قحط الرجال

کیا پاکستان کی دھرتی بانجھ ہو گئی ہے؟کیامملکت پاکستان میں واقعی ایسے افراد کا قحط ہو گیا ہے کہ جو پاکستان کا نام عالمی سطح پرروشن کر سکیں یا کہ یہ قحط الرجال ہے کہ تمام تر ذرائع کی موجودگی میں بھی ذندگی کے کسی شعبے سیاسی ہو یا سماجی’معاشی ہو یا معاشرتی’کھیل کا میدان ہو یا تعلیم کا کوئی قابل ذ کر کامیابی نظر نہیں آتی۔ اگر ہو بھی رہی ہے تو کیا ہمیں نظر ہی نہیں آرہی یا ہماری آنکھوں پر ایسی سیاہ پٹی باندھ دی گئی ہے کہ ہم دیکھ نہیں سکتے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ
وہ ملک جو گندم کی فصل میں خود کفیل ہو، اس ملک میں آٹے کا بحران ہو۔ جو چاول برآمد کرتا ہو اور اپنے ملک میں اس کے دام پہنچ سے باہر ہوں۔ سوئی گیس کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود، گیس کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہو اور اس کو گیس دوسرے ملک سے درآمد کرنی پڑے۔ کوئلے اور سورج کی تیز روشنی جیسی نعمتوں کے باوجود ملک میں توانائی کا بحران ہو؟ ملک میں 3 سال سیلاب آچکا ہو مگر پھر بھی ڈیموں میں پانی کی کمی کا عذر موجود ہو۔۔۔۔

آخر کیا وجہ ہے کہ
ترقی کی راہ پر پیش رفت کی بجائے ملک تنزلی کا شکار ہے۔ میوزک انڈسٹری کہ جس کے موسیقار عالمی شہرت یافتہ ہوں اور جس کے اداکار پوری دنیا میں مانے جاتے ہوں ۔۔۔۔۔اب بحران کا شکار ہے۔ سائنس کے شعبے میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبا ڈ گریاں حا صل کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بعد کوئی نام سامنے نہیں آیا۔ کھیل کے میدان لیا جائے تو ہاکی، جو کہ قومی کھیل کی حیثیت رکھتی ہے۔شہبازسنیئر کے بعد کوئی قابل ذکر کھلاڑی نہیں۔ کرکٹ میں وسیم اکرم، شعیب اختر کے بعد کوئی کھلاڑی عالمی سطح پر ریکارڈ نہیں بنا سکا۔۔ سکوائش میں جان شیر خان اور جہانگیر خان کے بعد کوئی اہم نام موجود نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ اب وہ دل، نہ وہ درد دل کے فسانے
غم جہاں نے یہ کیا کر دیا خدا جانے

اس قحط کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔ہر شخص اپنے مستقبل کو روشن اور بہتر سے بہتر بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے ترقی یافتہ ممالک، ملک میں موجود لائق اور ہونہار طلبہ کو مختلف سکالر شپ پروگراموں کے تحت اپنے ملک لے جاتے ہیں اور ایسے طلبہ کی صلاحیتوں کو استعمال کرلیتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف شعبوں کے ماہرین کو دنیاوی لالچ دے کر خرید لیا جاتا ہے۔ کمزور ضمیر کے مالک تو باآسانی اس چنگل میں پھنس جاتے ہیں لیکن جو بچ جائیں، ان کو الزامات لگا کر غائب کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی خوش قسمتی سے ان شکاریوں کے بکھرے جالوں سے بچتا ہوا کوئی اہم کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اس کا وجود اس روئے زمین سے ہی مٹا دیا جاتا ہے۔۔۔۔ ظاہری سی بات ہے کہ ان حالات میں کوئی کس طرح سامنے آسکتا ہے۔

دوسری بڑی وجہ نئی نسل میں ہمت، محنت اور جرأت کا فقدان ہے۔ دراصل آج کے نوجوان طمع، حرص اور لالچ کا شکار ہیں۔ایک نیا کلچر جنم لے رہا ہے۔ طالب علم ہو یا ملازمت پیشہ،خاکروب ہو یا اعلٰی درجے کا افسر،ہر کسی نے ایسا شارٹ کٹ اختیار کر لیا ہے کہ جس کے ذریعے رات و رات کامیابی حاصل کرناچاہتے ہیں۔ ایسے رستے میں رشوت اور سفارش دو ایسے ایجنٹوں کا کام کرتے ہیں کہ جو تمام اخلاقی و فنی برائیوں کے حامل کسی بھی اناڑی کی اعلٰی عہدے تک رسائی ممکن بنادیتے ہیں۔ یہی دو برائیاں ہماری نوجوان نسل میں سے محنت اور ایمانداری کے جذ بے کو دیمک کی چاٹ رہی ہیں ۔جس کی وجہ سے ان میں موجود جذبۂ حب الوطنی کی دیواریں کمزور ہو رہی ہیں۔

نئے تعلیمی رجحانات کی بنیاد اخلاقی قدروں کی بجائے مالی قدروں پر استوار ہو رہی ہیں۔ محنت کی بجائے تن آسانی، ہمت کی بجائے حالات سے سمجھوتہ اور کچھ کرنے کے لئے جرأت کی بجائے سٹیٹس کو بہتر جانا جاتا ہے۔ شاید اس میں نوجوانوں کا بھی زیادہ قصور نہیں۔بلکہ اسس تبدیلی میں تعلیمی پالیسیوں اور میڈیا کا بہت عمل دخل ہے۔

اس سب کے باوجود، ابھی بھی پاکستان میں ایسے محنتی اور ہنرمند لوگوں کی کمی نہیں کہ جو ملک کو بحرانوں اور اندھیروں سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی دھرتی ابھی بانجھ نہیں ہوئی کہ اس نے ان حالات میں بھی ارفع کریم،شرمین عبید اور محمد آصف جیسے لوگوں کو جنم دیا ہے کہ جو ابھی بھی پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے کبھی مایوسی اور ناامیدی کو اپنے راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

غرض ثابت ہوا کہ یہ صرف اور صرف قحط الرجال ہے کہ ہنر مند لوگوں اور وسائل کی موجودگی کے باوجود قحط کی سی کیفیت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ان ہنرمند افراد میں محنت کا جذبہ پیدا کر کے تمام وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لایا جائے۔ ایسے مواقع پیدا کئے جائیں کہ وہ مثبت انداز میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں۔ دھرتی کبھی بنجر نہیں ہوتی بس اسے وقتاً فوقتاً سیراب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Attia Noureen
About the Author: Attia Noureen Read More Articles by Attia Noureen: 7 Articles with 4870 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.