میری ماں جھوٹی تھی۔۔۔ جی وہ جھوٹی تھی۔۔۔ اس کے جھوٹ کا
درجہ کیا تھا؟ بس وہ جھوٹی تھی۔۔۔ یہی پتہ ہے۔۔۔ جھوٹ تو اللہ کو پسند نہیں
مگر ماں کا جھوٹ اس زمرے میں داخل نہیں۔ ماں جھوٹی تھی اس کا احساس تو مجھے
اسی دن ہو گیا تھا جب اس کا سایہ اٹھا تھا کہ اس کے بنے ہوئے سارے خواب وہ
ساتھ لے گئی تھی۔ میری اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا سچ، سب سے بڑی تلخی، سب
سے کربناک کہانی، اور غم و آلام کے پہاڑوں تلے دفن داستان یہی "جھوٹی" ماں
ہی ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر لکھتے وقت میرا قلم معذور ہو جاتا، آنکھیں
دھندلا جاتیں، ہاتھوں میں رعشہ اور دماغ میں موجود تمام مواد منجمند ہو
جاتا ہے۔ اس عنوان کی ترغیب مجھے ایک دوست کی تحریر سے ملی۔ اور میں نے
اپنے دل کا غبار نکالنے کا ارادہ کیا۔ ایک لکھاری، شاعر یا مصنف کے ہر کام
کے پسِ پردہ کوئی نا کوئی راز ہوتا ہے جو اسے مثبت، منفی، تعمیری یا تنقیدی
سوچ کو ورق پر منتقل کرنے کا جذبہ دیتا ہے۔ لکھنے والوں کی اکثریت اپنے گھر
میں بے قدری، بے عزتی اور "دال برابر" والی صف میں شمار ہوتی ہے۔ اعصابی و
ذہنی ، معاشرتی و روحانی طور پر مجروح یہ طبقہ لکھنے کے سوا کر بھی کیا
سکتا ہے۔ اپنی تلخیوں کو الفاظ کی مالا میں پرو کر دوسروں کے لئیے فرحت و
مسرت کا باعث بن جاتے ہیں، کسی کی تفریح کا سامان ہو جاتا ہے اور کسی کو
اپنے غم تازہ کرنے کو موقع میسر آتا ہے۔ اللہ میرے الفاظ کو بھی کسی کے
لئیے تسکینِ قلب و روح کا ذریعہ کر دے۔ آمین
پہلا جھوٹ اس دن بولا جب سوا نیزے پر موجود سورج بھر پور آگ برسا رہا تھا،
زمین کی چھاتی سے آگ کے بگولے اٹھ رہے تھے اور انسانی آنکھیں اس قدر تیز
دھوپ میں زمین پر جمتی نہیں تھیں۔ اتنا یاد ہے کہ ایک دکان پر لے کر گئی،
وہاں سے جوتے خرید کر دیے، میری ضد تھی کہ میں اپنی پسند کے جوتے خریدنا
چاہتا ہوں مگر اس نے کہا کہ تیری پسند اچھی نہیں، جو جوتے میں پسند کر رہی
ہوں وہ زیادہ اچھے ہیں۔ جبکہ یہ جھوٹ تھا۔ شاید اپنے گھر کے بجٹ کی حدود
میں رہنا چاہتی تھی یا پھر کوئی اور مجبوری۔ لیکن جھوٹ بول کر مجھے خوش کر
لیا۔ جوتے بھی خرید کر دئیے اور خود کو سخت احتساب سے بھی بچانے کی کوشش
کی۔ (یہ نہیں معلوم کہ وہ احتساب سے بچ پائی یا نہیں)۔
پھر ایک بار سردیوں کی رات میں ننھیال سے ددھیال کے سفر میں اس نے جھوٹ
بولا۔ افرا تفری اور "ہنگامی بنیادوں" پر سفر کے ملنے والے اس حکم کی وجہ
سے وہ گرم کپڑوں کا بھی انتظام نہ کر سکی۔ میری بد قسمتی کہیں یا لا چاری
کہ میں اس کی ترجمانی کے قابل نہیں تھا۔ ٹھٹھرتی رات میں اس نے اپنی چادر
میں مجھے لپیٹا تو میں نے کہا تو خود کو ڈھانپ لے مجھے چادر کی ضرورت نہیں۔
اس پر وہ بولی " نہیں میرا بچہ تو چادر اوڑھ لے، مجھے سردی نہیں لگتی"۔ یہ
بھی ایک جھوٹ تھا۔
جب میرے شفیق و کریم چچا مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے جانے کے لئیے آئے تو وہ
گھر پر موجود نہیں تھی۔ شاید کسی جرم کی سزا بھگتنے کے لئیے ننھیال میں
تھی۔ چچا جی مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے گئے۔ کچھ عرصہ بعد میں گاؤں واپس آیا
تو سب ہی بہت محبتوں سے ملے۔ ہر کوئی مثلِ گلاب پکڑتا، چومتا اور مجھے اپنے
پیار کا احساس دلاتا۔ شاید رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور وہ گاؤں کی دیگر
نمازی خواتین کے ساتھ تسبیح نماز میں مشغول تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر آئی تو
مجھے زمین سے اٹھا کر گلے لگا کر خوب بھینچا۔ ماتھا چومنے کے بعد پھر گلے
سے لپٹی رہی۔ دیر تک۔۔۔ اور پھر جب گلے سے لگاتے ہوئے میں اس کا چہرا نہیں
دیکھ پا رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اس کی آواز بھرا گئی۔۔۔ میں سمجھ گیا
کہ ماں نمدیدہ ہو چکی ہے۔۔۔ کچھ لمحات بعد مجھے نیچے اتارا تو فوراً منہ
دوسری طرف پھیر لیا۔ میں اپنی طرف مخاطب کرتا تو وہ رخ بدل لیتی۔ چند لمحات
بعد پھر مجھے گود لیا میں نے دیکھا کہ آنکھوں میں سرخی تھی۔ میں نے پوچھا
ماں تو رو رہی ہے ، کیا میرے بغیر اداس ہو گئی تھی؟؟؟ تو بولی نہ ہی اداس
ہوں اور نہ ہی روئی ہوں۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ جب کہ عین اس وقت اس کی
آنکھوں میں آنسوؤں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر خود کو روکنے کی ناکام کوشش
کر رہا تھا۔ اس کے ان الفاظ میں بھی جھوٹ موجود تھا۔ اس کی صحت ٹھیک نہیں
تھی۔ ایک سنجیدہ قسم کے آپریشن کے بعد وہ بیمار تھی۔ اور میری عدم موجودگی
میں میرا ایک چھوٹا بھائی بھی دنیا سے جا چکا تھا۔ اس نے تمام غموں اور
تکلیفوں پر پردہ ڈالا اور خود کو خوش ظاہر کیا۔۔۔۔ مگر یہ جھوٹ تھا۔
جان لیوا گرم لو چل رہی تھی موسم گرما کی چھٹیاں تھیں، میری کسی شرارت پر
غصہ ہو گئی، میں ڈر کا مارا گھر سے بھاگا، ایک کمرے پر مشتمل سرکاری
پرائمری سکول کی دیوار کے عقب میں چھپ گیا۔ محلے کے کسی بچے سے میری خبر پا
کر وہاں پہنچی، میں نے تپتی زمین پر ماں کو خوب گھمایا۔ آوازیں دیتی رہے کہ
گرمی بہت ہے، دھوپ تیز ہے، تجھے بخار ہو جائے گا، تو بیمار پڑ جائے گا، تو
نے جوتے بھی نہیں پہنے ہوئے، تیرا سر ننگا ہے۔ میں تجھے نہیں ماروں گی بلکہ
میں تجھے گھر لے جانے کے لئیے آئی ہوں۔ لیکن میں نے اس گلی گلی گھمایا، خوب
پریشان کیا، اپنی بیماری کی وجہ سے تھک گئی اور مجبور ہو کر گھر چلی گئی۔
دادا ابو سے شکایت کر دی، ماں سے تو بچ نکلا مگر دادا جی کے فوجی حملے نے
مجھے کہیں بھاگنے نہ دیا۔ گھر لے جا کر مجھے ایک چار پائی پر "نلکی کے
دھاگے" سے باندھ دیا۔ کیا خوب نفسیاتی قید کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد چھوٹی بہن
کے ہاتھوں شکر کا ٹھنڈا شربت بھجوایا۔ میں نے پینے سے انکار کیا تو بہن
کہنے لگی امی نے بنا کر دیا ہے۔ تیرے بھائی کو پیاس لگی ہو گی۔ پھر تھوڑی
دیر کے بعد خود آئی۔ سر پہ ہاتھ رکھ کر بولی "ظالما تیرے سر سے آگ نکل رہی
ہے، کہیں تو بیمار تو نہیں پڑ گیا"۔ تب پتہ چلا کہ پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ
جو اپنا غصہ دکھا رہی تھی وہ بھی جھوٹ ہی تھا۔
جس دن راہیِ عدم ہونا تھا اس روز ہمارے سمیت گھر کو خوب سنوارا، غیر معمولی
طور پر اقرباء و اعزاء سے ملی۔ چہرے پر غیر معمولی خوشی کے تاثرات تھے اور
رات میں دیر تک جاگتی رہی۔ اگلی صبح یہ احساس ہوا کہ مالک الملک کا بلاوا
تھا، اپنے چمن کے اجڑنے کے غم، موقع اور احساس کو بانپتے ہوئے وہ تبسم و
اطمینان کا جو احساس دلا رہی تھی وہ بھی ایک جھوٹ ہی تھا۔
اولاد کو خوش دیکھنا، ان کا مستقبل ہرا بھرا دیکھنا، اپنے گھر کو پر امن و
سلامت دیکھنا اس کا خواب تھا۔ اس کا ہر ہر خواب ایک بار نہیں ہزار بار
ٹوٹا، ٹوٹ کے بکھرا، ان کرچیوں کو جمع کرتے ہوئے کئی بار ہمارے ہاتھ زخمی
ہوئے ۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور قدرت کے کارخانے میں آزمائشوں اور
تجربوں کی بنیاد پر تعمیر حیات جاری ہے۔ عزم و وفا، بقا اور ارتقاء کی
راہیں دشوار ضرور مگر اسی کی تربت سے ہو کر آنے والی ہوائیں ہمارے لئیے
آکسیجن کا کام کر رہی ہیں۔
ایک تازہ ترین جھوٹ یہ ہے کہ گزشتہ صبح فجر کے بعد وہ مجھے ملنے آگئی۔ کسی
اجڑے ہوئے گلستان میں بیٹھی، چہرے پر اداسی اور نقاہت کے وہی اثرات جو اس
کی آخری زندگی میں بھی نمایاں رہے۔ میری زباں تو کند رہی مگر اس نے بھی
کلام کا تکلف نہ کیا۔ جب قریب جا کر کچھ عرض کرنے کا قصد کیا تو پھر بچھڑ
گئی۔ میری بد قسمتی کہئیے یا مجبوری کہ میں اس کی تربت سے دور ہوں۔ بہت دیر
تک وجدانی کیفیت رہی ، روحانی طور پر احساسات کا آنا جانا رہا، پھر میں نے
ہر لحاظ سے اسی کی مثل و مثال اس کی بیٹی کو فون کر کے فاتحہ و ایصالِ ثواب
کے لئیے کہا۔ عین اگلے لمحے آ کر بتا گئی میں تم لوگوں سے خوش ہوں۔ تب سمجھ
آئی ۔۔۔ اس کا مطلب کل جو ناراضگی دکھائی تھی وہ بھی جھوٹ تھا۔۔۔
تیری ناراضگی کتنی عارضی ہوتی ہے۔ جو اللہ تیرے جیسی ستّر ماؤں سے زیادہ
پیار کرتا ہے وہ فردوس کے بلند درجات میں تجھے عزتیں اور عظمتیں بخشے۔ جب
تو ہمارے پاس تھی تب راضی و ناراضی کے معیار کو ہم سمجھتے نہیں تھے۔ اب
تیری رضا صرف ایک دعا میں ہے۔ تیری تربت پہ کروڑوں رحمتیں ہوں۔ تیری نسلوں
میں حمیت و غیرت موجود رہے۔ جب تو یہاں موجود تھی اس وقت کے آنسو تو ہمیں
یاد نہیں، اور جو یاد ہیں وہ تو پونچھ لیا کرتی تھی۔۔۔ اب جو آنکھوں سے برس
رہے انہیں کس کا آنچل آکر پونچھے گا؟؟؟ اللہ تیرے جھوٹوں کا صدقہ ہمارے حال
پر رحم کرے۔۔۔۔
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
Email: [email protected] |