اصطلاحات وِفاق
الشیخ ولی خان المظفر
جَامِعَۃُٗ:اسم فاعل کا صیغہ ہے ، بمعنی جمع کرنے والی۔ لیگ اور رابطہ کے
معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (جامعۃ الدول العربیۃ:عرب لیگ)سید جمال الدین
افغانی رحمۃ اﷲ علیہ کے پین اسلام ازم کو عربی میں (الجامعۃ الاسلامیۃ)
کہتے ہیں۔ یہ مادہ (ج۔م۔ع)باب افتعال، تفعل، تفعیل، اِفعال، مفاعَلہ، تفاعل
سے ان ابواب کی خاصیات کے مطابق معنی دیتا ہے۔
جامعہ کے فاضل کو دی جانے والی سند کو عرب دنیا میں شہادۃ العالِمیۃ یا
شھادۃ الماجستیر کہا جاتا ہے۔ماجستیر ماسٹر کی معرب شکل ہے جس کے معنی عالم
کے ہیں۔ اسی لیے عربی میں اسے شہادۃ العالمیۃ کہتے ہیں یعنی عالِمیت (بکسر
اللام قبل المیم) کی سند۔ اب اس کے استعمال کے متعلق اگر آپ کھوج لگا لگا
کر معلوم کرنا چاہیں توغالباً سب ہی سے شہادۃ العالَمیۃ (بفتح اللام) اداء
کرتے ہوئے سنیں گے۔جس کے معنی ہوں گے بین الاقوامیت کی سند۔ جو صریح غلط ہے
اور یہاں ہرگز یہ معنی مقصود نہیں۔
بہرحال جامعات/یونیورسٹیزمیں ڈگری آف ماسٹر/شہادۃُالعالمیۃ کے بعد ایم۔ فل/تخصص،
یعنی اسپیشلائزیشن اور اس کے بعد ڈاکٹریٹ /دکتوراہ (معرَّب) کی سند دی جاتی
ہے۔ ان میں تخصص کی سند کے حوالے سے ہماری جامعات میں تخصص في الفقہ
الإسلامي…… في الأ دب العربي …… في الحدیث النبوي صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کی اسانید کا تقریباً رواج ہے۔البتہ دکتوراہ کی طرف ابھی تک وفاق المدارس
سے ملحقہ جامعات میں باقاعدہ نظام نہیں چلا ہے،جس کے لیے وفاق لائحہ عمل
تیار کرہا ہے۔ اسی طرح کالج کو عربی میں کُلّیَّۃُٗ کہتے ہیں،لیکن ہمارے
یہاں دینی اداروں میں مدرسہ اور جامعہ کے علاوہ دیگر الفاظ کا استعمال نہ
ہونے کے برابر ہے۔لفظ رَوْضَۃُٗ کچھ نہ کچھ استعمال ہوتا ہے، مگر اس کی جگہ(
اِقْرَأْ )نے لے لی ہے ۔ اب ہر جگہ رَوضۃ الأطفال کے دیکھا دیکھی اس طرح کے
ادارے کھل رہے ہیں۔ مگر جہاں ان کے ناموں میں رَوْضَۃ کو قائم رکھ کر اس کے
لاحقہ سابقہ میں ردّوبدل کرکے نئے نام رکھنے چاہیے تھے۔ وہاں ہوا یہ کہ کم
فہمی کی بناء پر اقرأ کو باقی رکھ کر اس سے آگے کے دونوں کلموں میں تبدیلی
کی جاتی ہے۔ لہذا عدم واقفیت کی وجہ سے روضۃ کے لیے ہمارے یہاں( اِقْرَأْ )کا
لفظ استعمال ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ روضۃ القرآن کے بجائے ایک مدرسے کا
نام اِقرأ ُ القرآن (مرکب اضافی)ہے جو عربی قواعد کے اعتبار سے بالکل خطا
ہے۔ جیسا کہ اہل علم اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔
مگر اب یہ لفظ ( اِقْرَأْ )زبان پر اس طرح چڑھ گیا ہے۔ کہ یہ ایک خاص قسم
کے مدارس کی نئی پود کے لیے باقاعدہ اصطلاح کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
حالانکہ اگر صحیح سمت کی طرف اسے لے جایا جائے تو اس میں بظاہرکوئی دِقت
درپیش نہیں ہوگی۔ مثلاً : اقرأ روضۃ الأطفال،الفاروق روضۃ الأطفال، المحمود
روضۃ الأطفال، القاسم روضۃ الأطفال، المدنی روضۃ الأطفال، المسلم روضۃ
الأطفال، الحجاز روضۃ الأطفال، الحرمین روضۃ الأطفال، الخیر روضۃ الأطفال،
الأشرف روضۃ الأطفال، الحق روضۃ الأطفال، السلیم روضۃ الأطفال، المظفر روضۃ
الأطفال وغیرہ وغیرہ ۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ دھیرے دھیرے درست سمت پر رواں
دواں ہوجائے گا۔ إن شا ء اﷲ تعالیٰ۔
یونی ورسٹی:
یہاں تعلیمی اداروں کی تاریخ وتعارف پر ہم ڈاکٹر مبارک علی کی تحقیق کچھ
اختصار کے ساتھ افادۂ عام کے لیے پیش کرتے ہیں:
’’ یورپ اور ایشیا کی ابتدائی تہذیبوں میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہوتاتھا
،تعلیم ، استاذ اور شاگرد کے رشتے کے ذریعے دی جاتی تھی ، طالب علم کسی
استاذ کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور اس سے علم حاصل کر تے تھے ، قدیم یونان
میں سقراط کا طریقۂ کا ریہ تھا کہ وہ نوجوانوں سے مکالمہ کرتاتھا ، ان سے
سوالات پوچھا کر تاتھا ، اور گھوم پھر کر تعلیم دیاکرتاتھا ، اس ذریعۂ
تعلیم میں تبدیلی لا نے والا اس کا شا گرد افلاطون تھا کہ جس نے ایتھنز شہر
سے باہر درختوں کے جھنڈ میں اکیڈمی نامی تعلیمی ادارہ کی ابتداء کی ، ایک
لحاظ سے اسے قدیم یونیورسٹی کہاجاسکتاہے ۔ اسی اکیڈمی میں ارسطو نے اس کے
شاگرد کی حیثیت سے بیس سا ل تعلیم حاصل کی ۔اکیڈمی کے تعلیمی معیار کا
اندازہ اس سے ہوتا ہے کہانہوں نے آگے چل کر یا بعد میں اپنے استاذ کے فلسفہ
پر گہری تنقید کی اور علمی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا ۔
بعدمیں ارسطور نے اپنا ادارہ لے سیم (Lycium ) کے نام سے قائم کیا، اکیڈمی
اور لے سیم دونوں ادارے علمی تحقیق اور خاص طور سے فلسفہ کے مراکز رہے ۔
رومیوں کے زمانہ میں بھی ہمیں جو تعلیمی اداروں کا ذکر ملتاہے ، جہاں
خصوصیت سے فن خطابت ،گرامر ، منطق اور قانون کی تعلیم دی جاتی تھی ، باقی
دوسرے علوم کے لیے اب تک اہل حرفہ کی برادریاں تھیں ،جہاں استاذ شاگردوں کو
انجینئرنگ ، ریاضی ، خطاطی ، اور دوسرے فنون اور علوم میں تربیت دیاکرتے
تھے ، یہ سلسلہ یورپ میں قرونِ وسطی تک جاری رہا ، لیکن باقاعدہ یونیورسٹی
کی ابتداء ۱۰۸۸ ء میں اٹلی کے شہر بولونیا میں ہو ئی ۔ اس کے ابتدائی زمانہ
میں داخلے کا کوئی خاص نظام نہیں تھا ،اس لیے ہر عمر کے لوگ داخلہ لے سکتے
تھے ، ذریعۂ تعلیم لاطینی زبان تھا ، جویورپ کی علمی زبان تھی ، اس کے شروع
زمانہ میں یہاں قانون کی تعلیم دی جاتی تھی ، کیوں کہ اس کی بیوروکریسی اور
معاشرہ میں ضرورت تھی ،بعد میں یہاں الہیات ، گرامر ، فن خطابت ، اور منطق
کا اضافہ ہوا۔
اس یونیورسٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا سارا انتظام طالب علم کیاکرتے تھے
،وہی اساتذہ کو تنخواہ دیاکرتے تھے ، اگر اساتذہ کو رخصت پر جاناہوتاتھا ،
اس کی اجازت طالب علموں سے لیا کرتے تھے ،اگر کوئی استاد وقت پر نہیں
آتاتھا یا زیادہ چھٹیاں کر تاتھا تو اس کے پیسے کٹ جایا کرتے تھے ،اس کے
علاوہ کلاسوں کے لیے عمارات کرایہ پر لیتے تھے ،ا س وقت تک ہاسٹل نہیں تھا
، اس لیے شہر میں کرائے کے کمروں میں رہتے تھے ، اگر عمارت کے مالکان کرایہ
بڑھاتے ، یا ان کے کھانے کے نرخوں میں اضافہ ہوتاتھا تو وہ ہڑتال کرتے تھے
اور اس ذریعہ سے اپنے مطالبات منوایا کرتے تھے ۔
یونیورسٹی میں سا ل کے آخر میں امتحان ہوا کرتے تھے ، یہاں طالب علموں
کاعمل دخل نہیں تھا اور یہ استاد کی ذمہ داری تھی کہ وہ شاگردوں کی لیاقت
کے مطابق انہیں نمبر دے ،ڈگری دینے کا رواج بھی یہاں سے ہی شروع ہوا ،بعد
میں کورسز کی مدت کا تعین بھی کیا گیا۔
اس کے مقابلہ میں پیرس یونیورسٹی کا انتظام طلباء کے پاس نہیں تھا ، بلکہ
یہاں اساتذہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ یونیورسٹی کے انتظام کو دیکھیں ،یہاں
تنخواہ بھی اساتذہ کو اس فنڈ کے ذریعے دی جاتی تھی جو طلباء کی فیسوں سے
جمع ہوتاتھا ۔
بعد میں اس ماڈل پر آکسفورڈ، کیمبرج ،پراگ اور کرکوکی یونی ورسٹیاں قائم
ہوئیں ، چوں کہ ان یونیورسٹیوں میں الہیات یا تھیالوجی اہم مضامین تھے ، اس
لیے ان کو پوپ سے چارٹر لینا ہوتاتھا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ڈگریاں
پورے یورپ میں تسلیم کی جاتی تھیں۔
ڈگریوں میں بیچلر یا بی۔ اے ، ایم ۔اے ، پی ۔ایچ ۔ ڈی یا ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں
نہیں تھیں ، بولونیا یونیورسٹی نے قانون اور بعد میں طب کے شعبہ جات میں
شہرت حاصل کی ، جب کہ پیرس کی یونیورسٹی الہیات کے مضمون میں مشہور تھی ۔
یونیورسٹی کا نصاب محدود تھا ، استاد کو چیلنج نہیں کیاجاتاتھا ۔ امتحان
میں نصاب کی کتابوں کو رٹ کر امتحان پاس کیا جاتاتھا۔ اس لیے ذہین اور قابل
طالب علموں کے لیے اس میں ترقی کر نے اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی کم تھے ۔
نصاب میں اس وقت بنیادی تبدیلی آئی ،جب اٹلی میں ریناساں تحریک کی ابتداء
ہوئی اور اس نے انسانیت دوست یا (Humanists)دانشوروں کے گروہ کو پیدا کیا،
انہوں نے نصاب کی اس خرابی کو محسوس کرتے ہوئے ،اس میں جن نئے مضامین کی
ابتداء کی ، ان میں فلسفہ ،ریا ضی ،موسیقی ، تاریخ ،ادب اور جغرافیہ شامل
تھے ، اس وجہ سے انہیں اب ہیومنیٹز (Humanities ) کہاجاتاہے،ان علوم کی وجہ
سے یونیورسٹی میں تبدیلی آئی اور یہاں سائنس اور سماجی علوم میں تحقیق کی
ابتداء ہوئی ۔
اب تک یورپ کی یونیورسٹی مذہب کے زیر اثر تھی اور اس کی وہی حیثیت تھی کہ
جو ہمارے ہاں مدرسہ کی ہے ، مگران علوم کونصاب میں داخل کرنے کے بعد اس کے
کریکڑمیں تبدیلی آئی اور یہ جدید علمی مدرسہ کی شکل میں ابھرے ۔
اس کے بعد یورپ میں یونیورسٹیوں کا جال پھیل گیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب
یورپ کے مہم جو نئے جغرافیائی راستے دریافت کررہے تھے، نئے تجارتی رشتے غیر
ملکوں سے قائم ہورہے تھے ،ان کا معاشرہ بدل رہاتھا اور اس تبدیلی میں ان کی
یونیورسٹی کا بڑا اہم حصہ تھا ۔
آگے چل کر جدید یونیورسٹی کی تشکیل میں جرمنی کا کردار اہم ہے ،جس نے
یونیورسٹی میں ہر مضمون کے علیحدہ شعبہ کی ابتداء کی، سیمینار اور سمسٹر
شروع کیا اور تحریری وزبانی امتحان کے رواج کو شروع کیا، اس ماڈل کو یورپ
اور امریکا میں اختیار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاں یونیورسٹیاں قائم کیں ،
جوآج بھی علمی تحقیق کے مراکز ہیں ۔‘‘ (جاری ہے) |