مقام صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ احادیث نبویہ وتاریخی حقائق کی روشنی میں

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی چار پشتیں شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں،یہ فضیلت اور کسی خاندان کو حاصل نہیں ہوئی

حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا اسم گرامی عبداﷲ تھا بعض مورخین نے لکھا ہے کہ والدین نے آپ کا نام عبدالکعبہ رکھا تھا اسلام لانے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم نے یہ نام بدل کر عبداﷲ رکھ دیا، آپ کی کنیت ابوبکر ہے۔آپ کے القاب میں عتیق، صدیق،اصدق الصادقین اور سید المتقین وغیرہ ہیں۔ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے کی سعادت حضرت آپ کو نصیب ہوئی۔ آپ نے اسلام قبول بھی کیا اور اس کا اعلان بھی کیا۔(ضیاء النبی ،۲؍۲۲۸)قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر شریف ۳۸ سال تھی۔ جس عظیم ہستی کے زیر سایہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے زندگی کے اکثر ایام گزارے اس معلم کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو علم وعمل کا پیکر بنادیاتھا، علم وحکمت، فہم وفراست، تقویٰ وورع اور عزیمت واستقلال یہ سارے اوصاف اسی بارگاہ سے ملے تھے ۔ صحابہ کرام میں آپ ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ آپ حافظ قرآن ، کاتب وحی او مفسر قرآن تھے ۔ آپ سے کئی احادیث مروی ہیں۔غریب نوازی اور سخاوت میں بھی آپ پیش پیش تھے اور یہ سب رضائے الٰہی کی خاطر تھا غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے سخاوت کی جو مثال قائم کی اسے کون بھلا سکتا ہے۔خوف وخشیت ربانی سے آپ ہر وقت لرزاں رہتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بھی قرب خداوندی کے ذرائع میں سے ہے خداکا خوف ایسا تھا کہ پڑھ کر اور سن کر رقت طاری ہوجائے۔رزق حلال اور صدق مقال آپ کی امتیازی خوبیاں تھیں حرام چیزوں کا استعمال تو کجا لاعلمی میں مشکوک چیز بھی کھالیتے تو آپ کا معدہ اسے قبول نہ کرتا فوراً قے کردیتے ، نفس کشی اور احتساب نفس آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔

فضائل وکمالات:
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر شخص کے احسان کا بدلہ ہم نے اسے دے دیا سوائے ابوبکر کے، کہ ہم پروہ احسان ہے جس کا بدلہ انہیں اﷲ تعالیٰ روز قیامت دے گا، مجھے کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے دیا، اور اگر میں کسی کو دوست بناتا توضرور ابوبکر کو دوست بناتا اور بے شک تمہارے صاحب (حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ تعالیٰ کے محبوب ودوست ہیں۔ ( جامع ترمذی ۲؍۲۰۷)امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اﷲ تعالیٰ ابوبکر پر رحمت نازل فرمائے، مجھ سے اپنی بیٹی کا عقد کیا اور مجھے دارالہجرت مدینہ منورہ میں لائے اور اپنے مال سے بلال (رضی اﷲ عنہ) کو خریدکر آزاد کیا اور مجھے اسلام میں کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو فائدہ ابوبکر کے مال نے دیا۔(جامع ترمذی ۲؍۲۱۳)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اے ابوبکر تمہارا مال کتنا ستھرا ہے کہ اسی سے میرا مؤذن بلال آزاد ہوا، اسی سے میری وہ اونٹنی خریدی گئی جس پر میں نے ہجرت کی، نیز تم نے اپنی پیاری بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا اور اپنی جان ومال سے میری مدد کی گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ جنت کے درواز ے پر کھڑے ہو اور میری امت کی شفاعت کررہے ہو۔ (جامع الاحادیث ۴؍ ۵۷۰)

دینی ومذہبی خدمات
سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دولت اسلام سے مشرف ہونے کے بعد اشاعت دین میں حد درجہ مصروف ہوگئے اپنے حلقۂ احباب میں اسلام کے پیغامات حقہ پہنچانے شروع کئے او ر جن دوستوں پر آپ کو اعتماد تھا انہیں اسلام سے قریب کرنے لگے چنانچہ آپ کی کوششیں بار آور ہوئیں اور دین اسلام دور دور تک پھیلنا شروع ہوا۔ بڑے بڑے لوگ دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے۔ آپ ہی کی کوششوں سے عرب کے مشہور لوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ آپ کی یہ قربانی بھی تاریخ اسلام میں نمایاں ہے کہ آپ نے سات ایسے حضرات کو خرید کر آزاد کیا جنہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے تکلیفیں دی جارہی تھیں ان ہی حضرات میں جناب بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے، آپ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کی چار پشتیں شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں یہ فضیلت اور کسی خاندان کو حاصل نہیں ہوئی۔ہجرت مدینہ کے موقع پر آپ نے رسول کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کا جس طرح خلوص وایثار کے جذبہ کے ساتھ تعاون کیا وہ بھی بے مثال ہے، ہر جہاد میں سید عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے اور جانبازی کا مظاہرہ کیا جب آپ مشرف باسلام ہوئے تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جو آپ نے سب کے سب راہ خداوندی میں صرف کردئیے ۔ ۹ ؁ھ میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو ’’امیر حج‘‘ مقرر فرمایا۔ (مقدمہ خلافت صدیق وعلی ،ص:۵)

وفات شریف
۲۲؍ جمادی الآخرہ ۱۳ھ مطابق ۲۳ ؍اگست ۶۳۴ء بروز منگل مغرب وعشاء کے درمیان ۶۳ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا وصیت کے مطابق آپ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آپ کو غسل دیا اور امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے نمازجنازہ پڑھائی ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو فنا فی الرسول کا وہ درجہ حاصل تھا کہ آپ کی وفات بھی حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا نمونہ ہے پیر کے دن حضور کی وفات اور پیر کا دن گزار کر شب میں حضرت صدیق کی وفات، حضور کے وفات کے دن شب کو چراغ میں تیل نہ تھا اور حضرت صدیق کی وفات کے وقت گھر میں کفن کے لئے پیسے نہ تھے یہ ہے فنا۔(مراۃ المناجیح ۸؍۲۹۵)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674592 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More