سابق وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کااپنی
وزارتِ اعلیٰ چھوڑنے سے ایک دن پہلے مائیکل باربر اور ریمنڈ کے تعلیمی روڈ
میپ میں تین سالہ توسیع کا معاہدہ کرنا کئی لحاظ سے شکوک شبہات کو جنم دیتا
ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف نے اس معاہدے میں توسیع اس نازک اور خاص
موقع پر کیوں کی؟ یہ معاہدہ پہلے کیوں نہ کر لیا گیا؟یاد رہے کہ میاں شہباز
شریف نے برطانوی ٹاسک فورس کے نمائندوں مائیکل باربر اور ریمنڈ سے ان کے
بنائے ہوئے تعلیمی روڈ میپ پر عملدرآمد کا پہلا معاہدہ ۲۲ جولائی ۲۰۱۱ء کو
کیا جس کے تحت اس ٹاسک فورس نے نصابِ تعلیم، نظامِ امتحانات، مفت کتابوں کی
تقسیم اور اساتذہ کی تربیت جیسے امور کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔اس ٹاسک
فورس نے مختلف ایجنسیوں کی امداد سے انگلش میڈیم کا ناقابلِ فہم نصاب،
مخلوط تعلیم کے عملی نفاذ کے لیے زنانہ و مردانہ سکولوں کو ضم کرنا، اپنی
پسند اور مطلوبہ ذہنیت کے حامل افراد کو ای ڈی اوز ، ڈی ای اوز اور ڈپٹی ڈی
ای اوز کے عہدوں پر فائز کرنا تاکہ مطلوبہ مقاصد کے حصول کو آسان بنایا جا
سکے۔ اساتذہ کی ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر تربیت کر کے ان کو ذہنی غسل
دینا تاکہ ان کے ذریعے علم و تہذیب کی موت کے زہریلے منصوبوں کو غلط فہمیوں
اور سطحی دلائل کی میٹھی پڑیا میں لپیٹ کر کھانے کے قابل بنایا جا سکے۔اس
منصوبے کی اس خاص موقع پر توسیع سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کے
پیچھے عالمی سامراجی سازشوں کا پورا جال کارفرما ہے جس نے پاکستان کے سب سے
بڑے صوبے پر قبضہ مستحکم کر لیا ہے۔اس سے قبل اس طرح کے معاہدوں کی توقعات
محبِ وطن لوگ پیپلز پارٹی سے کیا کرتے تھے مگر اب نظریہ پاکستان کی حفاظت
کی دعوے دار جماعت مسلم لیگ وہ سب کچھ کر رہی ہے ۔
اس معاہدے میں توسیع کے بعد جناب شہباز شریف نے تعلیم کے موضوع پر سیر حاصل
گفتگو کی جسے الیکٹرانی اور طباعتی ذرائع ابلاغ نے بھر پور انداز میں شائع
کیا۔میاں شہباز شریف نے نگران وزیرِ اعلیٰ نجم سیٹھی سے ان کی تعلیمی
پالیسیوں کا مقصد یہ بتایا اس سے شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے میں
مدد ملے گی ۔ ان کی اسی بات کو اگر کھلے لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس طرح
کہا جا سکتا ہے کہ انگلش میڈیم اور مخلوط تعلیم سے شدت پسندی اور دہشت گردی
کو کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ ان کے روڈمیپ میں یہی دو مقاصد سرِ فہرست
ہیں۔
اس ملاقات کے بعد سیکریٹری تعلیم کا فوراً امریکہ روانہ ہونا بھی خاصا معنی
خیز معلوم ہوتا ہے مگر اس معنی خیز دورے کے مفہوم و مطالب کاانکشاف ان تمام
واقعات کی ترتیب سے باآسانی ہو جاتا ہے۔سیکریٹری تعلیم اسلم کمبوہ صاحب
گذشتہ پانچ سال سامراجی فنڈنگ ایجنسیوں اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے
درمیان ایک مضبوط پل کا کردارکامیابی سے ادا کرتے رہے ہیں۔متعدد محکموں کے
سیکریٹریوں کو تبدیل کر دیا گیا مگر محکمہ تعلیم کے سیکریٹری کو تبدیل نہ
کرنا بلکہ فوراً امریکہ روانہ کردینا اس بات کا عندیہ دیتا ہے موجودہ عبوری
وزیرِ اعلیٰ نجم سیٹھی اور سابق وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف متفقہ طور پر اپنی
سامراجیوں سے وفاداری کے پروانے پر مہرِ تصدیق ثبت کروانا اور اس کے صلے
میں نئی امداد کی راہیں کھولنا مقصودہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میاں شہباز شریف کو جاتے جاتے یہ معاہدہ کرنے
کا اختیار تھا؟عوام کو آئین پاکستان نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے وزیرِ اعلیٰ
سے سوال کریں کہ اس معاہدے کا متن کیا تھا؟مذکورہ تمام واقعات کی ترتیب اور
موقع محل نشاندہی کرتے ہیں کہ نجم سیٹھی کو اس لیے عبوری وزیرِ اعلیٰ پنجاب
بنایا گیا تاکہ سامراجی روڈمیپ کا تسلسل برقرار رہے بلکہ آنے والی حکومت پر
پچھلے کئے گئے معاہدوں کا دباؤ برقرار رہے اور ہمارے نظامِ تعلیم پر مکمل
قبضہ کر کے وطنِ عزیز پر قبضے کی راہ ہموار کی جا سکے۔اب عوام خصوصاً محبِ
وطن افراد اور جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ مل بیٹھ کر ان سازشوں کا مقابلہ
کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ |