یہ خبر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک شہرکی ہے جس کے شہری یقینا امت محمدﷺ
سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ روز قیامت پر ایمان اوراُس دن حضور پاک ﷺ کی
شفاعت کے محتاج بھی ہوں گے۔خبر:میڑک کی ایک طالبہ نے کمرہ امتحان میں خود
کشی کر لی ۔ طالبہ کے بازو پر لکھی تحریر کے مطابق اسے ایک شخص تنگ کرتا
تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔ساتھ ہی اس طالبہ نے اپنے
والداور والدہ سے اپنے اس اقدام کی معافی بھی مانگی ۔
خود کشی سے پہلے اس لڑکی اور اس کے والدین کواس شخص سے کتنی اذیت ملی ہو گی
اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ لڑکی نے اپنی محبوب ترین شے زندگی
سے ہی چھٹکارہ پا لیا تاکہ نہ اس کی زندگی رہے اور نہ وہ شخص اس لڑکی کو
تنگ کر کے اسے اور اس کے والدین کو اٰذیت دے سکے شاید تب ہی لڑکی نے خود
کشی کرنے سے پہلے والدین کے نام یہ پیغام لکھا کہ اسے معاف کیا جائے۔ممکن
ہے لڑکی نے یہ پیغام ماضی میں ہونے والی اذیت کو بنیاد بنا کر والدین کے
نام لکھا ہو۔زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جاتا تھا اس
پر سورۃ التکویر میں اﷲ پاک نے فرمایا : ’’ جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے
پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی‘‘
یقینا قیامت والے دن ایک ایک عمل کاحساب کتا ب ہو گااور جب ہر نفس سے پوچھ
گچھ ہوگی تو جہاں طبعی موت مرنے والے افراد سے پوچھ گچھ ہوگی تو وہاں خود
کشی کرنے والے افراد سے بھی یہ پوچھاجائے گا کہ کیوں خود کشی کی؟اس کے جواب
میں کوئی حکمرانوں کی شکایت کرے گا تو کوئی وڈیروں کی ،کوئی اپنوں کی تو
کوئی غیروں کے مظالم گنوائے گالیکن میں چونک جاتا ہوں کہ جب اس لڑکی سے خود
کشی کی وجہ پوچھی جائے گی تو اس کی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے بازو پر لکھی
تحریر بھی گواہی دے گی کہ اسے امت مسلمہ کے ایک غیرت مند نفس نے مسلسل اذیت
کاشکار کیا جس پر اسے خودکشی کرنی پڑی۔تب کیا ہوگا ؟تب اﷲ تعالیٰ اپنی
عدالت میں مظلوم کے ساتھ ہوگے نہ رشو ت چلے گی تو نہ سیاسی و معاشرتی قد
وقامت ۔
عورت کو غیر اسلامی تہذیب میں کیا مقام حاصل ہے یہ بھی ملاحظہ کریں :
قدیم یونانیوں میں عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ سمجھا جاتا
تھا وہ غلاموں کی طرح بازاروں میں بیچی جاتی تھی ، میراث میں ان کا کوئی حق
نہ تھا۔
رومیوں نے عورت کو جانور کا مقام دیا تھا ،نکاح کو عورت کے خریدنے کا ذریعہ
سمجھا جاتا تھا ، اصولاً عور ت کو نابالغ سمجھا جاتا تھا ، معمولی قصور پر
عورت کو قتل کر دیا جاتا تھا۔
یہودیوں کے ہاں کافی عرصہ تک اس بارے میں اختلاف رہا کہ عورت انسان بھی ہے
یا نہیں ، بہت سو کا خیال یہی تھا کہ عورت انسان نہیں بل کہ مردوں کی خدمت
کے لیے ایک انسان نما حیوان ہے لہٰذا اسے ہنسنے بولنے سے بھی روک دینا
چاہیے اس لیے کہ وہ شیطان کی ترجمان ہے ، یہودیوں کے خیال میں ہر عورت
شیطان کی سواری اور بچھو ہے جو ہر انسان کو ڈنگ مارنے کی فکر میں رہتا ہے۔
ہندو عورت کی جداگانہ حیثیت تسلیم نہ کرتے تھے اگر شوہر مر جائے تو قابل
فخر عورت وہ سمجھی جاتی جو شوہر کی چتا پر زندہ جل کر مر جائے ، عورت پر
پڑھنے اور قربانی میں حصہ لینے کی ممانعت تھی۔
582ء میں کلیسا کی ایک مجلس نے فتویٰ دیا تھا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں ۔لیکن
اﷲ پاک کو تو کچھ اور ہی پسند تھا لہٰذا جس وقت کلیسا کی مجلس یہ فتویٰ دے
رہی تھی تو اس سے چند دن پہلے جزیرۃ العرب میں اﷲ کا وہ آخری نبی ﷺ پیدا ہو
چکا تھا جو تمام کچلے ہوئے انسانوں کے حقوق کا محافظ تھا، اﷲ کے آخری نبی
نے عورت کو ذلت و رسوائی اور پستی کی گہرائیوں سے اٹھایا اور اسے عظمت و
رفعت کے بلند ترین مقام پر فائز کر دیا ۔
آ پ ﷺ نے فرمایا کہ’’ جس کی کوئی بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، اس
کی توہین نہ کرے ،نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے تو اﷲ اسے جنت میں داخل کرے
گا‘‘حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
’’ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت
کے روز میں اور وہ اس طرح ہوں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ
ہیں ‘‘صحیح مسلم کی ایک اور آیت میں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ جس کے
ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے تو یہی لڑکیاں اس کے
لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی ‘‘
آپ ﷺ کو اپنی بیٹیوں سے اس قدر پیار تھا کہ آپ ﷺ اپنی بیٹیوں کو’’ بضعۃ
منی‘‘(میرے جگر کا ٹکڑا)کہہ کرپکارتے تھے۔آپﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے تو
اکثر و بیشتر سب سے پہلے اپنی نور چشم سیدہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے
ہاں تشریف لے جاتے اور جب بھی سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آپ ﷺسے
ملنے کے لیے آتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوکر اپنی نور چشم کا استقبال کرتے اور اپنی
چادر مبارک بچھا کر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اس پر بیٹھاتے تھے۔یہ
گویا پوری انسانیت کے لیے بالعموماور مسلمانوں کے لیے بالخصوص پیغام تھا کہ
عورت تمہاری شفقت و محبت کی مستحق ہے نہ کے ذلت و رسوائی کی۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب عورت
ولادت کے قریب ہوتی تو ایک گڑھے پر بیٹھ جاتی اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسی
میں دفن کر دیتی ۔انہیں حالات کی عکاسی قرآن پاک میں ان الفاظ میں کی گئی
ہے:
’’ اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی تو سارا دن ان کا چہرہ بے
رونق رہتا اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہتا، جس چیز کی اس کو خبر دی گئی اس
کی عار سے لوگوں سے چھپتا پھر ے، آیا اس کو ذلت پر لیے رہے یا اس کو مٹی
میں گاڑ ھ دے ، خوب سن لو ان کی یہ تجویز بہت ہی بری ہے‘‘(سورۃ النحل،۱۷،۱۳)
ملک خداداد پاکستان میں عورتوں پر جسمانی و ذہنی اذیت ڈھاناکوئی نئی بات
نہیں اپنی ماں بہن کے لیے دوسروں کو جان سے مار دینے والے عموماً گلی کونوں
میں کھڑے ہوکر دوسروں کی ماں بہنوں کو آنکھوں سے بے آبرو کرنے کے ساتھ ساتھ
الفاظ سے ایسے دھوتے ہیں کہ شیطان بھی شرما کر ایک طرف ہوجاتا ہوگا کیوں کہ
غیرت کا یہ شاہکار دیکھ کر شیطان کو مزیدغیرت جگانے کے لیے محنت کرنے کی
ضرورت نہیں پڑتی ۔وہ حضرات جن کی غیرت صرف اپنی ہی ماؤں بہنوں کے لیے متعین
ہے انہیں یہ باور کر لینا چاہیے کہ اسلام میں جتنی عزت و عظمت عورت کو حاصل
ہے اتنی کسی اور مذہب میں نہیں ۔غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو عزت و تکریم
اپنی ماؤں بہنوں کے لیے مخصوص کی جاتی ہے وہی عزت و تکریم دوسروں کی ماؤں
بہنوں کو اپنی ماں بہن سمجھ کر دی جانی چاہیے تب ہی ہم محمد بن قاسم کے
جانشین کہلانے کے حق دار کہلائے گے ورنہ ہم میں اور راجا داہر میں کوئی فرق
نہیں رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ بطور امت محمد ی ﷺاور رسول پاک ﷺ سے محبت کا
تقاضا تو یہی ہے کہ ہم انہی اصول و ضوابط اور ان اعمال کے پابند رہے جن کی
مثال ہمیں آپ ﷺ کی پاک زندگی سے ملتی ہے۔ |