عشق کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے (جانِ دو عالم)

ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحرو بر درگوشہ دامان اوست

عشق نے بڑی بڑی مشکلات میں عقل انسانی کی رہنمائی کی ہے۔ عشق نے بہت سی لاعلاج بیماریوں کا کامیاب علاج کیا ہے۔ عشق کے کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔

مدینہ کے پر آشوب ماحول میں جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا وصال ہوچکا ہے۔ اطراف مدینہ کے بہت سے لوگ دین اسلام سے پھر گئے۔ دشمنوں نے شہر رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر حملے کی تیاریاں مکمل کرلیں۔ اسلامی لشکر کو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں روم کے مقابلہ پر خود رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم مرضِ وفات میں بھیج چکے تھے۔ سیاسی حالات نے سنگین رخ اختیار کرلیا ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان کی رائے تھی کہ لشکر کو واپس بلالیا جائے۔ لیکن وہ عشق ہی تھا جس نے سب کے برخلاف پکار کر کہا قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر) سے ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ اس لشکر کو پیچھے لوٹائے جسے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمنے آگے بھیجا ہے۔ خواہ کتے ہماری ٹانگیں کھینچ لے جائیں مگر رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلمکا بھیجا ہوا لشکر میں واپس نہیں بلاسکتااور اپنے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا باندھا ہوا پرچم کھول نہیں سکتا۔

عشق کا فیصلہ عقل کے فیصلے سے بالکل متصادم تھا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ جب عشق کا فیصلہ نافذ ہوگیا تو ساری سازشیں خود بخود دم توڑ گئیں۔ دشمنوں کے حوصلے شکست خوردہ ہوگئے اور سیاسی حالات کی کایا پلٹ گئی۔
مرحبا اے عشق خوش سودائے ما
اے دوائے جملہ علتہائے ما

عشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اگر پورے طورپر دل میں جاگزیں ہوتو اتباع رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمکا ظہور ناگزیر بن جاتا ہے۔ احکام الہی کی تعمیل اور سیرت نبوی کی پیروی عاشق کے رگ و ریشہ میں سماجاتی ہے۔ دل و دماغ اور جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ مسلمان کی معاشرت سنور جاتی ہے۔ آخرت نکھرتی ہے، تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھرتے ہیں اور بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی و جہاں بانی کے جوہر کُھلتے ہیں۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

اسی عشق کا مل کے طفیل صحابہ کرام علیھم الرضوان کو دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا۔ یہ انکے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی ، اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی انہیں اتباع رسولصلی اللہ تعالی علیہ وسلمسے انحراف گوارا نہ تھا۔ وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقا علیہ التحیة والثناءکا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کو مشعل راہ بناکر جا دہ پیمارہتے۔ یہاں تک کہ
لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے (حدائق بخشش)

صحابہ سے تابعین رضوان اللہ تعالی علیھم نے یہ گراں بہا دولت حاصل کی۔ انہوں نے صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم کی رفاقت و صحبت میں رہ کر عشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمسیکھا، دل میں بسایا، سیرت میں اتارا، رزم و بزم میں نکھارا، اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوارا۔

آج عشق کی یہ لومدہم ہوتی جارہی ہے اور نئی نسل جان عالمصلی اللہ تعالی علیہ وسلمکے بجائے کہیں اور دل لگائے بیٹھی ہے، جیسے اسے خبر ہی نہ ہو کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا مرکز عشق و عقیدت کہاں ہے۔ عقل بے مایہ، علم بے عمل، جہلِ بے ثمر اور لہو بے ہنر نے ہمارا کاروان ظفر تاراج کر رکھا ہے۔ اور اپنی بے بسی وبے کسی کا حل بھی نظر نہیں آتا۔

ضرورت ہے کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کی محفل میں چلیں ،فتح و ظفر جن کے قدم چومتی تھی، عشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمجن کی متاع زندگی، اتباع رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمجن کا سرمایہ ¿ حیات، اور جہاں بانی جنکی تقدیر بن چکی تھی۔ ہم انہیں دیکھیں کہ ذات رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمسے ان کا کیسا والہانہ تعلق تھا۔ انکی بارگاہ میں پہنچ کر ان سے درس محبت حاصل کریں۔

مگر اب وہ محفلیں ، وہ رفاقتیں ، وہ سعادتیں کہاں نصیب ؟ وہ بے بہا دولت و ہ جہاں آرا محبت ، وہ حشر بداماں شرارعشق ہماری خاکستر میں آئے تو کیوں کرآئے؟

میں کہتا ہوں ہم اپنی نگاہ بصیرت تیز کریں اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے واقعات میں انکی چلتی پھر تی زندگی دیکھیں،بارگاہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلممیں انکی مقدس و باعظمت اداﺅں کا مشاہدہ کریں۔ چشم تصور سے لوح دل پر انکے پاکیز ہ عشق کا نقشہ اتاریں ۔ اس طرح گویا ہم بھی صحابہ رسولصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ورضوان اللہ تعالی علیھمکی محفل میں ہوں گے اور ان کا فیضانِ عشق کچھ ہمارے اوپر بھی جلوہ بارہوگا۔ ”اصحابی کالنجوم فبایہم اقتدیتم اہتدیتم“ (کشف الخفائ، الحدیث381، ج۱، ص118) یعنی میرے صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی اقتداءکرو گے ہدایت پاجاؤ گے ،کا مژدہ جانفزا ہماری خاکستر میں بھی کچھ شعلے فروزاں کرے گا۔ عشق اور عشق کی حیرت انگیز تاثیر ہمارے قافلہ حیات کو بھی علم و ہنر، جہد و عمل اور فلاح و ظفر سے آشنا کر ے گی۔
نہیں مایوس ہے اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

موجودہ نسل کے سینے میں عشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلمکی امانت منتقل کرنے کےلئے قلم نے رسولِ گرامی و قار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مقدس صحابہ علیھم الرضوان کی محفل سجائی۔ ان کی رفاقتوںاور صحبتوں کے تابندہ نقوش ڈھونڈے اور اپنی دور افتادہ نسل کو صحابہ کرام علیھم الرضوان کی صحبت کا یک گو نہ حظ اٹھانے کی راہ پیداکی،بارگاہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلممیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھمکی محبت و فدائیت اور احترام و عقیدت کے معتبر واقعات کا ایک شاندار گلدستہ تیار کیا اور اس توقع کے ساتھ مسلمانان عالم کی خدمت میں پیش کردیا کہ وہ اپنی شوکت رفتہ کو، اس دولتِ گم گشتہ یا کم گشتہ کی فراوانی و افزونی کے ذریعے تلاش کریں۔ ان کا حال و مال درخشندہ و تابناک ضرور ہوگا۔
بمصطفی برساں خویش راکہ دیں ہم اوست
و گربآن نرسیدی تمام بولہبی ست
نظر ہو خوا جہ کون ومکاں پرگر نثار اب بھی
تو ہوسکتی ہے نازل رحمت پروردگار اب بھی
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں زمین پر قطار اند قطار اب بھی

(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 354680 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.