گذشتہ دنوں جے یو آئی سندھ کے سابق امیر مولانا شیر محمد مر حوم کے صا حبزادے مولوی
محمود نے ایک شایانِ شان علمی، فکری اورادبی نشست کا اہتمام فرمایا، جس میں بطور
خاص جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی صاحب مدعو تھے، مولانا
شیرانی صاحب سے ہماراتعلق خاصاقدیم ہے، ہماری پہلی ملاقات یا بالفاظ دیگر ملاقاتیں
1994ء میں دوران عمرہ حرمین شریفین میں ہوئیں، جامعہ بنوری ٹاؤن کے استاذ اور ہمارے
کرم فرما جناب مولانا محمد یاسین صاحب کے یہاں ان کی مسجد کے حجرے میں بھی ایک دو
دفعہ سوال وجواب پر مشتمل طویل ترین نشستیں حضرت مولانا سے رہی ہیں، نیز مولانا
نصیب علی شاہ مرحوم (سابق ممبر قومی اسمبلی ورکن مجلس عاملہ وفاق )کے جامعۃ المرکز
الاسلامی بنوں میں مجھے 20سے 25دن وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جعلی اسنا د کیس
کے سلسلے میں رہنے کا اتفاق ہوا، ان دنوں مولانا شیرانی صاحب نے اپنے مہینے کی
تقسیم یوں کردی تھی: 10 دن اسلام آباد میں سیاسی امور نمٹانے کیلئے، 10 دن اپنے
آبائی علاقے اور بلوچستان جمعیت کے مسائل کے لئے، اور10دن جامعۃالمرکز میں فکری
مجالس کیلئے، یہاں بھی موصوف کو قریب سے دیکھنے، سننے اوراستفادہ کرنے کا موقع ملا،
ویسے چھوٹی موٹی ملاقاتیں بہت رہیں۔
مولانا شیرانی صاحب اسلامی تاریخ کے بعض ان رجال میں سے ہیں، جن کے متعلق اہل آراء
کی آراء انتہائی متضاد ہیں۔ ابن عربی کو اگر کچھ لوگ گمراہ سمجھتے ہیں، توانہیں
امام اور شیخ الکل ماننے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ شیرانی صاحب کے ساتھ بھی کچھ اس
طرح کا معاملہ ہے۔ اپنی مخصوص وضع قطع کے علاوہ طالبان، ایرانی انقلاب،شیعہ سنی
اختلافات جیسے مسائل میں ان کی رائے جمعیت کے احاطے سے باہر ہی نہیں بلکہ اندر بھی
ہمیشہ الگ تھلگ منفرد یا ’’تفرد‘‘کا شکار رہی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ ایسے حضرات سے
میڈیا والوں کو از خود رابطہ کرکے ان کے افکار کا ’’غربلہ‘‘ یعنی چھان پھٹک کرنی
چاہیئے، کیونکہ فی زمانہ ’’فنِّ رجال ‘‘بظاہر ناپید ہے، مگر اس کے ماہرین اہلِ
صحافت کے جامے میں موجود ہیں، چنانچہ ہماری صحافتی برادری کو جذباتیت اور سطحیت سے
ہٹ کر ملک بلکہ عالم اسلام کے ایسے رجال کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیئے، اور کھوٹے
کھرے کو معلوم کرکے اس پر اپنا حکم بے لاگ تجزیہ کی صورت میں لگا دینا چاہیئے، تاکہ
فاسد کے فساد سے امت اور انسانیت محفوظ رہے اور صالح کی صلاح سے ان دونوں کا نفع ہو،
اسی تناظر میں ہم یہاں مولانا سے کی گئی گفتگو میں سے کچھ منتخبات پیش کرتے ہیں:
…… ’’جناب کی عام تقریریں فوجیوں اور جرنیلوں کے خلاف سنی ہیں، جبکہ پرویز مشرف کی
آپ حمایت کرتے رہے ہیں‘‘ کے جواب میں شیرانی صاحب نے کہا: دیکھیں جی! جرنیلوں کی
مخالفت تو ہم اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جرنیل پینٹاگو ن سے ایک ڈائریکٹ پائپ
لائن کے ذریعے آتے ہیں، اور یہاں ہمارے لئے وبالِ جان بنتے ہیں، جب کہ ایک فرد کی
مخالفت میں ہم نے اس لئے بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا کہ جہاں کلیا ت میں ہماری تائید
نہیں کی جاتی، تو جز ئیات میں ہم کسی کی تائید کیوں کریں، اب اگر آپ ایک جزئی کو
ہٹادیتے ہیں تو اسٹیپلر (Stapler)کی پنوں (Pins) کے مانند، اُسی طرح کی دوسری جزئی
اُس کی جگہ لے لیتی ہے، تو پہلی والی جزئی کو ہٹانے سے فائدہ کیا؟
…… طالبان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب اس طرح کے سوالات بعد از وقت اور بلاسود
ہیں۔
…… ’’امریکہ سے ہمارااختلاف کیاہے؟ ‘‘کے جواب میں انہوں نے عجیب بات کہی، وہ یہ کہ
امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کی قیادت کررہا ہے، رشیا چائنا اشتراکیت واشتمالیت کے
علمبر دار ہیں، اور ہم محمد عربی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے پابند ہیں․انسانیت کی
بنیادی ضروریات وحوائج کے حوالے سے کیپیٹلزم سرمایہ کو معیار بناتاہے، کمیونزم
محنتِ مزدورکو معیار بناتاہے، لہٰذا کیپیٹلزم والے کہتے ہیں، سر مایہ
بڑھاؤجتناسرمایہ زیادہ ہوگااتنی خوشحالی ہوگی، جائز ناجائز، حرام اور مباح کے فروق
کو چھوڑ کر تمام تر توجہ جب سرمایہ پر ہوگی تو سب سے بڑا منتفع بھی سرمایہ دار
ہوگا، لہٰذا مزدور اور صارف دونوں کا نقصان۔ اور کمیونزم والے کہتے ہیں کہ سرمایہ
بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتا، اصل شے محنت ہے، لہذا تمام تر آسائشیں مزدور کودی
جائیں، اور سب سے بڑا منتفع بھی وہ ہو، اس سے رب المال اور صارف کانقصان، اسلام
کہتاہے، ضرورت صارف کو دیکھاجائے، سرمایہ اس کی ضرورت کے لئے لگایا جائے، محنت اس
کی ضرورت کے لئے کی جائے، ادھر صارف کو بھی اسراف، تبذیر اور بے جاخرچ سے منع
کیاگیا ہے، اور سرمایہ دار اور مزدور کے حقوق ان کے پسینوں کے خشک ہونے سے پہلے
دینے کا مطلب انتہائی عجلت اور تندہی کے ساتھ اداکرنے ہیں، اب آپ ہی فرمائیں کہ
سرمایہ برائے سرمایہ، یا مزدوری برائے مزدوری کوئی چیز ہے؟ ہرگز نہیں، جبکہ ضرورتِ
صارف پر انسانی معاشرے کی بنیاد ہے اس لئے ہم کیپیٹلزم اور کمیونز م کے مخالف ہیں
جن کی قیادت امریکہ وروس جیسی جارح قوتیں کر رہی ہیں۔
…… ’’اسلام فحاشی، عریانی اور زناکاری کا اتناشدید مخالف کیوں ہے؟‘‘ اس کے جواب میں
انہوں نے فرمایا کہ دیکھیں فحاشی عریانی دونوں جاکر زنا کاری پر منتج ہوتے ہیں اور
زنا کاری اس لئے قابل نفرت ہے کہ ’’عورت‘‘ یا آزاد ہوگی یا کسی کی منکوحہ، ہر دونوں
صورتوں میں اس کی مثال زمین کی ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ پوری دنیا میں کو ئی قطعہ
ارضی ایسا بھی ہے جس کا کوئی مالک نہ ہو، اگرچہ وہ جنگل وبیابان ہو؟ نہیں ہے، لہٰذا
ا ب اگر کسی زمین کی شخصی الاٹمنٹ نہیں توآپ جاکر قانونی طریقے سے اس کے مالک بن
جائیں، یعنی آزاد عورت سے نکاح کرلیں اور اگر وہ کسی کی منکوحہ ہے، تو ظاہر ہے، وہ
کسی کی ’’مزرعہ‘‘ کی طرح جس کے لئے تمام قانونی طریقے اپنا کر اس نے اسے حاصل کیا
ہے، اور اب وہ اس میں اپنی مرضی کابیج بونا چاہتے ہیں، جبکہ حرام کاری والا اس میں
وہ بیج بو دیتاہے، جو اس کی جنس نہیں ہے، اس سے ’’دخل درمعقولات‘‘ کے علاوہ ایک تو
زمین خراب ہوجاتی ہے، دوسرا یہ کہ اس کی فصل بھی آئندہ استعمال کے لحاظ سے اورمحفوظ
کرنے کے لحا ظ مفسد اور مخرب ہوتی ہے، اب ایسی صورت میں کوئی عقلمند اس فساد وتخریب
کی اجازت دے سکتاہے؟
……’’کہیں کہیں یوں لگتاہے کہ حافظ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم کی طرح بعض اہل علم
اﷲ تعالیٰ کے لئے انسان کی طرح جسمیت کے قائل ہوجاتے ہیں؟‘‘ کے جواب میں انہوں نے
کہا کہ ایک بات سمجھنے کی کوشش کریں، کہ اگر انسان کی بنائی ہوئی اشیاء کسی ایسے
سیارے پر منتقل کردی جائیں، جہاں کے باشندوں نے انسان کو بالکل دیکھاہی نہ ہو، اور
ان سے کہا جائے کہ یہ چیزیں انسان نے بنائی ہیں، جس کے پاس اتنی عقل، اتنی طاقت
اورقدرت ہے تو سچ بتائیے کیاگاڑی کودیکھ کر یا بجلی کی مصنوعات یا دیگر ایجادات کو
دیکھ کرکوئی ان کے موجد کی ماہیت و حقیقت کا ادراک کرسکتاہے؟ ہرگر نہیں، لہٰذا اس
ایک مثا ل سے ﴿لیس کمثلہ شییٔ﴾کو سمجھو۔
……’’کسی نے کہا کہ مغرب والے کہتے ہیں کہ اسلام اگر تلوار سے نہیں پھیلا، تو پھر
محمد بن قاسم کو راجہ داہر کی سر کوبی کی کیا ضرورت تھی؟ ‘‘مولانا نے ہنستے ہوئے
برجستہ جواب دیا کہ آ پ اہل مغرب سے کہیں، کہ محمد بن قاسم تو ایک ’’دہشت گرد ‘‘کو
مارنے کے لئے آئے تھے، جیسے آپ عراق و افغانستان میں ’’دہشت گردوں‘‘ کو مارنے کیلئے
آئے ہیں۔
……’’بیع اور ربوا دونوں میں جلبِ منفعت ہے، پھر ﴿أحل اﷲ البیع وحرّم الربوا﴾ بیع
حلال اور ربوا حرام کیوں ہے؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا کہ بیع میں جلب منفعت بمقا
بلہ ضرورت ودفع مضرت ہے، جبکہ ربوا میں جلب منفعت ہے لیکن بمقابلہ دفع ضرورت نہیں
ہے، بلکہ یہاں تو ’’اضرار‘‘ ہے، نیز سودلینے والے کے ساتھ رب العالمین کی جنگ بھی
اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ خالق ہے، خالق وموجد مالک ہو تاہے، اور مالک پر نان ونفقہ
واجب ہے اور سود والا اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی ضرورتوں کو ختم کرنے کی بجائے اسے مزید
ایسی مشکلات سے دو چار کردیتاہے کہ اسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، اس لئے اﷲ تعالیٰ
ایسے بندوں اور نظاموں سے کھلی جنگ کا اعلان فرماتے ہیں۔
…… ’’اﷲ تعالیٰ اگر کفر کو پسند نہیں کرتے تو کفر کو پیدا کیوں کیا؟‘‘ اس کے جواب
میں فرمایا کہ ایک ہے ’’خلقِ شر‘‘، اﷲ تعالیٰ خیر وشر سب کے خالق ہیں، اور ایک ہے
’’کسبِ شر‘‘، اﷲ تعالیٰ کاسبِ شر نہیں ہیں اور راضی بالشر بھی نہیں ہیں، مثلاً
موجدِ بندوق، خالق شر ہے، مگر بندوق سے ناحق لہو بہانے کو یہ موجد بھی نہیں چاہتا۔
…… ’’عالم اسلام کو موجودہ گلوبلائیزیشن کے زمانے میں اپنا کیا کردار اداکرنا
چاہیئے؟ ‘‘کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عالم اسلام اور عالم کفر، یا دار الاسلام
ودارالحرب کی اصطلاحات بین الاقوامیت کے اس دور میں شاید بے معنی ہوچکی ہیں، کہ
اقوام متحدہ کے ساتھ الحاق کی صورت میں اب رکن ممالک کو دارالحرب کہنا آسان نہیں
ہے، اور عالم اسلام کے ممالک کو دارالاسلام کی بجائے غیرمسلم اکثریتی علاقوں میں سے
کسی جگہ مسلمانوں کے تجمع کو فقہاء کی اصطلاح میں جو دارالمسلمین کہا جا تاہے، یہ
مسلم ممالک اب بین الاقوامی برادری کے نظام کے تحت اپنی آزادانہ حیثیت کھودینے کی
وجہ سے دیارالمسلمین ہی ہیں، نہ کہ دیارالاسلام۔
…… ججز کی بحالی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے، کہ وہ اچھے تھے یا برے اس
میں ہم نہیں پڑیں گے، البتہ ان کی معزولی بہت بری بات تھی، مشرف کے سیاہ کارناموں
کی فہرست میں یہ سیاہ ترین کارنامہ ہے، لیکن اب ان کی بحالی اسلام کی رو سے صحیح
نہیں ہے کیونکہ غضبناک قاضیوں کے فیصلے شریعت میں قبول نہیں ہیں۔
شیرانی صاحب جو اسلامی نظریاتی کونسل کے ممکنہ چیئرمین ہیں، اگر اپنے لب ولہجے میں
تبدیلی لائیں، اپنی باتوں میں تقریب الی الاذہان والمفاہیم کا عنصر اپنائیں اور
اربابِ علم ودانش سے اپنے مراسم بڑھائیں تو کچھ بعید نہیں کہ ان کی مدلل گفتگو سے
ملک وملت کو روشنی کی کرنیں ملیں۔ |