پرانے وقتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صرف چار عناصر سے مل کر
بنی ہے۔ زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور
زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات 108 عناصر
سے مل کر بنی تھی۔ پھر ان 108عناصر کی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ
کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM) سے مل کر بنے ہیں اور ان
عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔ اس کے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ
ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا
کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر
پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا
کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔ یہ معاملہ سائنسدانوں
کیلئے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں۔
لہذا ایک نئی اختراع سامنے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھرا جو
کہ لہر کے ذرات اور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا۔ مگر جب اس
الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ
الیکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle) ہے اور
یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو کہ اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے
اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹاین
کی مساوات E= MC2 بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے
عمل کہ تقویت دیتی ہے۔ سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے
میں یقینی طور پہ کامیاب ہوئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر
اس کائنات میں جاری و ساری ہے ۔ جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور
پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
یہ تو بات ہو رہی تھی ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق
سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں
لاکھڑا کیا۔ اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے نفس کو اپنی
تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی اور انہوں
نے اپنی توجہ اپنے اندر مرکوز کر دی جس کے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے
طریقہ کار دریافت کیے تا کہ اپنے اندر کا سفر کر کے اس اکائی (جز) کو تلاش
کیا جا سکے جو کہ ان کو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے۔ اس کوشش نے علم
نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی۔ تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح
سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر
مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و
اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے
نفس کو تحقیق کیلئے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں
نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور
منسلکہ رشتہ ہے۔ مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک
اہم گہرا احساس دلانے والے وجود یعنی خودی ( میں،SELF) سے پڑا اور یہ اخذ
کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی
کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلیٰ حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا
اس کائنات میں نفوذ ہے۔ اب ان تحقیقات مراقبہ اور سائنس میں کبھی کبھی ہم
آہنگی ہونے کے ممکنات موجود ہیں۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق
حس آگاہی کے۔ یہ ایک اعلیٰ مطلق خبر آگاہی جس کا ہر طرف نفوذ ہے اور یہی وہ
اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے (
اللہ نور السمٰوات ولارض) ( ھو اول و آخر ظاہر و باطن) کبھی ہم اپنی ذات (خودی)
سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں (من عرفہ نفسہ
فقد عرفہ رب)۔ (یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ اس درجہ کے احساس خود شناسی
پہ وحدت الوجود کا مغالطہ نہ ہو، اگلی کسی تحریر میں اس فلسفہ کو بھی بیان
کردوں گا)۔ مراقبہ ایک عمل ہے جو اپنی گہری حالتوں میں کسی بھی شخص کیلئے
وجود حقیقی سے روابط کا ذریعہ بنتا ہے۔ (جاری) |