اے حمید ۔۔ میں جا تا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑ کر

کہنے کو تو بر صغیر پاک و ہند میں کئی بڑے نامور نا ول نگار، ڈر امہ نگار، انشا پرداز،کالم نویس اور خاکہ نگارپیدا ہو ئے جنھوں نے اپنے مقدور بھر اردو ادب کے علمی خزانے میں اضافہ کیا مگران میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے اگر اردو ادب سے نکال دیا جا ئے تو اس خزانے میں ادھورا پن اورتشنگی محسوس ہوگی جی ہاں! اے حمید ہما ری اردو ادب کا وہ درخشندہ ستا رہ ہیں جنھیں اردو پڑھنے وا لے کبھی فر اموش نہ کر سکیں گے اردو نثر نگا ری کو اوڑھنا بچھو نا بنا نے وا لے اس بڑے ادیب نے بھارت کے شہر امر تسر میں 1928ء کو جنم لیا میٹرک اپنے آبا ئی وطن سے کیا پھرنو زائیدہ پا کستان کے شہرلا ہورکا رخ کیا پرائیوٹ ایف اے کا امتحان پاس کیا 1949ء میں اپنا پہلاافسا نہ ’منزل منزل، تحریرکیا اور ادبی دنیا میں را توں رات مقبو ل ہوئے ریڈیو پاکستان میں ا سٹنٹ ایڈ یٹرمقر رہو ئے کچھ عر صے براڈ کا سٹر کی ملا زمت کے بعد نوکری کو خیر آباد کہا اور وا ئس آف امریکہ سے منسلک ہو گئے۔ اے ھمید کی شخصیت کے با رے میں احمدندیم قاسمی فر ماتے ہین ’’ اے حمید سے جوملتا اس سے پیا رکرنے لگتا اس کی شخصیت میں پیارکی اتنی گنجا ئش ہے کہ اگر کہیں کو ئی ایک آدھ خا می ہے بھی تو پیا ر کے پھولوں سے ڈھکی رہتی ہے،، ان کا شما ر تر قی پسند ادیبوں میں ہو تا ہے ان کی ناول نو یسی، خا کہ نگا ری،مختصرکہا نیاں، اورڈرا مہ نگا ری قا ری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں انھون نے200 کے قر یب نا ول لکھے ان کی کہٓا نیوں میں تا ریخ ما ضی کی کہانیوں میں کھو جا نا اور اس منظر نا مے میں قا ری کو بھی شا مل کر لینا بہت نما یاں ہے قاری پر ان کا چیزوں کو دیکھنے کا مشا ہدہ ، رو مانی نقطہ نظر، مہم جو ئی،اور یاد نگاری کا مضبوط بیا نیہ تحریر ایسی خو بیاں ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا قاری محسوس کر تا ہے کہ وہ بھی مصنف کے سا تھ ساتھ محوسفر ہے جس طرح ’’ داستان گو ،،کی یہ تحریر پڑ ھئے ’’جب اشفاق مجھے اپنی بنا ئی ہو ئی یہ پینتنگ دکھا رہا تھا تو مجھے یا دہے کمرے میں بڑا حبس اورگرمی تھی وہ گرمی اور حبس آج تک یاد ہے ما ضی کے دھند لکوں میں ایک رو شنی سی چمکتی ہے میں اور اشفاق چوہٹہ مفتی باقرکے ایک تنگ با زار میں جا رہے ہیں اشفاق چہرے پر لگا نے و الی کر یم کی شیشیا ں خریدنے یہاں آئے ہیں میں اس کے ساتھ ہوں ہم دکان دکان پھرکر شیشیاں دیکھ رہے ہیں اشفاق احمد اندورون لا ہور کے کلچر پر تبصرہ بھی کر رہا ہے یہان سے ہم شاہ عالمی کی لا ل مسجد کے پاس نکل آئے ہیں سا را شاہ عالمی ٹو ٹا ہوا اور جلا ہوا ہے صرف لا ل مسجد سلامت ہے جگہ جگہ مکا نوں کے ملبے کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہو ئے ہیں با نسوں وا لے بازار سے لے کر رنگ محل تک ملبہ ہی ملبہ ہے لو گوں کے چلنے سے ان ٹیلوں پر پگڈنڈیا ں بن گئی ہے ہم دو نوں ملبے کی پگڈندی پر چلتے ہو ئے واپس جا رہے ہیں رنگ محل اور لو ہا ری منڈی کی طرف مکان سلامت ہے با قی سا را کا سارا رڑا میدان ہے۔،، ان کی ایک طلسما تی تحریر ’’مرزا غالب لا ہور میں ،، اور اردو نثر کی تخلیقات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔

انھوں نے بچوں کے ادب پر بھی بہت کام کیا 100 کے قریب بچوں کے لئے ناول لکھے امبر ناگ اور ما را یہ کی سو سے زائد کہانی سیریز پر مشتمل کتا بیں بچوں کے ادب میں بیش بہا اضا فہ ہیں ۔ بچوں کے لئے ہی لکھے جا نے والے ٹی وی ڈرامہ سیریل’ عینک والا جن، پا کستان ٹیلیوژن کی تا ریخ میں طویل ترین منفرد و مشہور ڈرامہ سیر یل کے طور پر یادرکھا جا ئے گا اس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ جن بچوں نے اس ڈرامہ سیر یل کو دو دھا ئی قبل ٹی وی پر دیکھا وہ آج بھی اس کے اثر انگیز کرداروں،کہانیوں اور ڈائیلاگز کے سحر سے نہیں نکل پا ئے اس ڈرمہ ے نے پوری نسل کو مسمیر ائزکئے رکھا۔ عینک والاجن اور ’’ تھلے تھلے،،کے بعد انھوں نے ٹی وی کے لئے کچھ اورکام نہیں کیا جب کہ کا فی گنجا ئش تھی کہ وہ مزید یاد گا ر کام کر سکتے تھے۔

اے حمیدکے ادبی حوالوں میں ایک حوالہ خٓاکہ نگا ری بھی ہے خاکہ نگاری میں ان کے موضوعات کی تعداد دو درجن سے بھی تجاوزکرگئی ہے اتنے بہت سے خا کوں کو یک جا کر دینے سے تکرارکا خطرہ پیدا ہونا لا زمی امر ہے مگر اے حمید کے خاکوں کی با بت احمد ندیم قا سمی فرما تے ہیں ’’اس طرح کی تکرار اوپری اوپری با تیں کر نے والوں کے ہاں پیدا ہوسکتی ہیں لیکن اے حمید نے تو ہر شخص کو اس کی انتہای گہرا ئی سے جا نچا پرکھا ہے وہ تو کسی بھی شخصیت پر لکھتے ہو ئے ا س کی سو چوں اور امنگوں تک کے مو تی ڈھونڈ ھ لا تا ہے اس لئے اس کے ہاں تکرارکاا مکان بھی ختم ہو جا تا ہے،، جس طرح ان کے لکھے ہوئے تمام کردار خوش گفتار ، خوش خوراک اور زندگی سے بھر پور ہیں اسی طرح ان کی اپنی ظا ہری شخصیت بھی خوش شکل، وضعدار، خوش اطواراورخوش گفتا ربنا وٹ سے پاک ہے ان کی دراز قامتی ادبی محفلوں میں نما یاں نظر آتی۔زندگی بھر قلم کی مزدوری کرتے ہو ئے کینسر جیسے موذی مرض سے مقابلہ کرتے رہے عمر کی آخری دھا ئیوں میں کالم نگاری کے ذریعے اپنے چا ہنے والوں سے جڑے رہے اپنی بیماریاں ، دلی کیفیتیں ، یا دیں،خوشی اور غم تحریر کرتے رہے ان کے پڑھنے والے مدا ح دعا گو رہتے وہ صحت یاب ہو جا ئیں لیکن موت و زندگی کے اس کھیل سے کئی سال بنرد آزما ہو نے کے بعددوسال قبل 29اپریل 2011 کو لاہور میں زندگی کی بازی کینسر کے آگے ہار گئے اور اپنی تحریروں کی صورت میں اپنا دل مدا حوں کے در میاں چھوڑ گئے بقول شاعر
میں جا تا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑ کر ۔ تجھے یاد مری دلاتا رہے گا ۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148179 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.