اسلام کا فلسفہ دیانت وامانت

﴿ قرآن وحدیث کی روشنی میں ﴾
ٓٓٓٓ
اسلامی تعلیمات کا لائق تقلید اورہمہ جہت پہلو

دین اسلام اوراسلامی معاشرہ میں’’دیا نت اور اما نت ‘‘اُن سا ری اخلا قی خو بیو ں کا مر کز اور وہ اخلاقی جو ہر ہے جو آپس کے لین دین ،آپس کے تعلقا ت اور آ پس کے معا ملا ت میں ایک مر کزی حیثیت رکھتا ہے ۔ امانت ودیانت اسلامی تعلیمات کا ایک مثالی اور لائق تقلید پہلوہے اور اہل ایمان کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک عمدہ صفت ہے۔ اسی لئے اسلام نے اس کو ان اخلا قی محا سن میں شما ر کیا ہے ، جو مسلما نوں کے چہر ہ کا نو ر ہے۔

امانت کا مفہوم
’’ اما نت ‘‘ کا ایک مفہو م تو بالکل وا ضح ہے کہ کو ئی شخص کسی کے پا س کو ئی چیز اما نتاًرکھوائے اور جب وہ شخص ’’امین ‘‘سے اپنی چیز واپس طلب کر ے تو وہ بغیرکسی تر دّد(اورتبدل) کے وہی چیزاُسے واپس کر دے ،اس کو ’’اما نت ‘‘کہتے ہیں۔

اگر کوئی شخص امانت کے اس معیا ر پر پو ر ا تر تا ہے تو اسے امین (اما نتدار) کہتے ہیں اور اگر کو ئی شخص اس معیا ر پر پو را نہیں اتر تا تو حد یثِ پا ک میں فر مان رسو ل ﷺ ہے کہ : ’’جسے اما نت کا پا س نہیں ، وہ در حقیقت صا حب ِایما ن نہیں ہے ‘‘۔
اور قر آن ِ مجید میں ارشا دِ با ری تعا لیٰ ہے :
ترجمہ: ’’(کامل ایمان والے وہ ہیں )جووعد وں کی پا س داری کر تے ہیں‘‘۔
(سورۃالمو منو ن :آ یت 8)
اما نت ودیانت کی اہمیت اورفلسفہ
اﷲتعا لیٰ امانت ودیانت کی اہمیت کوقر آ ن مجید میں اس طرح رشا د فر ما تا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ اَنْ تُؤْدُّوالْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا وَاِذَاحَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًابَصِیْرًاo
ترجمہ: ’’بے شک اﷲ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم اما نت والو ں کو اُن کی اما نتیں ادا کردو اور جب تم لو گو ں کے درمیا ن فیصلہ کر و تو عد ل کے سا تھ فیصلہ کر و، بے شک اﷲ تمھیں کیسی عمدہ نصیحت فرماتا ہے،بے شک اﷲسننے والا دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سو ر ۃالنساء :آیت 58)

آیت امانت کا شان ِنزول
مذکورہ آیت مبارکہ کے نزول کاایک خاص واقعہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی خدمت کرنا اسلام سے پہلے بھی بڑی عزت و عظمت اور باعث شرف سمجھی جاتی تھی اور جو لوگ بیت اﷲ شریف کی کسی خاص خدمت کے لئے منتخب ہوتے تھے وہ پوری قوم میں معزز اور ممتاز مانے جاتے تھے ۔اسی لئے بیت اﷲ شریف کی مختلف خدمات،مختلف لوگوں اور قبائل میں تقسیم کی جاتی تھیں ۔

دورِ جاہلیت میں ایامِ حج میں حجاج کرام کو زم زم کا پانی پلانے کی خدمت حضور نبی کریم ﷺ کے محترم چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے سپرد تھی ،جس کو ’’سقایہ‘‘ کہا جاتا تھا ۔اسی طرح بیت اﷲ کی کنجی (چابی) رکھنا اور مقررہ ایام میں مقررہ وقت پر کھولنا اور بند کرنا یہ حضرت عثمان بن طلحہ رضی اﷲ عنہ کے سپر د تھی ۔روایات میں آتا ہے کہ حضرت عثمان بن طلحہ رضی اﷲ عنہ جو کعبہ کے ’’کلید برادر‘‘ تھے (اس وقت تک آپ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے) فتح مکہ کے دن ان سے خانہ کعبہ کی چابی لی گئی تو کچھ صحابہ کرام حضرت عثمان بن طلحہ رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ ﷺ سے درخواست کی کہ جس طرح بیت اﷲ کی ’’خدمت سقایہ‘‘ اور’’خدمت سدانہ‘‘ ہمارے پاس ہے ،یہ کنجی برادری کی خدمت بھی ہمیں عطافرمادیجئے،مگر آپ ﷺ نے مذکورہ حکم خداوندی کے مطابق کنجی حسب سابق حضرت عثمان بن طلحہ کو واپس فرمادی تو حضرت عثمان بن طلحہ رضی اﷲ عنہ نے یہ امانتداری دیکھ کر اسی وقت اسلام قبول کرلیا اور حر م ایمان میں داخل ہو گئے ‘‘۔
( تفسیر مظہری ،تفسیر نورالعرفان ،تفسیر معارف القرآن )

احکامِ اسلام اور فرائض کی ادائیگی
بہر کیف یہ واقعہ صرف شانِ نزول کا حکم رکھتا ہے اس پر تمام علماء کرام اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت کا سببِ نزول اگر چہ کوئی خاص واقعہ ہواکرتا ہے لیکن آیت کا حکم عام ہوتا ہے اوراس آیت کے مخاطب عوام اورحکام ہیں۔ عوام اور حکام دونوں کو اﷲ تعالیٰ تاکیدی حکم فرماتا ہے کہ امانتوں کوان کے اہلوں اورحقداروں تک ضرورپہنچاؤ۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جومال ودولت کی صورت میں کسی کے پاس رکھوائی جائیں،ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ جوں کی توں واپس کردی جائے۔ اوردوسرے وہ حکومتی اورریاستی عہدے اور مناصب(Posts)ہیں جن کو میرٹ (Merit)پر صلاحیت رکھنے والے افراد کو فائز کرناچاہئے،محض سیاسی وسماجی بنیادپر، وطنیت اورصوبائیت کی بنیاد پر، لسانی ومسلکی تعصب کی بنیادپر،رشتہ داری و خاندانی بنیاد پر یا کوٹہ سسٹم کی بنیاد پرکسی نااہل کو کوئی عہدہ ومنصب دینانہ صرف اس آیت قرآنی کے خلاف ہے بلکہ فطری اور کائناتی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔

اور اس میں وہ امانت بھی داخل ہے جس کا نام ’’عدل و انصاف‘‘ ہے جو حاکموں اورقاضیوں کو اپنی رعایا،حقداروں اورانصاف کے طلبگاروں کے حقوق ادا کرنے پر پابند کرتا ہے اور وہ تمام امانتیں بھی اس میں داخل ہے جن کو ان کے مستحقین کے سپرد کرنا ضروری اور لازمی ہے ۔

حضرت علا مہ غلا م رسو ل سعید ی تفسیرتبیان القرآن میں رقم طراز ہیں کہ:
’’اس آیت سے پہلی والی آ یتو ں میں اﷲ تعا لیٰ نے کفا ر کے بعض احو ال بیا ن فر ما ئے اور وعید اور وعد کا ذ کر فر ما یا ، اس کے بعد پھر احکا مِ تکلیفیہ (احکا مِ شریعت )کا ذکر شر و ع فر ما یا۔ نیز اس سے پہلے یہو دکی خیا نت کا ذکر فرما یا تھا کہ اُن کی کتا ب میں سید نا محمد ﷺ کی نبو ت پر جو دلا ئل ہیں وہ ان کو چھپا لیتے ہیں اور لوگو ں کے سا منے بیا ن نہیں کر تے اور اس میں خیا نت کر تے ہیں تو اُس کو مقا بلے میں مسلما نو ں کو امانت داری کا حکم دیا ۔ اما نت ادا کرنے کا حکم عا م ہے ، خو ا ہ مذا ہب میں ہو ، عقا ئد میں ہو یا معا ملا ت میں سب امانت میں داخل ہیں۔ اس لئے جمہو ر مفسر ین نے فر ما یا ہے کہ دین کے تما م وظا ئف واعما ل اس میں داخل ہیں اور شر یعت کے تما م احکا مِ اوامرونواہی کا مجمو عہ امانت ہیں ۔ خلا صہ یہ ہے کہ امانت سے مر اد احکا م ِشریعت کا مکلف وما مور ہونا ہے جن پر پو را اُتر نے پر کثیر اجر و ثو ا ب اور جنت کی دائمی نعمتو ں کا وعدہ اور خلا ف ورزی یا کو تا ہی کر نے پر جہنم کا عذا ب مو عو د ہے ۔(تفسیرتبیان القرآن:جلد2،صفحہ698-699،فریدبک اسٹال لاہور)

حکومتی وریاستی عہدے ومناصب امانت ہیں
شیخ مفتی محمدشفیع صاحب تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں : ــ’’اس جگہ یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن حکیم نے لفظــ’’امٰنٰت ‘‘(امٰنٰت ،یہ امانت کی جمع ہے) بصیغہ جمع استعمال فرمایا ہے،جس میں یہ اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہواہو ،جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے بلکہ امانت کی کچھ اور بھی قسمیں ہیں۔ جو واقعہ آیت کے نزول کا ابھی ذکر کیا گیا ہے خود اس میں کوئی مالی امانت نہیں ،کیونکہ بیت اﷲ کی کنجی کوئی خاص ما ل نہ تھا بلکہ یہ کنجی خدمت ِ بیت اﷲ کے ایک عہدے کی نشانی تھی۔اس سے معلوم ہواکہ حکومت کے عہدے اور منصب سب اﷲ کی امانتیں ہیں ، جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب (یعنی کسی کو معزول کرنا اورکسی کا تقر ر کرنا )کے اختیارات ہیں ،ان کے لئے قطعاًجائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کرے جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں ۔پوری اہلیت والا ،سب شرائط کاجامع کوئی نہ ملے تو موجود ہ لوگوں میں قابلیت اور ایمانداری کے اعتبا ر سے جو سب سے زیادہ فائق ہواُس کو ترجیح دی جائے ۔ایک حدیث میں رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی بنیادپر بغیر اہلیت وصلاحیت کے دے دیا اس پر اﷲ کی لعنت ہے ،نہ اس کا فرض مقبول ہے ،نہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل نہ ہو جائے ۔(جمع الفوائد :ص ۳۲۵)

بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اﷲ کی خیانت کی اور رسول ﷺ کی اور سب مسلمانوں کی (خیانت کی) ۔آج جہاں نظام ابتری نظر آتی ہے وہ سب قرآنی تعلیم کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ ہے ۔تعلقات اور سفارشوں اور رشتوں سے عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اورناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظامِ حکومت برباد ہو جاتاہے‘‘۔(تفسیرمعارف القرآن:جلد2صفحہ447،مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی)

احکامِ شریعت بھی امانت ہیں
اﷲتبا رک وتعا لیٰ نے احکا مِ شر یعت کو جسے اس نے نو عِ انسا نی کے سپر د کیا ہے ۔ اُسے بھی ’’اما نت ‘‘کے لفظ سے ادا فر ما یا ہے ۔ چنا نچہ ارشادِ خد ا وندی ہے:
اِنَّاعَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَالْجِبَالَ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَاالْاِنْسَانَ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًاo
ترجمہ: ’’بے شک ہم نے آسما نوں اور زمینو ں اور پہا ڑوں پر اپنی اما نت (احکامِ شریعت)کو پیش کیا تو وہ اُس کے اُٹھانے پر آما دہ نہ ہو ئے اور اس سے ڈر گئے اور انسا ن نے اُسے اُٹھا لیا ، بے شک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نا دان ہے‘‘۔(سو ۃالاحزاب :آیت 72)

امانت سے مرادوہ احکامِ شرعیہ اور فرائض وواجبات ہیں جن کی ادائیگی پر اجروثواب اور اُن سے اعراض وانکارپر عذاب ہو گا، جب یہ احکامِ شریعت آسمان و زمین اورپہاڑوں پر پیش کئے گئے تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈرگئے لیکن جب یہ چیزیں انسان پرپیش کی گئیں تو وہ اطاعت ِ الٰہی اورفرائض کی ادائیگی پرملنے والے اجروثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کراس بارِ گراں کو اٹھانے پرجلدآمادہ ہوگئے۔احکامِ شریعت کو امانت سے تعبیر کرکے واضح کیا گیا کہ جس طرح انسان پر کسی امانت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے،اسی طرح احکامِ شریعت پر عمل کرنابھی لازم ہے۔

اس آ یتِ مبا رکہ سے معلو م ہو ا کہ یہ پو ری شر یعتِ مطہر ہ ایک خد ا ئی امانت ہے اور تما م احکا مِ شریعت بہ منز لۂ اما نت کے ہیں ۔ اس لئے ہم پریہ فر ض ہے کہ ہم اﷲتعا لیٰ اوررسول اﷲ ﷺکے تمام احکا مات پر عمل کر یں اور جن جن چیز و ں سے اﷲاوراس کے رسول ﷺ نے منع فر ما یا ہے، اُ ن سے مکمل اجتناب کریں اور اپنی زند گی کتا ب و سنت کی پیروی میں گزاریں۔

امانت کی وسعت اوراس کاکا دائرہ کار
حا صل کلام یہ ہے کہ دیا نت وامانت کا بہت وسیع مفہو م ہے اوردر حقیقت ہر وہ چیز اما نت ہے جس کے سا تھ کسی دوسرے کا حق متعلق ہو اوراس کی حفا ظت اور ما لک کی طرف اس کی ادئیگی ہر حا لت میں انسان پرلازم ہے ۔ اس لئے بجا طو ر پر کیا جا سکتا ہے کہ :
O عا لم دین کے پا س علمِ شریعت اما نت ہے ۔
O مہتمم اور متولی کے پا س مد رسہ اور مسجدامانت ہیں۔
O استاذ کے پا س طلبہ،ان کی محنت وذہانت اوروقت ِتدریس امانت ہیں۔
O والدین کے پا س اولادامانت ہیں۔
O شوہر کے پاس بیوی اوربیوی کے پا س شوہرکی ہرچیزامانت ہے ۔
O عالم پر فر ض ہے کہ وہ علم کو عا م کرے اوردوسرو ں کو سکھا ئے ،کسی بھی موقع پر فتویٰ فرو شی کے جر م کا ارتکاب نہ کرے،مسلکی تعصب کے بغیر اعتقا دی مسا ئل کو بیا ن کرے اورجب بھی کسی مسئلہ اور عقیدہ میں اس پر حق وصو اب ظاہر اورواضح ہو جا ئے تو اس کو بلاتوقف وترددقبو ل کرے اوراس کو عام کرے اور انانیت کا شکار نہ ہوجائے۔
O مدر سہ اور مسجدوغیرہ کے مہتمم اور متو لی پر لازم ہے کہ وہ ان کی بنیا د و تعمیر کے مقاصد کو سامنے رکھیں ۔ مدرسہ اور مسجد کو دین کی نشر واشا عت کا ذریعہ بنائیں ۔مسجد ومدرسہ کو ذاتی جائیدادنہ سمجھیں اوراس کے معاملات دیانت داری کے ساتھ انجام دیں۔
O مملکت کے حاکم ،وزراء ،افسران اورحکام پر فر ض ہے کہ وہ ملک کے اندر صحیح عدل وانصا ف قا ئم کر یں۔ مناصب وعہدے دیتے پردیانت داری کا مظاہرہ کریں اور صرف اہل اور امین افراد کوعہدے تفویض کر یں۔ نیزا پنی رعا یا کے تما م بنیادی حقو ق کی پا سداری کر یں اور رعا یا کی جا ن وما ل اور عز ت وآ برو کی حفا ظت کر نا بھی حا کم پر فر ض ہے۔
O والدین پر فر ض ہے کہ وہ اپنے بچو ں کے درمیان مساوات قائم کریں اور انھیں ایک مثا لی مسلمان اوراچھاانسان بنا نے کیلئے ان کی بہتر ین تعلیم وتربیت کا بند و بست کر یں اور انہیں اخلاقِ حسنہ اورنیک کر دار کا پیکر بنا ئیں۔
O شوہر پر فر ض ہے کہ وہ بیوی کی بنیادی ضروریات کو پوراکرے جبکہ بیو ی پر فر ض ہے کہ شو ہر کی غیر مو جو د گی میں اُس کی عز ت وآبر و کی اور اُس کے ما ل ومتا ع کی حفا ظت کرے اور جس شخص کا گھر میں آنا اُسے نا پسند ہو اس کو نہ آنے دے۔

ہم سب کو زند گی کی صو رت میں بہت عظیم نعمت عطا ہو ئی ہے ، اس کا تقا ضا ہے کہ ہم اپنی زند گی ایسی عظیم اور قیمتی نعمت کو ضا ئع نہ کر یں بلکہ ہم اپنی زندگی کو اﷲتعا لیٰ کی عبا دت وریا ضت اور اطا عت ، اس کے پیا رے رسو لﷺ کی اطا عت واتبا ع اور دینِ اسلام کی تبلیغ اور تر ویج واشا عت کیلئے وقف کر دیں ۔بہ قو لِ شا عر
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

پیکر دیا نت واما نت
صا حبِ اُسو ۂ حسنہ ، پیکر خلقِ عظیم حضورسےّد عا لم ﷺ کی مبارک سیر ت ِ طیبہ میں عفّت وپا کیزگی ، زُ ہدو تقو یٰ ، سخا وت وایثا ر ، عد ل وانصاف اور حسنِ عہد ووفاء ۱یسی عظیم صفا تِ حمیدہ میں سے’’دیا نت واما نت ‘‘ کو یہ خصو صیت اور امتیاز حا صل ہے کہ کفا رِ مکہ ایسے آپ کے جان لیو ا دشمن بھی آپ کی ان صفا ت ِ جمیلہ کے پیشِ نظر اپنا سا را مال ومتا ع آپ کی خد متِ عا لیہ میں بہ طو رِاما نت رکھواتے تھے اور وہ تسلیم کر تے تھے کہ اس روئے زمین حضو ر سےّد عالم ﷺ سے زیا دہ سچا اور امین کو ئی نہیں ہے۔

اعلا نِ نبوت سے قبل ہی حضو ر نبی کر یم ﷺ سا رے عر ب و عجم میں ’’صا دق ‘
اور ’’امین ‘‘کے مبا رک القاب سے ملقب تھے ۔قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی (متوفی544ھ) لکھتے ہیں کہ کعبہ کی ازسر نوتعمیر کے مو قع پر جب تعمیر وہا ں تک پہنچی ، جہا ں حجراسودنصب کر نا تھا تو قبا ئل قر یش میں جھگڑ ا ہو گیا کیو نکہ ہر قبیلے کی یہ خو اہش اور تمنا تھی کہ حجر اسو د کو اس کی جگہ پر وہ نصب کرے ۔ چنانچہ اس کشمکش میں قر یب تھا کہ ایک خو ن ریزجنگ جا ری ہو جا تی ۔ اچا نک کسی نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے خا نہ کعبہ کے اند ر داخل ہو گا ، اسے ہم اپنا ثا لث بنا لیں گے یا یہ سعادت اسے حاصل ہوگی۔

چنانچہ دو سرے دن جب صبح طلو ع ہو ئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺوہ پہلے شخص ہیں ، جو سب سے پہلے حر م کعبہ میں داخل ہو ئے ہیں۔ حضو ر سےّد عا لم ﷺ کودیکھ کر سب کے دل مطمئن ہو گئے اور سب خو شی سے یہ کہنے لگے …… ھٰذَا اَمِےْنٌ قد رضینا بہ ……یعنی ’ ’ یہ محمد ﷺ ہیں، یہ امین ہیں ہم ان (کے ثا لث ہو نے ) پر را ضی ہیں‘‘۔ (الشفاء : جز 1صفحہ 78،مطبوعہ دارالفکربیروت1415ھ)

انداز ہ کیجئے کہ جب کفا ر ِ مکہ نے صبح سو یر ے حضو ر نبی کر یم ﷺ کو سب سے پہلے حرم کعبہ میں دا خل ہو ئے دیکھا تو سب ہی پکا راُٹھے کہ یہی وہ پیکرِ دیا نت و اما نت ہیں۔ یہ اس با ت کی واضح تر ین دلیل ہے کہ حضو ر نبی کر یم ﷺ نے جس شہر میں اپنا بچپن ،لڑ کپن اور دورِ جو انی گزارا تھا ، اس شہر کے با شندے آپ کو’’امین ‘‘ کے عظیم لقب سے پکا ر تے تھے ۔

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دورِ خلافت میں ’’جنگ مدائن ‘‘ کی عظم فتح کے مو قع پر بہت قیمتی سا زو سا ما ن مجا ہدین اسلام کے قبضے میں آیا۔ ما لِ غنیمت میں ایو انِ کسِریٰ کے دروازے کا ـ’’پر دہ ‘‘بھی تھا جو حملہ کے دوران جل گیا تھا ۔ یہ پر دہ اتنا قیمتی تھا کہ اس سے دس لا کھ مثقا ل (تقریباً ایک سو دس من) سو نا بر آمد ہوا جو تقر یباًایک کروڑ درہم میں فر و خت ہو ا۔ ما لِ غنیمت میں طرح طرح کے نوادِرات اور ایرانی با د شا ہو ں کی تلوار یں، خنجر ، زرہیں، تاج زرّیں اور مختلف اقسا م کے قیمتی قیمتی ملبو سا ت کے علا وہ تقریباً تیس کھر ب (تین ہزا ر ارب )دینا ر بھی نقد حا صل ہو ئے۔ یہ تمام کا تمام مالِ غنیمت اسلامی سپہ سالار حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ نے امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی خد مت میں پیش کر دیا ۔

حافظ عمادالدین اسماعیل بن کثیرشافعی(متوفی774ھ) لکھتے ہیں : ’’اس قدر بیش قیمت اور بے حدوبے حساب مال ومتاع ملنے اوراس مال کو بیت المال میں جمع کرانے پر حضر ت عمر رضی اﷲعنہ بے اختیا ر روپڑ تے ہیں ۔قر یب میں بیٹھے حضر ت علی المر تضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرما یا کہ :
’’امیر المؤ منین !یہ تو بڑ ی خو شی و مسر ت کا مقا م ہے اور آپ روہے ہیں ؟‘‘
امیر المو منین حضر ت عمر فا روق رضی اﷲ عنہ نے فر ما یا کہ:
’’بلا شبہ یہ بہت خو شی کا مقا م ہے ، لیکن یہ آنسو تو خو شی کے آنسو ہیں کہ اس عظیم قو م نے امانت کا حق ادا کردیا ہے ، بے شک یہ بہت بڑ ے امین ہیں‘‘۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا’’کیوں نہ ہوں،جب آپ خودامانتدارہیں تو آپ کی رعا یا اور قوم بھی اما نت دار ہو گی ، اگر (با لفر ض) آپ خائن ہو تے تو آپ کی رعا یا اور قو م بھی خیا نت کر ے گی‘‘۔(البدایہ والنہا یہ :جلد 5صفحہ 139،مطبوعہ دارالفکر بیروت1393ھ)

حضر ت مو سیٰ علیہ السلام نے مدائن( ملک شا م کے ایک شہر کا نام ہے ، جو ’’مدین ابن ابراہیم ‘ کے نا م سے مو سو م ہے ) کے سفر میں دو لڑ کیو ں کی بکر یو ں کے پینے کیلئے پا نی پلا نے میں مدد دی اور اُ س کی کو ئی اجرت ان سے نہیں لی۔ان دونوں لڑکیوں نے اپنے باپ حضرت شعیب علیہ السلام سے آپ کی بڑ ی تعر یف و تو صیف کی اور سفا رش کی کہ آپ اُن کواپنا خدمتگار رکھ لیجئے ۔ اس مو قع پر قر آن مجید میں ارشاد ِ با ری تعا لیٰ ہے :
قَالَتْ اِحْدٰھُمَا یٰاَبَتِ اسْتَاجِرْہُ اِنَّ خَیْرَمَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُo
ترجمہ: ’’ان دو عو رتوں میں سے ایک نے (اپنے والد سے) کہا ، اے ابا جا ن !اس شخص کو اپناخدمت گار رکھ لیجئے ، بہترین آدمی جسے آپ ملا زم رکھیں ،وہی ہو سکتا ہے جو طا قت وربھی ہو اور امانت دار بھی ہو ‘‘۔(سو رۃ القصص آیت 26)

قرآن پاک کی اس آیت کر یمہ میں سب سے بہتر نو کر اور ملازم (Employee)کی پہچان یہ بتا ئی گئی ہے کہ جس کا م اورمنصب (Post)کیلئے اُس کو رکھاجا ئے ، اس کام کی پو ری اہلیت اور طا قت رکھتاہو اور اس کا م کو وہ پوری اما نتداری سے ادا کرے۔اس سے یہ اصو ل فراہم ہو ا کہ ملا زم میں خا ص کر دو صفتیں ضرور ہو نی چا ہئیں ۔ایک کا م کی قو ت و صلاحیت اور دوسری اما نت داری ہو نی چاہئے۔ اس لئے جس کو جس کا م کا اہل سمجھ کر ر کھا جا ئے ، وہ اس کی اہلیت کا پو را ثبو ت دے اور اپنے فرائض منصبی کو پو ری امانتداری اورانصاف کے ساتھ انجام دے۔

امانتداری کی عظمت وفضیلت اورآیاتِ قرآن
قر آن مجید میں اﷲ تبارک وتعا لیٰ نے متعد د آیات مبارکہ میں ہمیں دیا نت داری اور امانت داری کاحکم دیا ہے۔ چنا نچہ ارشادِ خداوندقدوس ہے: ’’بے شک اﷲ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانت والو ں کو اُن کی امانتیں ادا کر دو اور جب تم لو گو ں کے درمیا ن فیصلہ کر و تو عد ل کے سا تھ فیصلہ کر و ‘‘۔(سو رۃ النساء:آیت 58)
O ایک اور مقام پر یو ں ارشا د ہو تا ہے :
فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ: ’’پس اگر تم میں سے ایک کو دو سرے پر اطمینان ہو ،تو وہ جسے اس نے امین سمجھا تھا، اسے چا ہئے کہ وہ اس کی اما نت ادا کردے اور اﷲتعا لیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا پروردگار ہے ‘‘۔ (سو رۃ البقرہ :آیت283)
سو رۃ الانفا ل میں ارشا د ہو تا ہے :
﴿ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْا امٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo﴾
ترجمہ: ’’اے ایما ن والو !اﷲ اور رسو ل سے خیانت نہ کر و اور نہ اپنی اما نتوں میں خیا نت کر و،د رآ ں حا لیکہ تم کو علم ہے‘‘۔(سو رۃالانفال :آیت 27)
O قرآن مجید جن مؤمنین کو فوزو فلاح کا مژدہ اورخوشخبری دیتا ہے ان میں امانتوں کی ادائیگی کرنے والے اور وعدوں کی پاس داری کرنے والے بھی شامل ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَo ﴾
ترجمہ: ’’اور (وہ لوگ کامیاب مومن ہیں) جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاس داری کرنے والے ہیں‘‘۔(سورۃ المومنون: آیت 8)
O اسی طرح ایک اور مقام پر امانت داروں کو ان مؤمنین میں شامل ہونے کا مژدہ سنایا ہے جو جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَo ﴾
ترجمہ: ’’اور وہ (مؤمنین جنت میں جائیں گے) جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں‘‘۔(سورۃالمعارج: آیت 32)
امانتداری کی عظمت وفضیلت اوراحادیث مبارکہ

رسول اکرمﷺنے متعدد احادیث مبارکہ میں ہمیں دیانت داری اور امانت داری کا حکم فرمایا ہے، جس سے امانتداری کی اہمیت اور عظمت و فضیلت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
O حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو تمہارے پاس امانت رکھوائے، اس کی امانت اداکرو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے، اس کے ساتھ بھی تم خیانت نہ کرو‘‘۔(جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)
O حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے بیان فرمایا کہ:’’منافق کی تین خاص نشانیاں ہیں:
(۱) جب وہ بات کرے ،تو جھوٹ بولے (۲)جب وہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (۳) اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیا نت کرے‘‘۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
O حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرما یا کہ : ’’چار چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ تمھیں حاصل ہوجائیں اور دنیا کی اور کوئی چیز تمھیں حاصل نہ ہو تو کوئی افسوس کی بات نہیں ۔وہ چار چیزیں یہ ہیں:
(۱)امانت کی حفاظت (۲)بات کی سچائی(۳)حسن ِخلق(۴)اور رزق حلال‘‘۔
(مسندامام احمد، ابن کثیر، طبرانی)

حضرت عبادہ بن الصامت رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت (اور بشارت) دیتا ہوں:
(۱)جب تمہارے پاس امانت رکھوائی جائے توامانت ادا کرو(۲)جب تم کسی سے کوئی عہد کرے تو اس کو پورا کرو(۳) جب بات کرو توسچ بولو (۴) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو(۵)اپنی نظریں نیچی رکھو(۶) اور(بلاضرورت) اپنے ہاتھ (کسی کے آگے)نہ پھیلاؤ‘‘۔(شعب الایمان)

حضرت عبداﷲبن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: ’’اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس میں امانتداری نہیں وہ شخص دیندار نہیں اور جس کے پاس عہد کی پاسداری نہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، اس وقت تک آدمی کاد ین درست نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہو اور اس کی زبان اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک اس کا دل درست نہ ہو۔ اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا، جس کی اذیت سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ عرض کی گئی کہ یا رسول ﷲﷺ!اذیت کیا ہے‘‘؟۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ آدمی کا(باتوں اور مال وغیرہ میں) ملاوٹ کرنا اور ظلم کرنا اذیت ہے‘‘۔
(کنز۱لعمال: جلد 2 صفحہ 62)

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ:’’مجالس کی گفتگو امانت ہوتی ہے، ماسوا اس کے کہ کسی کا ناجائز خون بہانا ہو یا کسی کی آبروریزی کرنی ہو یا کسی کا مال ناحق طریقے سے حاصل کرنا ہو‘‘۔ (سنن ابی داؤد)

یعنی اگر ایسی کوئی بات ہو تو اس کے صاحبِ حق کو اطلاع دے کر خبردار کردینا چاہئے تا کہ وہ آنے والی مصیبت کا خاطر خواہ دفاع کرسکے اور ہونے والے مالی وجسمانی نقصان اورخسارے سے بچ جائے۔ اور اس کے علاوہ مجلس میں جو بات کہی جائے وہ اس مجلس کی امانت ہے۔ مجلس والوں کی اجازت کے بغیر اس کو دوسروں میں نقل کرنا اور پھیلانا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح ایک حدیث مبارک میں آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ : المستشار مؤتمن…… یعنی جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے تو وہ بھی امین ہے۔ اس پر لازم ہے کہ صحیح مشورہ دے اور جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے حق میں بہتر اور مفید ہو گا اور اگر جانتے بوجھتے غلط مشورہ دے دیا تو یہ امانت میں خیانت ہے۔ اسی طرح کسی نے آپ کو اپنا کوئی راز بتا دیا تو یہ بھی امانت ہے اور اس کی پاس داری کرنا بھی ہرحالت میں لازمی ہے۔

حقوق اﷲ میں امانتداری کا مفہوم
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے منتخب فرمایااور یہ بہت بڑی سعادت اور اعزاز کی بات ہے۔اﷲ تعالیٰ کے ساتھ امانتداری کامفہوم یہ ہے کہ :
’’ اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺکے احکاماتِ امرونہی کے مطابق پوراعمل کیاجائے‘‘ یعنی شریعت مطہرہ نے جن اوامر(عبادات ومعاملا ت اوراخلاقیات) پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے ان پرکماحقہ ٗ عمل کیا جائے اور جن نواہی (ممنوعات،گناہوں اوراخلاقِ رذیلہ) سے بچنے کا حکم دیاہے ان سے اجتناب کیا جائے۔

چنانچہ امانت ودیانت میں سب سے مقدم حقوق اﷲ کی ادائیگی ہے اور انسان کامقصدتخلیقی بھی صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت وبندگی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo
ترجمہ: ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے‘‘۔
(سورۃ الذاریات: آیت 56)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرنا انسان پر سب سے بڑا فرض ہے۔ اس کا پورا کرنا انسان پر ہر حالت میں لازم ہے اور یہ صرف اﷲ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ بندہ صرف اور صرف اسی کی عبادت و بندگی بجا لائے ۔ اسی کو حاکم مطلق اور رازقِ مطلق مانے۔ اسی کے آگے اعترافِ بندگی میں اپنا سر جھکائے۔ اسی کی طرف اپنی حاجتوں، مصائب، تکالیف اور آلام میں رجوع کرے۔ اسی پر کامل بھروسہ رکھے اور اسی سے ہی ظاہر و باطن میں ڈرے۔

انسان کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں کا امین بنا یا اور اس پر اعتماد فرمایا کہ وہ امانت میں خیانت کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ ہاتھ، پاؤں ، جسم و جان، اہل و عیال، مال و متاع اور دنیا کی ہرچیز اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور امانت ہے اور انسان اس کا امین ہے۔ لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت کو اس کی مرضی کے مطابق اور ا س کے رسولﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں استعمال کرے۔

انسان کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے یا مخلوق کے ساتھ اور ہر معاملہ میں اس پر لازم ہے کہ وہ اس معاملہ کو امانت داری کے ساتھ انجام دے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ معاملہ میں دیانت و امانت یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرے اور جن چیزوں سے اﷲتعالیٰ نے منع فرمایا ہے، ان سے مکمل اجتناب کرے۔ چنانچہ زبان کی امانت یہ ہے کہ اس کو جھوٹ ،چغلی ، غیبت، کفروشرک اور بے حیائی کی باتوں میں استعمال نہ کرے…… آنکھ کی امانت یہ ہے کہ اس سے حرام چیزوں اور بے حیائی کے کاموں کی طرف نہ دیکھے …… کان کی امانت یہ ہے کہ اس سے موسیقی ، فحش باتیں، جھوٹ ،غیبت اور کسی کی بدگوئی نہ سنے …… ہاتھوں کی امانت یہ ہے کہ ان سے چوری ، ڈاکہ قتل، ظلم اور کوئی ناجائز کام نہ کرے…… منہ میں لقمہ حرام نہ ڈالے، شراب وغیرہ نہ پئے…… اور پیروں کی امانت یہ ہے کہ جس جس جگہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے منع فرمایا ، وہاں نہ جائے اور تمام اعضاء سے وہی کام کرے جن کاموں کے کرنے کا اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ (بتصرف تفسیر تبیان القرآن : ج ۲ ص ۷۰۱۔ ۷۷۰)

اﷲ تعالیٰ کے ساتھ امانتداری کاایک مفہوم یہ بھی ہے کہ علماء کرام عامۃ المسلمین کی صحیح رہنمائی کریں اورمسلکی تعصب کے بغیر عقائد ومسائل کو بیان کریں اور احکام ومسائل میں افراط وتفریط سے گریزکریں اوراعتدال کی راہ کو اپنائیں اور اگر اہل علم پرجب حق وصواب واضح ہو جائے توہٹ دھرمی، انانیت ،مسلکی تعصب اوردنیاوی مفادات سے بالاتر ہو کرحق اورسچ کو قبول کرے اورصرف حق اورسچ کا ساتھ دے۔

اسی طرح اہل علم محراب ومنبراورمسندافتاء وقضاء کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پوراکریں اورجو علم انہوں نے حاصل کیا ہے وہ علم دوسروں تک پہنچائیں اوراس میں بخل سے کام نہ لیں اور کسی بھی موقع پرفتویٰ فروشی، ناجائزحیلہ بازی اور ہیرا پھیری کے جرم کا ارتکاب نہ کریں۔

اسی طرح بعض لوگ حضور سید عالم ﷺکی عظمت وفضائل،معجزات، کمالات اورخصائص کے بیان کرنے میں بھی بخل اورکتمان سے کام لیتے ہیں اوربعض لوگ فضائل وکمالات تواکثربیان کرتے رہتے ہیں لیکن اعمالِ صالح،روزمرہ کے دینی مسائل اوراصلاحِ معاشرہ سے بہت حد تک غفلت برتتے ہیں، اس سلسلہ میں اہل علم کواپنے علم کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے۔

اسی طرح کچھ اہل علم دن رات حصولِ دنیا میں لگ کرحقوق اﷲ کی ادائیگی میں سستی اورکوتاہی کرتے ہیں اور بعض لوگ تبلیغ دین اور نعت خوانی پرتھوڑے سے دنیاوی مال ومفادات کا منہ مانگامعاوضہ طے کرتے ہیں۔بعض لوگ علم دین اوروعظ و نصیحت حاصل کرنے کے بجائے میوزیکل نائٹ کی طرز پررات گئے تک مذہبی مجالس کاانعقاد توکرتے ہیں،لیکن فرائض میں کوتاہی کرجاتے ہیں، الغرض ہر مسلمان پراﷲ تعالیٰ کے حقوق، عبادات، معاملات اوراخلاقیات پرعدل کے ساتھ عمل کرناضروری ہے اور اپنی بساط اور طاقت کے مطابق امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔

حقوق العباد میں امانت داری کا مفہوم
بندوں کے باہمی حقوق وفرا ئض اور لین دین کے معا ملات میں امانت و دیانت کا مفہوم اور دائرۂ کار بہت وسیع ہے۔ہر مسلمان پر دوسرے مسلمانوں کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں،خصوصاًمعا شرتی زندگی میں ایک انسان کے حقوق،دوسرے انسان کے فرائض ہوتے ہیں اور ایک کے فرائض دوسرے کے حقوق ہوتے ہیں اورہر ایک پرلا ز م ہے کہ وہ اپنے فرائض مکمل دیانت داری کے ساتھ سر انجام دے ۔

مفسرقر ان علامہ غلام رسول سعید ی اپنی تفسیر ـــــتبیان القران میں رقم طراز ہیں:
’’تمام مخلوق کی امانت ادا کرنا، اس میں یہ امور داخل ہیں ۔ اگر کسی شخص نے کو ئی امانت رکھوائی تو اس کو واپس کرنا،ــناپ تول میں کمی نہ کرنا ،لوگوں کی عیوب بیان نہ کر نا،حکام کا عوام کے ساتھ عدل کرنا ،علماء کا عوام کے ساتھ عدل کرنا بایں طور پر ان کی صحیح رہنمائی کرنا،تعصب کے بغیر اعتقادی مسا ئل کوبیان کرنا، اس میں یہود کے لئے بھی ہدا یت ہے کہ سیدنا محمد ﷺکی نبوت کے جو دلا ئل تو رات میں مذکور ہیں ، ان کو نہ چھپائیں اور بیوی کیلئے ہدایت ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور اس کی مال کی حفاظت کرے اور جس شخص کا گھر میں آنا اسے ناپسند ہو، اس کو نہ آنے دے،تاجر ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ نہ کریں،جعلی دوائیں بناکر لوگوں کی جان سے نہ کھیلیں ، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کریں،ٹیکس بروقت اورصحیح اداکریں،اسمگلنگ کر کے کسٹم ڈیوٹی نہ بچائیں ،سودی کاروبار نہ کریں،ہیروئن ،چرس اور دیگر نشہ آور اور مضر صحت اشیاء فروخت نہ کریں ،بیورو کریٹس رشوت نہ لیں،سرکاری افسران اپنے محکمہ سے ناجائز مراعات حاصل نہ کریں ،ڈیوٹی پر پورا وقت دیں،دفتری اوقات میں غیر سرکاری کام نہ کریں ۔نیز لکھتے ہیں کہ ’’حکومتی ارکان اور وزراء جو قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں سے بلاوجہ غیر ملکی دوروں پر غیر ضروری افراد کو اپنے ساتھ لے کر جاکر اللّے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں ،وہ بھی عوام کی امانت میں خیانت کرتے ہیں ،اسکولز اور کالجز میں اساتزہ اور پروفیسر حضرات پڑھانے کے بجائے گپ شپ کر کے وقت گزار دیتے ہیں ، یہ بھی امانت میں خیانت ہے ‘‘۔(تفسیر تبیان القرآن ،جلد۲ص ۷۰۱)

ریاستی عہدوں ومناصب پراہل اورباصلاحیت افراد کا تقرر
اسی طرح اسلامی ریاست میں ریاستی وانتظامی امورکے جتنے بھی عہدے اور مناصب ہیں، عدل وانصاف اوردیانت کا تقاضا ہے کہ ان عہدوں اور مناصب پر اہل، باصلاحیت اورامانتدار افراد کا تقرر کرنا چاہئے نہ کہ یہ عہدے سیاسی رشوت اور اقربا پروری کی نذرکر دیئے جائیں اور جب کسی منصب وعہدے پرکسی نااہل اورجاہل کا تقرر ہوتا ہے تومعاشرہ میں بدامنی،ظلم وزیادتی اور بے چینی آنا لازمی امر ہے اور حضور اکر م ﷺنے اس کو قیامت کی علامت قرار دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ:
ترجمہ:’’جب امانت ضائع کردی جائے، تو پھر قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اﷲﷺ! امانت کیسے ضائع ہوگی؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ:’’ جب کوئی منصب کسی نا اہل کے سپرد کردیا جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو‘‘۔(صحیح بخاری: رقم الحدیث : ۵۹)

استاذی المکرم فقیہہ ملت پروفیسرمفتی منیب الرحمٰن صاحب’’ تحفۃ النساء‘‘ میں رقم طراز ہیں……’’حکومت کے مناصب اور عہدے بھی اﷲ اور قوم کی امانت ہوتے ہیں، خاص طور پر مناصب عدل اور ایسے حکومتی عہدے جن سے عوام کے حقو ق وابستہ ہیں اور جن کے اختیار میں قوم کی دولت اور ’’بیت المال‘‘ ہو تا ہے یا جن کے پاس قو می راز اور سلامتی و دفاع کے معاملات ہیں ، الغرض ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ درجے حتی کہ سر براہِ مملکت و حکومت تک یہ تمام مناصب اہل اور امین افراد کو تفویض کئے جانے چاہئیں اور کوٹے کے بجائے اہلیت و دیانت کو معیار بنانا چاہئے۔ رشوت لے کر ، دھونس اور دباؤ میں آکر ، اثر و رسوخ یا سفارش کی بنیاد پر عہدے تفویض کرنا صریح خیانت ہے اور حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:جب قوم کی قیادت اور اختیارات نااہلوں کو تفویض کر دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو ، نااہل اور خائن لوگ مظلوم اور بے بس و ناکس لوگوں پر وقت سے پہلے قیامت ڈھادیں گے‘‘۔(تحفۃ النساء: صفحہ134،مکتبہ فریدی کراچی)

خلاصتہ الکلام یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے قیام واستحکام اوربقاء کیلئے ازحدضروری ہے کہ نظامِ سلطنت میں ہرقسم کے عہدے اورمنصب ایسی عظیم ذمہ داریاں صرف ان ہی لوگوں کے سپرد کرنی چاہئیں،جوان سے عہدہ براہونے کی مکمل صلاحیت وقابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں،یہ عہدے اورمنصب نااہلوں اورخائنوں کو بالکل نہیں دینے چاہئے، کیوں کہ یہ عہدے اورمنصب درحقیقت اﷲ تبارک وتعالیٰ کی امانتیں ہیں،جن میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرنی چاہئے،لہٰذا حکومت کے تمام عہدے اورمناصب صرف اور صرف اہل،قابل اورامانتدار لوگوں کو دینے چاہئیں اورمحض سیاسی بنیادپر،لسانی بنیاپر، قرابت داری اورخاندانی بنیادپریاکوٹہ سسٹم کی بنیادپر عہدے اورمناصب دے دیناسراسرخیانت اورظلم وزیادتی ہے اوراﷲ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺکے احکام کی صریحاًخلاف ورزی ہے۔

حقوق النفس میں امانت داری کا مفہوم
انسان کا اپنے نفس کے ساتھ امانتداری کا تقاضایہ ہے کہ انسان اپنے نفس کیلئے اس چیز کو پسند کرے جو دین و دنیا اور اس کے جسم وجاں کے لئے مفید اور نفع آور ہو۔ انسان کی زندگی اور اسکی صحت اس کے پاس اﷲ تعالیٰ کی امانت ہے۔ وہ اس کو ضائع کرنے کا مجاز نہیں ہے، اس لئے سگریٹ پینا، چرس، ہیروئن، افیون، تمباکو نوشی کرنا، شراب پینا ، نشہ آور دوائیں اور نشہ آورچیزیں استعمال کرنا یہ تمام کام انسانی زندگی اور صحت کیلئے مضر اور نقصان دہ ہیں اور آخرت میں عذاب کا باعث ہیں اور یہ تمام کام اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرنے کے زمرے میں آتے ہیں۔

فرائض اور واجبات کو ترک کر کے اور حرام و ناجائز کاموں کا ارتکاب کر کے خود کو عذاب کا مستحق بنانا یہ بھی اپنی ذات کے ساتھ خیانت ہے۔ اﷲتعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلف کیا ہے کہ وہ خود بھی نیک بنے اور اپنے گھر والوں کو بھی نیک بنائے۔ چنانچہ اﷲ جل شانہٗ کا فرمان ہے:
یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا۔
ترجمہ : اے ایمان کی دولت پانے والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) آگ سے بچاؤ ۔ (سورۃ التحریم : آیت ۶)

اس آیت مبارکہ میں صاحبا ن ایمان کو حکم دیا جار ہا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بھی عذابِ دوزخ سے بچانے کی کوشش کرنا ان پر لازم ہے یعنی جن چیزوں سے اﷲ تعالیٰ نے تمھیں روکا ہے تم اپنے اہل و عیال کو بھی ان امور سے روکو اور جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے تم انہیں بھی ان کو بجا لانے کا حکم دو۔ اس لئے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کودین (قرآن و سنت) کی تعلیم دیں اور ان کو ہر ممکن اچھی تربیت دیں بلکہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا آغاز ’’ایمان داری‘‘ کا پہلا درس دے کر کرنا چاہئے ، کیونکہ جو تعلیم و تربیت بچوں کو کم سنی اور نو عمری میں دی جاتی ہے وہ بچوں کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور بچپن میں سکھائی گئی باتیں ان کی عادت بلکہ فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔
اسی حکم کو سورۃ العصر میں یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشادِ رب ذوالجلال ہے:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْابِالصَّبْرِo
ترجمہ:’’قسم ہے زمانہ کی ، یقیناہر انسان ضرور خسارے میں ہے مگر لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے اور آپس میں ایک دوسرے کو حق ( دین اسلام) کی وصیت و تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی‘‘۔(سورۃ العصر : آیت ۳۔۱)

اس سورۂ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نجات کیلئے صرف اپنے اعمال کی اصلاح کافی نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمانوں اور خاص کر اپنے اہل و عیال اورزیر کفالت افراد کی اصلاح کی فکر کرنی بھی ضروری ہے۔ اس سورت نے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی ہدایت یہ دی ہے کہ ان کااپنے عمل کو قرآن و سنت کے مطابق کرلینا جتنا اہم اور ضروری ہے، اتنا ہی اہم یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اورنیک عمل کی طرف بلانے کی اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرے، ورنہ صرف اپنا عمل نجات کیلئے کافی نہیں ہوگا، خصوصاً اپنے اہل و عیال اور اپنے احباب و ماتحت افراد کو ایمان و ایقان، نیک عمل اور صبر کی تلقین و تاکید کر ے، کیونکہ ہر مسلمان پر اپنے علم،دائرہ کار اور طاقت کے مطابق امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کیا گیا ہے۔

اس معاملے میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے خواص بھی غفلت و لاپرواہی میں مبتلا ہیں اور خود عمل کرنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں، اولاد اہل و عیال خواہ کچھ بھی کرتے رہیں، اس کی فکر نہیں کرتے۔ اسی حوالے سے اکثر وبیشتر’’ چراغ تلے اندھیرا‘‘دیکھنے کو ملتاہے،اگر کوئی شخص خود نیک و پرہیزگار ہے، صوم و صلوٰۃ کا پابند ہے لیکن اس کے گھر والے اور اس کے ماتحت افراد برائی میں مبتلا ہیں اور اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے اور وہ ان کو برے کام ترک کرنے اور نیک عمل کرنے کا حکم نہیں دیتا، تب بھی وہ بریٔ الذمہ نہیں ہے اور اُخروی عذاب کا مستحق ہے اور اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرتا ہے، کیونکہ رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا محافظ و نگہبان ہے اور ہر شخص اُن کے متعلق جواب دہ ہے۔ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید نے لفظ ــ’’امٰنٰت ‘‘ بہ صیغہ جمع لاکر ہمیں اس امر کی طرف حکم فرمایا ہے کہ ہم حقوق اﷲ میں ،حقو ق النفس میں اور حقوق العباد میں تمام فرائض دیانت داری کے ساتھ ادا کریں اور دیانت وامانت کو زندگی اور بندگی کے تمام شعبوں میں اپنا نصب العین بنائیں ۔

دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دیانت وامانت کے معیار پر پورا اترنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمیں حضو اقدس ﷺ کی ایسی سچی محبت نصیب فرمائے کہ ہم خود بخود سنت مصطفوی ﷺ کے سانچے میں ڈھلتے چلے جائیں اور ہماراوجود دوسروں کے لئے مینارۂ نور اور مشعل راہ بن جائے ۔آمین ثم آمین
Moulana Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.