۰۰۰ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۰ ۰۰ ۰۰۰۰۰۰ ۰۰۰
تصوف اور صوفیاء کرام کا مقام ومرتبہ
تاریخ عالم شاہد ہے کہ دنیا میں اسلام تلوار،ہتھیار اورجنگ وجدال سے کہیں
زیادہ عمل وعمل اورسیرت و کردارسے پھلا پھولا اورپھیلا ہے اور اشاعتِ اسلام
کی اس عظیم آب یاری میں جہاں اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدرانبیاء کرام اور رسل
عظام نے اپنے فرائض منصبی کوبہ حسن وخوبی اداکیا۔ وہاں اﷲ تعالیٰ کیمحبوب
اور برگزیدہ اولیائے کرام (بشمول صحابہ کرام،تابعین، تبع تابعین)نے بھی
دعوت توحید و اسلام کی تعلیم وتبلیغ کو چار چاندلگائے اور دنیا میں اشاعت
اسلام کیلئے اپنی زندگیاں وقف فرما دی تھیں۔
اسلام میں علم تصوف ،اولیاء اﷲ اور صوفیائے کرام کا مقام ومرتبہ اورکردار
اور حقیقت کیا ہے۔ ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں اس پر تفصیل سے گفتگو کریں
گے، تا کہ علم تصوف(طریقت) اور صوفیاء کرام کا عظیم الشان مقام ومرتبہ
اوران کا کردار واضح ہو جائے اور جو لوگ علم تصوف اور صوفیاء کرام کی خواہ
مخواہ کی مخالفت کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان کے عطا کردہ مقام اوران
کی کرامات کا انکار کرتے ہیں،ان کو بھی صوفیاء کرام کا مقام ومرتبہ معلوم
ہو جائے۔ سب سے پہلے ہم قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اولیاء
کرام کی عظمت وشان اور مقام ومرتبہ بیان کرتے ہیں۔
اولیاء اﷲ کی معرفت وپہچان
کس قدرافسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان اصلی اور نقلی گھی کی پہچان تو کر
لیتا ہے مگر اصلی ولی کی پہچان کرنے سے قاصر ہے۔ خالص اور ملاوٹی دودھ کی
پہچان تو کر لیتا ہے مگراصلی اور مصنوعی پیر کی پہچان میں فرق نہیں کر سکتا،
بے وفا اور وفادار دوست کی تو شناخت کر لیتاہے مگر بے دین اور دیندار مرشد
کے معاملے میں فرق نہیں کر سکتا تو آیئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اور
اولیاء کرام کے اقوال و احوال سے معلوم کرتے ہیں کہ اﷲ کے ولی(دوست) کی
کیاپہچان اورکیامقام ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ اپنے ولیوں کی شان اور مقام اس طرح بیان
فرمارہاہے:
اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ
یَحْزَنُوْنَoاَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo
ترجمہ: ’’ بلاشبہ اﷲ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے اور وہ غمگین ہوں گے اور
(اﷲ کے ولی وہ ہیں) جوایمان لائے اور پرہیز گاری اختیار کی‘‘۔(سورۂ
یونس:آیت62-63)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اس طرح بیان فرمائی کہ اﷲ کا
ولی (اصلی دوست)وہ ہو تا ہے جو صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ متقی و پرہیز
گار بھی ہو۔ قرآن وسنت کے احکامات وتعلیمات کا پابند ہو۔ اﷲ اور اس کے رسول
ﷺکا اطاعت گزارو فرمانبردار ہو اور اﷲ کے ولی وہ ہوتے ہیں جو ساری ساری رات
اﷲ کی عبادت وبندگی اورتوبہ واستغفارمیں گزار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جتنے
بھی اولیائے کاملین اور مشائخ کرام گزرے ہیں اورجوحیات ہیں ان کے مزارات،
آستانوں ،خانقاہوں اوررہائش گاہوں کے ساتھ مساجدضرور ہیں جو اس حقیقت اسلام
کو واضح اورآشکارکررہی ہیں اوراس بات کا ثبوت اوردلیل ہیں کہ اﷲ کے ولی
اوردوست ہر حال میں صوم وصلوٰۃ کی نہ صرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ان کے شب
وروزمسجداور مدرسہ میں بسرہوتے ہیں۔
اولیاء اﷲ کی علامت……عبادت وریاضت
قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اورمقام کے بارے میں مزید ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا
وَّاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًاo وَالَّذِیْنَ
یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًاo
ترجمہ: ’’اور رحمن کے (مقرب)بندے وہ ہیں کہ جو زمین پر(عاجزی سے) آہستہ
چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل اُن سے ( کوئی ناگوار بات) کرتے ہیں تو کہتے ہیں
(تمھیں) سلام اور وہ جو اپنے رب کیلئے سجدے اور قیام میں راتیں گزار دیتے
ہیں‘‘۔
(سورۃالفرقان:آیت ۶۴۔۶۳)
اولیاء اﷲ کامقام اورشان یہ ہے کہ وہ نہ صرف عاجزی اورانکسارکے پیکرہوتے
ہیں بلکہ جب ان سے کوئی جاہل نارواگفتگوکرتا ہے یا ناشائستہ طرزعمل اختیار
کرتا ہے توبھی رحمٰن کے بندے ان سے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آتے
ہیں اوروہ راتوں کواﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت وبندگی کرتے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺنے اولیاء اﷲ کی پہچان اورشان بیان کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا کہ:
﴿اذا رء وا ذکر اﷲ۔ ﴾
ترجمہ: ’’ (اﷲ والوں کی پہچان یہ ہے کہ) ’’جب کوئی اُنھیں دیکھ لیتاہے
توانھیں خدا یادآجاتا ہے‘‘۔(الحدیث)
امام فخرالدین رازی شافعی (متوفیّٰ606ھ) امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ
کے عظیم اخلاق اوراعلیٰ سیرت وکردار کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں
کہ:
’’ایک مرتبہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کہیں تشریف لے جارہے تھے،
راستے میں زبردست کیچڑتھی۔ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکرسے کیچڑاُڑ کرایک شخص
کے مکان کی دیوارپرجالگی۔یہ دیکھ کرآپ بہت پریشان ہوگئے کہ اگرکیچڑ اکھاڑکر
دیوارصاف کی جائے توخدشہ ہے کہ دیوارکی کچھ مٹی بھی اتر جائے گی اوراگریوں
ہی چھوڑدیاجائے تودیوارخراب ہوتی ہے۔ آپ اسی پریشانی میں تھے کہ صاحب خانہ
کو بلایاگیا،اتفاق سے وہ شخص مجوسی(آگ پرست/غیرمسلم) تھااورآپ کامقروض بھی
تھا۔آپ کودیکھ کرسمجھا کہ شایداپنا قرض مانگنے آئے ہیں،پریشان ہو کرعذراور
معذرت پیش کرنے لگا۔آپ نے فرمایاکہ:
’’قرض کی بات چھوڑیں، میں تواس پریشانی وفکرمیں ہوں کہ تمھاری دیوار کو
کیسے صاف کروں،اگرکیچڑکھرچوں توخطرہ ہے کہ دیوارسے کچھ مٹی بھی اتر آئے گی
اوراگر یوں ہی رہنے دوں تو تمہاری دیوارگندی ہوتی ہے‘‘۔
یہ عظیم بات سن کروہ مجوسی بے ساختہ کہنے لگاکہ :
’’حضور!دیوارکوبعدمیں صاف کیجئے گا،پہلے مجھے کلمہ طیبہ پڑھاکر میرا دل پاک
وصاف کر دیں۔چنانچہ وہ مجوسی آپ کے عظیم اخلاق وکردارکی بہ دولت مشرف بہ
اسلام ہوگیا‘‘۔(تفسیرکبیر:جلد1،صفحہ204/تذکرۃ المحدثین:صفحہ55)
اولیاء اﷲ……پیکرعلم وعمل
یعنی اﷲ کا مقرب وبرگزیدہ ولی اوردوست وہ ہے جس کی نورانی اورپرشکوہ صورت
اورعظیم سیرت وکردار کو دیکھ کر غافل انسان بھی اﷲ کے ذکر میں مشغول ہو
جائے اور جس کی نگاہ ولایت سے مردہ دلوں کو نئی زندگی مل جائے۔
نگاہِ ولی میں وہ تاثیردیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
حضرت ابوعمروبن النجیدعلیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ صوفی وہ ہے جس کو جانوروں
کی آوازمیں…… ہر ایک سوزوساز میں…… چڑیوں کی چہک میں…… پھولوں کی مہک میں……
سبزے کی لہک میں…… جواہرات کی دمک میں…… سورج کی روشنی میں…… سماء و سمک کی
بلندی میں…… درختوں کے رنگ میں……شیشہ وسنگ میں …… آہنگ ورباب وچنگ میں……
پتھر کی سختی میں…… خوشحالی اور تنگ دستی میں …… زمین کی وسعت ونرمی میں……
آگ کی گرمی میں…… دریا کی روانی میں…… آسمانی ستاروں کی چمک میں …… پہاڑ کے
اُبھاروبلندی میں…… بیابان ومرغزارمیں…… خزاں وبہار میں ایک نادیدہ وعظیم
ہستی (اﷲ جل شانہ) کا جلوہ نظر آئے۔
اولیاء کرام کی عظمت وشان
پوری انسانیت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد اولیاء اﷲ(صوفیائے
کرام)ہی وہ لوگ ہیں جنھیں نہ تواپنے ماضی کا غم ہے، نہ حال اور نہ مستقبل
کی فکر ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ
یَحْزَنُوْنَo﴾
ترجمہ: ’’(کان کھول کرسن لو)بلاشبہ اﷲ کے ولیوں کو نہ تو کوئی خوف ہے اور
نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے‘‘۔(سورۂ یونس: آیت62)
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اولیائے کرام کا مقام ومرتبہ اتنا عظیم الشان اوربلند
ہے کہ انبیاء کرام اور شہداء کرام بھی ان کی تحسین کرتے ہیں۔ حضرت عمرفاروق
رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایاکہ:
ترجمہ: ’’اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض بندے ایسے بھی ہیں جونہ تونبی ہیں
اورنہ شہید لیکن اﷲ جل جلالہ کے نزدیک قیامت کے دن ان کاجودرجہ ہوگااسے
دیکھ کرنبی اور شہیدان کی تحسین کریں گے۔صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے پوچھاکہ
یارسول اﷲ ﷺ ہمیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپﷺنے فرمایاکہ یہ وہ لوگ
ہیں جو آپس میں محض اﷲ تعالیٰ کے واسطے محبت رکھتے ہیں نہ ان کاآپس میں
کوئی لین دین ہے اورنہ کوئی رشتہ ہے!اﷲ کی قسم!ان کے چہرے نورانی ہوں گے
اور وہ نورکے منبروں پربیٹھے ہوں گے، جب دوسرے لوگ ڈررہے ہوں گے توانہیں
کوئی ڈر نہیں ہوگااورجب دوسرے لوگ غمگین ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہیں
ہوگا‘‘۔(سنن ابی داؤد،مشکوٰۃ المصابیح)
اولیاء اﷲ کاصفاتِ خداوندی کا مظہرہونا
اﷲ والوں سے تعلق رکھنا،ان سے عقیدت ومحبت رکھنا ، ان کی صحبت اختیار
کرنااوران کے دامن سے وابستہ ہونایعنی بیعت ہونااﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں
پہنچنے اور اﷲ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اﷲ والوں والوں سے عداوت
ودشمنی رکھنا درحقیقت اﷲ سے لڑائی کرنا ہے۔ اولیاء اﷲ کو بارگاہِ رب العزت
میں کس قدربلندمقام اور قرب حاصل ہے۔ اس کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ
عنہ، رسول اﷲ ﷺ سے ایک حدیث قدسی روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ:
ترجمہ: ’’ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے میرے ولی(دوست) سے دشمنی
(وعداوت) اختیارکی تو اس کے خلاف میرا اعلانِ جنگ ہے، اگرمیرا بندہ ( عبادت
وریاضت کے ذریعے) میراقرب حاصل کرنا چاہے تو(فرائض کی ادائیگی کے بعد) اگر
میرا بندہ متواتر اور مسلسل نوافل (نفلی عبادت) کے ذریعے میرا قرب حاصل کرے
تو آخر کارمیں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہو
ں تو میں اس کے کان (قوتِ سامعہ) بن جاتاہوں جن سے وہ سنتا ہے…… میں اس کی
وہ آنکھیں (بینائی) بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتاہے ……اور میں اس کاوہ ہاتھ
بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتا ہے…… اورمیں اس کاوہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ
چلتا ہے…… اور اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرتاہے تومیں اسے ضرورعطا کرتا ہوں
اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تواسے ضرورپناہ دیتاہوں‘‘۔
(صحیح بخاری: جلد۲ صفحہ ۹۶۳،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
اولیاء اﷲ کے مقام ومرتبہ کے حوالے سے علمائے کرام نے مذکورہ آیت واحادیث
حدیث سے مندرجہ ذیل نکات اخذکئے ہیں۔
O جن بندگانِ خداکواﷲ تعالیٰ کی معرفت وقرب اور مقامِ ولایت حاصل ہوتا ہے،
انھیں ہر طرح کے رنج وغم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے جو کہ دنیاوآخرت
میں کامیابی وکامرانی کی بشارت ونویدکی صورت میں ہو تا ہے۔
O اﷲ تعالیٰ کے ولیوں سے (بغض وحسدکی بناء پر)عدوات ودشمنی رکھنے والوں سے
اﷲ تعالیٰ کا اعلانِ جنگ ہے۔
O تقاضائے محبوبیت اورقرب کی بنا پراﷲ تعالیٰ اپنے ولیوں اوردوستوں کو اپنی
بعض صفات کا مظہر کامل بنا دیتاہے اور انھیں اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے،تب
ہی ان سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے ،جس سے مسلمانوں کاایمان ویقین تقویت
پاتاہے۔
O اولیاء اﷲ جب درجہ قرب اورمحبوبیت پر فائز ہوجاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کے
کسی سوال اور دعا کورد نہیں فرماتابلکہ ان کاہرسوال اوردعاکو قبول فرمالیتا
ہے۔
O قدرت الٰہی ہروقت انھیں اپنے حفظ وامان میں رکھتی ہے۔
O اولیاء اﷲ کو بارگاہِ خداوند قدوس میں اتنا قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ ان کے کان،ان کی آنکھیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں بن جاتا ہے اور
اگر وہ اﷲ کی بارگاہ میں کسی چیز کا سوال کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ انہیں کبھی
مایوس نہیں فرماتا۔
علم و عمل کے فروغ میں صوفیاء کرام کا کردار
صوفی،شیخ اورپیرومرشد کیلئے صاحب ِعلم ہونابہت ضروری ہے اورعلم وعمل دونوں
آپس میں لازم وملزوم ہیں۔صوفی(پیرومرشد)کوکتاب وسنت کاعالم وعامل ہونا
چاہئے تاکہ وہ شریعت وطریقت کی روشنی میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کرسکے
کیونکہ علم وعمل کے بغیرشریعت وطریقت کی مسند پر بیٹھنے والا لوگوں کی صحیح
رہنمائی نہیں کرسکتا۔ اس لئے صوفیاء کرام نے علم ظاہری وباطنی کے حصول میں
اپنی زندگیاں وقف فرمائیں اور ساری زندگی علم وعمل اور شریعت وطریقت پر نہ
صرف خودگامزن رہے بلکہ لوگوں کو بھی شریعت و طریقت کاراستہ دکھایااورانھیں
سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی۔
صوفیاء کرام نے ہردور میں رشدو ہدایت ،شریعت وطریقت اور علم وعرفاں کے وہ
چراغ روشن کئے کہ جن کی ضیاء پاشیوں سے اکناف عالم اور قلوبِ بنی آدم روشن
سے روشن ترہو گئے اور ہزاروں لوگوں نے ایمان وایقان اورعلم وعرفاں کی
لازوال دولت حاصل کی۔ صرف چندمثالیں پیش خدمت کررہاہوں۔
O حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ ۱ﷲعلیہ 488 ہجری/ 1095ء میں 18؍
برس کی عمر میں تحصیل علم و معرفت کی غرض سے بغداد شریف میں جلوہ گر ہوئے
اور تادمِ وفات یہی شہر آپ کی علمی و روحانی سر گرمیوں کامرکزبنا رہا ۔ آپ
نے اپنے وقت کے جید علماء و مشائخ کرام سے علوم ظاہری و باطنی حاصل کئے
اورحضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اﷲ علیہ کے ہاتھ پربیعت کا شرف حاصل
کیااور علوم و ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد اصلا ح و تبلیغ کی طرف متوجہ
ہوئے اور مسند شر یعت اور مسند طر یقت دونوں کو بہ یک وقت زینت بخشی
اورساری زندگی مخلوقِ خدا کورشدوہدایت کاراستہ دکھاتے رہے۔
O سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے مقتدائے
زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ ( علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ) کی
تعلیم حاصل کی۔ آپ نے علم ظاہری کی تحصیل میں تقریباً چونتیس(34)برس صرف
کئے اورعلم معرفت وسلوک کے حصول کے لئے آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی
رحمتہ اﷲ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے
اور آپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے اورروایات میں آتا ہے کہ
اسی سلسلہ رشدوہدایت کو قائم رکھتے ہوئے آپ نے نوے(90) لاکھ غیر مسلموں کو
کلمہ طیبہ پڑھا کر اسلام کی دولت سے نوازا۔
O روایات میں آتا ہے کہ حضور سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رضی اﷲ عنہ نے چالیس
سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی اور حضورامام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ
عنہ نے بھی چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی اورامام اعظم
کوقرآن کریم سے اتنی محبت تھی کہ ماہ رمضان المبارک میں۶۱(اکسٹھ)قرآن پاک
ختم کرتے۔ ایک قرآن پاک دن میں،ایک قرآن قیام اللیل میں اور ایک قرآن پاک
نمازِتراویح میں پڑھتے تھے۔
O امام المحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری رضی اﷲ عنہ اپنی مایہ
نازتصنیف’’ صحیح بخاری‘‘ میں ایک ایک حدیث کو درج کرتے وقت تازہ غسل فرماتے
اور خوشبو لگا کر پھر حدیث شریف لکھتے تھے۔۔۔ اسی طرح امام مالک رضی اﷲ عنہ
کودرس حدیث دیتے وقت بچھو نے بارہ مرتبہ ڈسا لیکن آپ نے درس حدیث کو پھر
بھی نہیں چھوڑا اور اسی وجہ سے آپ کی موت واقع ہو گئی۔(تذکرۃ
المحدثین،فریدبک اسٹال لاہور)
O حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و
سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت
اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام
میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ
نبوی ﷺ کے مکمل نمونہ تھے ۔
حضورخواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اﷲ تعالیٰ اپنے کسی
بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ
اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے
تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کا
مظہر بن جائے‘‘۔
اتباعِ شریعت وطریقت میں صوفیاء کاکردار
جو شخص کواﷲ کامقرب بندہ اوراس کاولی بنناچاہتاہے تواُسے چاہئے کہ وہ ظاہرو
باطن میں قرآن وسنت کی مکمل اتباع کرے کیونکہ دین و دنیامیں کامیابی
کاانحصار حضور اکرمﷺ کی مکمل اتباع میں ہے۔اولیائے کرام علم وعمل،حسن
ِاخلاق، عبادت و ریاضت اورزہدوتقویٰ کے عظیم پیکر، عجزونیازاورفقر واستغناء
کا مظہر، صبرو استقامت اورتحمل و توکل کا مصدر،شانِ درویشی اوربے نیازی سے
مزین اور شریعت طریقت کے مثالی محافظ وپاسبان ہوتے ہیں۔
O حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی زندگی میں
پچپن(55) حج وعمرے ادا کئے اورآپ نے جب آخری مرتبہ حج اداکیا تو کعبہ کے
دربان کو اپنا نصف مال دے کربیت اﷲ شریف کے اندر رات بسر کرنے کی سعادت سے
شرف یاب ہوئے۔کعبۃاﷲ کے اندرداخل ہوکرآپ نے آدھاقرآن اپنی ایک ٹانگ پرکھڑے
ہوکرپڑھا اورآدھاقرآن دوسری ٹانگ پر کھڑے ہوکر پڑھا۔پھر اپنے رب تعالیٰ سے
یوں دعاکی:
’’اے میرے رب!میں نے تیری معرفت کا(اپنی بساط کے مطابق)حق ادا کرنے کی سعی
بلیغ کی،جیسا کہ تیری عبادت کا حق ہے سو تو میری خدمت کی کمی کو کمالِ
معرفت کی وجہ سے بخش دے‘‘۔ کعبۃ اﷲ کے اندرسے آواز آئی کہ تم نے اچھی طرح
معرفت حاصل کی اورخدمت ِعبادت میں خلوص کا مظاہرہ کیا، ہم نے تم کو بھی بخش
دیاہے اور قیامت تک جو تمھارے مذہب (حنفی) پرعمل پیرا ہوگااس کو بھی بخش
دیا ہے‘‘۔
( الخیرات الحسان:صفحہ122،علامہ ابن حجرمکی شافعی ،مطبوعہ مدینہ پبلشنگ
کمپنی کراچی)
O علامہ ابوالقاسم قشیری علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ’’ خدا کی بندگی کو
لازم پکڑنا شریعت ہے اوراس کی ربوبیت کا مشاہدہ کرنا حقیقت ہے، لہٰذا جو
شریعت وطریقت کی تائید کے بغیر ہو وہ مردود(نامقبول)ہے اور جس حقیقت کے
ساتھ شریعت کی قید نہ ہو وہ لاحاصل ہے‘‘۔
O امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ تصوف احکام شریعت
پر عمل کرنے کی بنیاد ہے۔ہر صوفی عالم ہوتا ہے لیکن ہر عالم صوفی نہیں ہو
تا ہے․․․․اسی طرح حضرت خواجہ عبیداﷲ احرار فرماتے ہیں کہ شریعت احکام کے
ظاہری احوال کا نام ہے اور انہی احکام پر دلجمعی کے ساتھ عمل کرنا یہ طریقت
ہے اور اس دلجمعی میں مہارت وریاضت کانام حقیقت ہے۔
O علامہ قشیری علیہ الرحمہ اپنے رسالہ میں حضرت بایزیدبسطامی رحمتہ اﷲ علیہ
کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’اگر تم کسی مردکو صاحب کرامت دیکھو حتی کہ وہ
ہوا میں بھی اُڑتا نظر آئے لیکن پھر بھی تم اس پراعتماد نہ کرو ،جب تک یہ
نہ دیکھ لو کہ امر ونہی میں، احکامِ الہٰی کی پابندی میں اور شریعت کوادا
کرنے میں تم اس کو کیسا پاتے ہو؟۔
آفتابِ رشدوہدایت شہبازِطریقت حضرت خواجہ شاہ محمدسلیمان تونسوی رحمتہ اﷲ
علیہتعلیم وتدریس اورروحانی اصلاح وتربیت کے عظیم کام میں مدت العمرسرگرم
عمل رہے۔آپ نے ایک طرف تو صوفیاء کی اصلاح کی طرف توجہ دی اور دوسری طرف
علماءِ کرام کوبھی ان کاصحیح مقام ومرتبہ بتایا۔ آپ صوفیاء کودنیاداری سے
دینداری کی طرف بلاتے تھے اوران کوبتاتے تھے کہ کل تم کیاتھے اورآج تم کیا
ہوگئے ہو،تمہاری کوششوں اور عبادتوں کے مرکزکیوں تبدیل ہوگئے ہیں،تم نے دین
کی بجائے دنیاسے کیوں دل لگالیا،تم نے اپنے اعتقادات میں فساد کیوں
پیداکرلیا،صحیح مذہبی جذبہ پیداکرو کہ وہی سعادت دارین کاذریعہ ہے۔
شہبازِطریقت حضرت خواجہ شاہ محمدسلیمان تونسوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
کہ’’ایک غیرشرعی فعل(کاارتکاب کرنا) بندے کومرتبۂ ولایت سے نیچے پھینک
دیتاہے‘‘۔
خلق خداکی خدمت میں صوفیوں کا عظیم کردار
O حضور غوث اعظم سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر
مجھے دنیا کے تمام خزانوں کا مال اور دولت مل جائے تو میں آن کی آن میں سب
مال و دولت فقیروں، مسکینوں اور حاجت مندوں میں کو بانٹ دوں ……اور فرمایاکہ
امیروں اور دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے لیکن
حقیقی مسرت اور سعادت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں کی ہم نشینی کی
آرزو رہتی ہے۔
O تاجدارِولایت حضو ر دا تا گنج بخش سیدعلی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ اپنی شہرۂ
آفاق تصنیف’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ میں عراق میں
دنیاکو حاصل کرنے اوراسے (حاجت مندوں میں)لٹادینے میں پوری طرح مشغول تھا،
جس کی وجہ سے میں بہت قرض دار ہو گیاجس کسی کوبھی کسی چیزکی ضرورت ہوتی،وہ
میری طرف ہی رجوع کرتااور میں اس فکرمیں رہتا کہ سب کی آرزوکیسے پوری کروں۔
اندریں حالات ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھاکہ اے عظیم فرزند! اگر ممکن
ہوتودوسروں کی حاجت ضرور پوری کیا کرومگر سب کیلئے اپنادل پریشان بھی نہیں
کیاکرو کیوں کہ اﷲ رب العٰلمین ہی حقیقی حاجت رواہے اوروہ اپنے بندوں کے
لئے خودہی کافی ہے‘‘۔
O حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہغرباء اور مساکین کے لئے
سرا پار حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ
سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے
رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے
پیش کئے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔
سخاوت و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا
تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متوا ضع
تھے۔
آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے
ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے وسیع المشرب اور نہایت دردمند
انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین ،
معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند
سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین ایسی مہمان نوازی اور
تواضع پیدا کیاکریں۔
O شہبازطریقت حضرت خواجہ شاہ محمدسلیمان تونسوی رحمتہ اﷲ علیہ نے جب تونسہ
شریف میں مستقل سکونت فرمائی تواس وقت حالت یہ تھی کہ رہنے کیلئے کوئی مکان
نہ تھا ، فقط ایک جھونپڑی تھی،جس میں آپ فقروفاقہ سے شغل فرماتے تھے مگرکچھ
عرصہ کے بعد جب بڑے بڑے امراء، وزراء، نواب اور جاگیر دار آپ کی قدم بوسی
کیلئے حاضرہونے لگے توکچھ فتوح (نذرانوں)کاسلسلہ بھی شروع ہوگیا اوردنیاکی
ہرنعمت آپ کے قدموں میں آتی گئی،لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجوداستغناء کا
یہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ آپ کے ایک معتقد نواب صاحب نے درویشوں کیلئے بہت
بڑی جاگیرپیش کی۔ آپ نے فرمایا:
’’ہم اس جاگیرکوقبول نہیں کریں گے، کیونکہ یہ ہمارے مشائخ کی سنت کے خلاف
ہے‘‘۔
حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا کہ ’’حضور!(اپنے فرزند)صاحبزادہ گل محمد صاحب
کیلئے قبول فرمالیں‘‘۔
آپ نے فرمایاکہ:
’’صاحبزادہ گل محمدکوبھی اس جاگیر کی کوئی حاجت نہیں اگروہ درویشوں کے جوتے
سیدھے کرتارہاتواس کی خدمت کیلئے مقربان بہ طورِ خدمت گار مقرر ہوں گے‘‘۔
(تذکرۂ خواجگانِ تونسوی،نافع السالکین)
O شہبازطریقت حضرت خواجہ شاہ محمدسلیمان تونسوی رحمتہ اﷲ علیہ کے قائم کردہ
آستانہ عالیہ سلیمانیہ میں ہزاروں طلباء ودرویش اورمہمان ومسافر
ہرروزلنگرسے کھانا کھاتے تھے۔کھانے کے علاوہ بھی ضروریاتِ زندگی کی
ہرچیزموجودہوتی تھی اوربیماری کی حالت میں ادویات بھی لنگرسے بلامعاوضہ
ملتی تھیں۔ایک مرتبہ لنگرخانے کے ایک باورچی نے عرض کی کہ: حضور!اس مہینہ
میں پانچ سوروپیہ صرف درویشوں کی دوائی پر خرچ ہوگیاہے۔ آپ نے
ارشادفرمایاکہ:
’’اگرپانچ ہزارروپے بھی خرچ ہوجائیں توبھی مجھے اطلاع نہ دی جائے، درویشوں
اور
طالب علموں کی جان کے مقابلہ میں روپے پیسے کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘۔
(بحوالہ تذکرہ خواجگان تونسوی)
تصوف! عین اسلام ہے
سبحان اﷲ،کتنی پیاری تعلیم اور کتنی عظیم روایت ہے، حقیقت میں یہی تصوف
اورطریقت کی تعلیم ہے ۔تصوف حسب ذیل اعمال وافعال کا نام ہے:
O تصوف، شریعت کے خلاف عمل کرنے کانہیں، شریعت کے مطابق عمل کرنے کا نام
ہے۔
O تصوف، ارکان اسلام(یعنی نماز، روزہ،حج،زکوٰۃ )کو پابندی سے اداکرنے اور
بجالانے کا نام ہے۔
O تصوف، دن رات اﷲ تعالیٰ کی عبادت وبندگی کرنے اوراس کی بارگاہ میں توبہ
واستغفار کرنے کا نام ہے۔
O تصوف ،مریدین سے مال ومتاع لینے کانہیں بلکہ حاجت مندوں کودینے کا نام
ہے۔
O تصوف! بندوں سے خدمات لینے کا نہیں مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا نام ہے۔
O تصوف ! مال ودولت جمع کرنے کا نہیں بلکہ مال و متاع ہمہ وقت اﷲ کی راہ
میں خرچ کرنے کا نام ہے۔
O تصوف! لوگوں کو دین و مذہب سے متنفراور دور کرنے کانہیں بلکہ اپنے عمل
وکردارسے لوگوں کودین ومذہب سے قریب اور مانوس کرنے کا نام ہے۔
O تصوف! شریعت سے جدا نہیں بلکہ عین شریعت ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق
زندگی گزارنا ہی تصوف وطریقت ہے۔
بعض ان پڑھ اورقرآن وسنت سے ناواقف حضرات شریعت وطریقت کے متعلق عام لوگوں
کو گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طریقت شریعت دونوں الگ الگ ہیں۔ اس ضمن
میں بعض جاہل اوربے علم پیرحضرات بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں اور پھر ان
باتوں کا سہار ا لیتے ہوئے نام نہادپیراورشیخ ارکانِ اسلام ، فرائض وواجبات
اور عبادات کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ان کے مریدین بھی ان کی دیکھا
دیکھی احکام شریعت سے غافل ہو جاتے ہیں اورایسے بے کارلوگوں کے اعمالِ بد
کی وجہ سے چندلوگ حقیقی اولیاء کرام اور ان کی کرامات کاانکارکربیٹھتے ہیں
اوراﷲ کے دوست منکرین کی طعنہ زنی کا سبب بنتے ہیں۔
پس قرآن مجید ، احادیث مبارکہ اوربزرگان دین کے اقوال اورحقائق ثابتہ کی
روشنی میں علم تصوف اور صوفیاء کرام کا مقام ومرتبہ روزِ روشن کی طرح واضح
اور ظاہرہو گیا ہے اوریہ بھی ثابت ہو گیا کہ علم تصوف اسلامی تعلیمات کے
عین مطابق ہے مگر آج بعض نام نہاد صوفیوں اور بے عمل وکردارمشائخ کی وجہ سے
نہ صرف حقیقی صوفیاکرام اور کامل مشائخ عظام کا مقام ومرتبہ نہ صرف مجروح
ہورہاہے بلکہ بے شمار لوگ اس عظیم علم اور اس کی مبارک تعلیمات سے نہ صرف
دور ہو گئے ہیں بلکہ وہ اس مبارک مشن کو نعوذباﷲ شرک اور بدعت سے تعبیر
کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے اور حقیقت وہ ہے جس کو ہم نے سطورِ
سابقہ میں ذکر کیا ہے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیا کرام کے مقام ومرتبہ اور علم تصوف کی حقیقت
وتعلیمات کو سمجھا جائے اوراس پر ہر ممکن عمل کرکے دارین کی سعادت حاصل کی
جائے،کیونکہ علم تصوف ،اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا نام ہے
اور یہی تقاضائے دین اور تقاضائے اسلام ہے۔ |