استحکام ِاسلام کے لئے ہندوستان میں خواجہ غریب نوازکی
دعوتی خدمات
ہندوستان نکہتوں،گلشنوں،رعنائیوں،خوشبوؤں اورباغ وبہار کی سرزمین ہے۔سر
زمین ہندوستان متعدد وجوہ سے اہمیت وخصوصیات کی حامل ہے۔بھلا وہ دھرتی جہاں
سب سے پہلے نبی ابولبشرسیدناآدم علیہ السلام اتارے گئے،بابا آدم نے اسی
سرزمین پہ اشک ندامت بہائے،تین سو سال تک روتے رہے اور آسمان کی طرف آپ نے
حیا کی وجہ سے سر نہیں اٹھایا،آپ نے دعائیں اسی جگہ مانگیں،آپ کی توبہ یہیں
قبول ہوئی،پیارے مصطفی ﷺ کا وسیلہ رب کی بارگاہ میں آپ نے اسی دھرتی پر پیش
کیا، محمد رسول اﷲ ﷺ کے نام پاک کا نعرہ وغلغلہ زمین پہ سب سے پہلے یہیں
بلند ہوا،بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت شیث علیہ السلام کا مزار پاک بھی
ہندوستان میں ہے(اجودھیا میں بتایا جاتا ہے)،توالد وتناسل کا سلسلہ بھی
غالباً یہیں سے شروع ہواگویاکہ ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا
آبائی وطن ہے۔سید الملائکہ جناب جبرئیل علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام
کی بارگاہ میں سب سے پہلے سر زمین ہند پہ آئے۔سب سے پہلے اذان بھی یہی ہوئی
ہوئی۔سب سے پہلی نماز بھی یہیں ہوئی،جو آپ نے قبول توبہ کے شکرانے میں ادا
فرمائی۔آپ نے چالیس حج اور ایک ہزار عمرے بھی اسی سرزمین ہند سے مکہ پیدل
جا کر ادا فرمائے، کعبہ چوں کہ آپ کی تخلیق سے دوہزار سال پہلے فرشتوں کے
ذریعے تعمیر ہوچکاتھا۔جنتی اوزاربھی یہی اتارے گئے۔جنتی برگ وثمر اور
خوشبوئیں یہیں اتاری گئیں(حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ انجیر کے پتّے،عجوہ
کجھور،کیلا اور لیموں وغیرہ اتارے گئے تھے)۔فصل گل وشبنم،پیڑ پودے اور
کھیتیاں سب سے پہلے اسی دھرتی پہ لہلہائیں۔حضور ﷺلوگوں کو ہندوستانی جڑی
بوٹی’’عود ہندی‘‘کے استعمال پر زور دیتے تھے کہ اس میں سات بیماریوں سے شفا
ہے۔(فضائل ہند کی روایتیں مندرجہ ذیل کتب سے ماخوذہیں:بخاری شریف کتاب الطب
ج۲ص؍۸۴۹تا۸۵۱،سنن ابی داؤد،کتاب الطب ج۲ص؍۵۴۱،تفسیر الدر المنثور سورۂ بقرہ
، ج۱ ، ص ؍ ۰ ۱ ۱ ، ۱۱۵،تفسیر مدارک شریف ج۳ص؍۶۸،تفسیر روح البیان
ج۱ص؍۲۳۷۔۴۹۸،تفسیر نعیمی ج۱ص؍۲۹۰تا۲۹۱، تفسیر خازن وتفسیر جمل،حاشیۂ صاوی
ج۱ص؍۶۴، ۱۱۰،حاشیہ شیخ زادہ ج۱، ص ؍ ۲۶۶ ،۲۶۷،۴۲۰،حاشیۂ جلالین ص؍۱۳۱،حاشیہ
نمبر۲،مدارج النبوۃ ج۱ ص؍۵۔جسے ہم نے ماہنامہ کنزا لایمان،مارچ۲۰۱۰کے شمارے
سے نقل کیاہے۔)
جس ملک سے پیغمبر اسلام کی والہانہ محبت کاعالم یہ ہے کہ وادیٔ حجاز میں
ہندکی خوشبوئے محبت کومحسوس کرتے ہو وہ مقدس سرزمین اسلام کی دعوت وتبلیغ
سے کیسے محروم رہ سکتی تھی۔دور رسالت ہی میں یہاں اسلام کی شمع روشن ہو چکی
تھی۔مالابار کے راجہ زمورن سامری نے محیرالعقول معجزہ’’ شق القمر‘‘ کواپنی
آنکھوں سے دیکھا اور کچھ دن بعد اسلام قبول کرلیا۔ ہند سے ایک وفدبارگاہ
رسالت میں زنجبیل(سونٹھ)کاتحفہ لے
کرحاضرآیاتھا(مستدرک،حاکم،ج۴ص؍۳۵،بحوالہ:سلطان الہند،ص۱۳،از:ڈاکٹر محمد
عاصم اعظمی)ہندوستان پرکئی مجاہدین نے فوج کشی کی ۔ غزوۂ ہندکایہ ذوق محض
کشور کشائی کے جذبے سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے جہادِ ہندکے لیے پیش رفت
ارشاد نبوی کی تکمیل کے لیے کی تھی۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے
دوگروہوں کو اﷲ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھاہے۔ایک وہ گروہ جو
ہندوستان میں جہاد کرے گااور دوسرا وہ گروہ جو حضرت ابن مریم کا ساتھ دے
گا۔(مرجع سابق،ص۱۳ )
مسلم فاتحین وسلاطین نے طاقت وقوت کے زور پر ہندوستان میں شمع اسلام کو
روشن کیا۔تاج وتخت کے مالک بنے اور شاہانہ طمطراق کے جلوے دکھا کررخصت
ہوگئے اور ان کے ساتھ ہی شمع اسلام ٹمٹماکر ماند پڑگئی۔سوال یہ پیداہوتاہے
کہ سرزمینِ ہندپر مجاہدین آئیں،تاجروں کے قافلے آئیں،داعیانِ دین تشریف
لائیں،مگراسلام کو استحکام کیوں حاصل نہ ہوا،اسلام کے اثرات لمحاتی کیوں
تھے؟درحقیقت قدرت ِخداوندی نے ہندوستان کی فتح اور یہاں اسلامی اقتدار
کاقیام ایسے فرزند توحید کے نام لکھ دیاتھاجس نے ﷲیت،دربانیت،عشق خدا،ذوق
اتباع سنت ،حب رسول ،دل سوزی ،بلند ہمتی،تازگی فکر،نور بصیرت،فراست
ایمانی،حقیقت پسندی،اعتقاد صحیح،عمل صالح،وسعت قلب ونظراور اخلاص وایثار کی
متاع گراں بہاسے شمع اسلام کو بقاکی تابندگی عطاکی۔جسے دنیا قطب
الاقطاب،معین الملۃ والحق،خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
کے نام سے جانتی ہے۔مجاہدین ،تاجروں،خود مختار حکمرانوں سے اسلام کووہ
استحکام نہ مل سکاجیسانائب النبی فی الہند نے عطافرمایا۔آپ نے صبحِ قیامت
تک کے لیے اسلامی بنیادوں کومضبوط ومستحکم فرمادیا۔ہم ہندوستانیوں کو بھی
چاہئے کہ رسول اکرمﷺ کی نگاہ خاص کے فیوض وبرکات کو حاصل کرتے ہوئے مقصد
خواجہ پر عمل کریں،دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیں اوربزرگان دین سے محبت
کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ان کے مشن کو عام کیا جائے۔اﷲ پاک ہمیں اسلاف کے
دامن سے وابستہ ہونے اور دینی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |