے تو یہ بات واضع ہو جانی چاہیے کہ ہم اللہ اور اسکے رسول صلیٰ
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اگر ایمان رکھتے ہیں تو کیا ہمارا ایمان کسی خاص
شخص، بزرگ، شیخ، مفتی، مفسر یا دوسرے قابل احترام حضرات کی وجہ سے موجود و
مقصود ہے یا ہم اللہ عزوجل کی توفیق و رضا سے پیدائشی مسلمان ہونے کے بعد
اپنے اپنے فہم اور اپنی رضا و منشا سے اسلام کی زریں اصولوں (جتنے بھی اب
تک ہمارے دل و دماغ میں آسکے اور جتنے آئیں گے انشا اللہ) کو سمجھتے یا ان
پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آئیڈیل صورتحال دیکھ لی جائے تو بھائیوں
اللہ اور اس کے رسول کے چند اہم ترین احکامات میں سے ہے نماز، جسکے لیے خود
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت تاکید فرمائی ہے اور اس کے نا
ادا کرنے والے کے لیے قیامت و آخرت میں سخت سزا کی وعیدیں فرمائیں ہیں تو
کیا اس صورت کے باوجود کے اللہ اور اسکے رسول کے کسی ایک حکم کو بھی نا
ماننے کا مطلب کفر ہے تو کیا پھر بھی ہم اور آپ یا کسی کو بھی اللہ نے اس
بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ اس طرح کے فتوی لگاتا پھرے۔ کیا ہم میں سے کسی
کی یہ مجال، جرات و اختیار ہے کہ کسی ایک بھی شخص جس کے متعلق ہمیں یقین
کامل ہو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا کیا کسی بھی مذہبی لیڈر، کسی بھی مفتی اور
کسی بھی صاحب علم حضرت کی یہ مجال و اختیار ہے کہ کسی نماز نا پڑھنے والے
شخص کے لیے کفر کا فتوی جاری فرما دے اور یہ کہہ دے کہ وہ فلاں شخص جو نماز
نہیں پڑھتا وہ مطلقاً کافر ہے اور اس کا نکاح فسق اور اس کی نماز جنازہ بھی
جائز نہیں ہے۔
میری بات کا اعلان سن لیں “میں اگر اپنی فہم و دانست اور سوچ کے مطابق کوئی
بات اگر کرتا یا لکھتا ہوں اور وہ بھائی کو کسی ایک یا ایک سے زیادہ وجوہات
کی بنا پر سمجھ میں نہیں آتی یا اچھی نہیں لگتی تو میں نے کبھی یہ نہیں کہا
کہ میں کوئی مفتی یا کوئی مولانا یا کوئی مفسر یا کوئی محدث ہوں۔ اور اس
طرح ظاہر ہے کہ کسی پر کسی بھی قسم کا فتوی جاری کرنے کے بارے میں سوچنے کا
بھی حقدار نہیں ہوں اور میں آپ بھائیوں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ دوسروں پر
اس طرح کا فتوی دینے کا اختیار (اگر آپ بھی کوئی مفتی نہیں ہیں ) تو آپ کو
بھی نہیں ہے جیسے ہمارے کچھ بھائی فرماتے ہیں
“ آج کل ہمارے معاشرے میں ہر فرد بزعم خود مفتی و مولانا بن جاتا ہے اور
اسلامی احکامات کی من مانی تفسیر و تعبیر کرنا شروع کردیتا ہے۔بالخصوص جب
کسی کو اسلامی احکامات کی پابندی کا کہا جائے تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ
جناب دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ایسا کہنے والے دراصل اپنی کم علمی کا ثبوت
دیتے ہیں۔کیوں کہ اس آیت کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے جو یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ “
اب دیکھ لیں صاحب تحریر نے اپنے ہی ایک فتوی میں آج کل کے معاشرے میں ہر
فرد کو گھسیٹ لیا، میرے بھائی اکثر حضرات تو خود بیزار ہیں اس فتنہ انگیزی
نما فتووں سے، اب یہ کسی صاحب کا ایک فتوی نہیں تو اور کیا نام دیا جائے اس
بات کو ۔
اپنے اگلے کالم میں مزید کچھ اللہ کی توفیق سے لکھنے کی کوشش کروں گا اگر
زندگی نے وفا کی انشا اللہ |