خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز

علی الصبح جب ماسی کے لئے گھر کا دروازہ کھولا تو میری اَدھ کھلی آنکھیں اس کے چہرے پر پڑے ہوئے نیل دیکھ کر پوری طرح سے کھل گئیں۔میں نے اس سے پوچھا کہ ہوا کیا ہے ؟

وہ کچھ یوں گویا ہوئی۔”ہونا کیا ہے باجی‘ جب تک زندہ ہوں اس وقت تک یہ سب چلتا رہے گا۔“

میں چشم زدن میں سمجھ گئی کہ اس کے نام نہاد شوہر نے نشے کی حالت میں پھر اس کو مارا ہے ۔ میں نے غصے میں آتے ہوئے اس سے کہا۔”آخر تم جان کیوں نہیں چھڑا لیتیں اس سے ۔اس کو کماکر بھی کھلارہی ہو ‘ ا س کے بچے بھی پال رہی ہوں اور اس کی مار بھی کھاتی ہو۔“

”کیا کروں باجی ‘ کیسا بھی ہے میرے بچوں کا باپ ہے ۔ میری بیٹیاں ہیں‘ کل جب شادی کرنے کھڑی ہوں گی تو لوگوں کے سوالوں کا کیا جواب دوں گی‘ کوئی مرد کی برائی پر نظر نہیں ڈالتا‘ ہر کسی کو عورت ہی قصور وار لگتی ہے۔“اپنی بات کرکے وہ کام میں جت گئی اور میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ ہماری خواتین معاشرے کے رویئے کے خوف سے آخر کب تک شوہروں کے مظالم سہتی رہیں گی ۔

معاملہ صرف شوہروں کے مظالم تک محدود نہیں ہے ۔ عورت کے ساتھ ظلم و ستم اور صنفی امتیاز کا سلسلہ ہر دور میں اور ہر سطح پر روا رکھا جاتا ہے۔

خو اتین کے ساتھ امتیازی سلوک کل بھی روا رکھا جاتا تھا اور آج بھی اس میں نمایاں فرق نہیں دیکھا جارہا گو کہ آج یواین او جیسے عالمی ادارے بین الاقوامی سطح پر عورتوں کے حقوق اور اُن کے جانے والے تشدد کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں وہیں مختلف مقامی تنظیمیں بھی اس ضمن میں کام کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود پچھلے کئی سالوں سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف امریکہ میں عورتوں پرمظالم کا یہ حال ہے کہ روزانہ 280 خوتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاجاتا ہے جب کہ ان میں سے 80فیصد قتل کردی جاتی ہیں۔دنیا بھر میں ہر سال 40 لاکھ خواتین کو عصمت فروشی پر مجبور کردیا جاتاہے۔ پاکستان‘ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہر سال 10 لاکھ سے زائد خواتین فروخت کے عمل سے گزرتی ہیں جب کہ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ ہندوستان اور پاکستان کے بعض علاقوں سے انسانی اسمگلر ہر سال لاکھوں خواتین کو اسمگل کرتے ہیں جن سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔

دنیا کی ہر تیسری اورجنوبی ایشیاءکی ہر دوسری عورت آج تشدد کاشکار ہیں۔ امریکہ میں ہر 6منٹ کے بعدایک عورت زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال ایک ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ بھارت میں ہر 6گھنٹے کے بعد ایک شادی شدہ عورت کو تشدد سے مار دیا جاتا ہے جبکہ بھارت میں ہی ہر روز 7ہزار بچیاں پیدائش سے پہلے مار دی جاتی ہیں۔ جنوبی ایشا میں60فیصد سے زیادہ عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور اسی خطے سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ لڑکیاںجبکہ دنیا میںسالانہ 20لاکھ بچیوں کو جنسی کاروبار کے لئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ خواتین کی تجارت سے ہر سال 12بلین ڈالر سے زیادہ کا منافع کمایا جاتا ہے۔

اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو ایک چونکا دینے والی رپورٹ کی مطابق گزشتہ 5سالوں میں صرف پنجاب میں 9679 حوا کی بیٹیاں موت کا شکار ہوئیں۔ ان میں سے 1638 کو باپ‘ بھائی‘شوہر یا دیگر رشتہ داروں نے موت کے گھاٹ اُتاردیا جب کہ 8014 خواتین کو جائیداد کی خاطر‘ دشمنی کا بدلہ لینے اور دیگروجوہات کی بناءپر زندگی سے محروم کردیا گیا۔جہیز نہ لانے‘حقوق مانگنے اور گھریلوتنازعات کی بناءپر 3379 خواتین کو آگ لگا کر یاتیزاب بینک کر زندہ جلا دیا گیا جبکہ کاروکاری‘ کالا کالی‘ وٹہ سٹہ‘ ونی اور حدود آرڈنینس کی بھینٹ چڑھنے والی ہزاروں خواتین کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں۔

اس وقت ملک کی جیلوں میں 60 فیصد خواتین حدود آرڈیننس کے تحت قید ہیں‘ ان میں اکثریت اُن خواتین کی ہے جن کے ساتھ جنسی زیادتی ہی ان کا جرم بن گیا۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر گھنٹے میں ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے اور اسی طرح سے کاروکاری کی آڑ میں عورت کو جان سے ماردیاجاتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ کم از کم ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ بچپن ہی سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کو ہوش سنبھالتے ہی مختلف طرح کے احکامات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم میں سے اکثریت لاشعوری طو رپر اپنی بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دے بیٹھتے ہیں جب کہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جس دور میں بچے کی زندگی کی عمارت کھڑی ہونے اور بچے کے صحت مند ذہنی وجسمانی ارتقاءکے لئے ضروری ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیاجائے لیکن ہمارے ہاں لڑکی ہونے کی وجہ سے اس دور میں جب کہ اس کا شعور پنپ رہا ہوتاہے‘ اس کے ساتھ سختی برتتے ہوئے اس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ یہ عمومی رویہ ایک جانب لڑکیوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تو دوسری جانب لڑکوں کو احساس برتری میں مبتلا کرکے انہیں عورت کو کمتر سمجھنے پر آمادہ کرتا ہے یہی وہ رویہ ہے جس کے تحت مرد عورت پر ہاتھ اُٹھانا‘ بات بے بات پر طلاق کی دھمکی سمیت دیگر باتوں کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔ اکیسویں صدی میں بھی کہیں عورت زنجیروں میں بندھی نظر آتی ہے تو کہیں کاروکاری کے نام پر اسے زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ عدالتوں کے باہر پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کے منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے تو کبھی ذاتی عناد نکالنے کی خاطر بہن اور بیٹیوں کو قربان کردیا جاتا ہے ۔

اس ضمن میں بلوں کا پاس ہونا‘ قراردادیں پیش کیا جانا اور فلور پر کی جانے والی بحثیں بے معنی محسوس ہوتی ہیں۔ جہاں خواتین کو مواقع میسر آتے ہیں وہاں وہ اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہوتی ہیں اور اپنے آپ کو منوابھی لیتی ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہماری صرف 2فیصد خواتین اس فہرست میں آتی ہیں جب کہ باقی خواتین کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔لمحہ فکریہ ‘ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد بھی چل رہی ہے‘حکومتی بیانات بھی چل رہے ہیںاس کے باوجود حواکی بیٹی معاشرتی جبر سے لگنے والی آگ میں مسلسل جل رہی ہے۔ جس کی اہم وجوہات میں قانون کی موجودگی کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہونا‘سماجی دباؤ کی ذریعے عورتوں کو خاموش کرانا‘ عورتوں کا خود قانون سے بے خبر ہونا ‘مجموعی طور پر تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے متعلق معاشرے اور ریاستی اداروں کا غیر ہمد ردانہ رویہ اور عورتوں میں تعلیم کی کمی ہے۔

اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سال 2013ءکا موضوع ”صنفی ایجنڈا‘ حاصل کرنے کی رفتار“ رکھا گیا ہے جس پر پورے سال کام کیا جانا ہے ۔یہ موضوع اس لئے اہم ہے کہ خواتین کے حقوق کے علم بردار بڑی بڑی باتیں ‘بحثیں اور مذاکرے تو کرتے ہیں لیکن عمل اور نتائج تک کوئی نہیں پہنچتا ۔ اس ایجنڈے کے تحت اگر چند لوگوں نے بھی نتائج حاصل کئے تو اسے بڑی کامیابی تصور کیاجاسکتا ہے کیوں کہ پتھر پر گرنے والا پہلا قطرہ نوید سحر ہوتا ہے ‘ ا س کے بعد گرتے ہوئے قطروں سے پتھر ٹوٹ جانے کی اُمید روشن ہوجاتی ہے۔

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.