جدید طرز زندگی اب لوگوں میں ذہنی انتشار یا انحطاط کا
سبب بن رہا ہے،برطانوی طبی تحقیق کے مطابق موبائیل، کمپیوٹر، کیمیکلز اور
برقی مصنوعات قبل از وقت ذہنی انتشار اور انحطاط کا سبب ہے۔بورن ماوتھ
یونیورسٹی کے پروفیسر کولن پریچ ہارڈ مطابق اس سے شرح اموات میں اضافہ
ہورہا ہے اس کی وجہ ماحولیاتی اور معاشرے میں آنے والی تبدیلی ہے۔تیس برس
کے دوران ، موبائیل، کمپیوٹر، مائیکرو ویو، ٹی وی، اور مواصلاتی ذرائع میں
چار فیصد اضافے سے دماغی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ یہ خیال بھی تیزی سے
بڑھ رہا ہے کہ جدید طرز زندگی انسانی نسل میں ذہانت کو کم کررہی ہے کیوں کہ
اپنی زندگی کو حالات کے مطابق ڈھال لینے افراد اب قدرتی جینز پر زیادہ
انحصار نہیں کرتے۔ اس بارے میں ایک نئی تھیوری سامنے آئی ہے۔ جس میں دعویٰ
کیا گیا ہے کہ سست مگر یقینی طور پر ہماری انٹیلیکچوئل اور جذباتی صلاحیتیں
زندگی آسان ہوجانے کے بعد ختم ہورہی ہیں۔ کیلی فورنیا میں سٹیفورڈ
یونیورسٹی کے ایک امریکی ڈیولپمنٹل بائیو لوجسٹ پروفیسر جیرالڈ کریب ٹری کے
مطابق صلاحیتوں کے حوالے سے ہمارے الٹے سفر کا آغاز ریئلٹی ٹی وی کی آمد سے
بہت قبل ہوچکا تھا۔ انہیں یقین ہے کہ اس کا آغاز زراعت اور معاونتی شہری
معاشرہ کی ترقی سے ہوچکا تھا جس نے قدرتی انتخاب کی صلاحیت کو کمزور کیا۔
پروفیسر کریب ٹری کے دعوے کی بنیاد فریکوئنسی کی ایک سٹڈی پر ہے جس میں
جینٹک کوڈ میں تباہ کن تبدیلی پائی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹیلیکچوئل
صلاحیت کے لئے 2000اور 5000 جینز کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے تخمینہ لگایا
کہ گزشتہ 3000 برسوں یا 20 نسلوں سے ہر شخص میں کم از کم دو جینز کم ہوجاتے
ہیں جو کہ دماغ کے لئے نقصان دہ ہیں۔جدید طرز زندگی نے انسانی سہل پسندی
میں اضافہ کردیا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ انسان کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے
جدید سائنس نے اپنے خود ساختہ خطر ناک مفروضات کے تحت کائنات اور اس سے
ملحقہ تمام عناصر کو اپنے شیطانی ذہن سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
سترہویں صدی میں حقیقت کو تلاش کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھنے والی سائنس فطرت
قدرت کی کرشمہ سازیوں تک ذہن انسانی اور آلات کے ذریعے پہنچتے پہنچتے اس
پوری کائنات کو تباہ کرچکی ہے جدید صنعتی ترقیات کے ذریعے یہ ماحول، پودے،
زمینی و سمندری مخلوقات، فضائ ہوا خلاء کا درجہ حرارت، فطری اور قدرتی
مناظر ،موسموں کی قدرتی ترتیب، حتی کہ انسان اس کے اعصاب سب شدید آلودگی کا
شکار ہو چکے ہیں یہ وہ کائنات ہی نہیں یہ وہ بحر و بر ہی نہیںاور یہ وہ ارض
و سمائ ہی نہیں جو سترہویں صدی تک محفوظ و موجود تھے اور حالت فطرت میں
اپنے شاہکار حسن کے باعث توجہ کا مرکز تھے جدید سائنسی ترقی نے لاکھوں
زمینی فضائی آبی مخلوقات کو ہلاک کردیا ہے سانس لینے کے لئے سائنس نے صاف
فضاء باقی نہیں رکھی امریکہ میں پالروں کے ذریعے مہنگے داموں تازہ ہوا خرید
کر استعمال کی جاتی ہے آسمان کی نیلاہٹ تک نظر نہیں آتی چاند اور ستارے،
مٹی دھول اور صنعتی دھوئیں کی آلودگی کے باعث ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوچکے
ہیں لاکھوں مخلوقات زہریلے صنعتی کیمیائی مرکبات کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹ
چکیں دریاو ¿ں ندی نالوں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا دنیا کی تاریخ میں
کبھی اتناکوڑا کرکٹ پیدا نہیںہوا جتنا گزشتہ پچاس برسوں میں پیدا ہوا ہے
ایسی ایسی بیماریاں جدیدسائنس نے تخلیق کیں جسے سن کر ہوش اڑ جاتے ہیں ان
بیماریوں کو پیدا کرنے کے بعد جدید مسلم مفکرین طنزاً ہمارے حکماء و
اطباءسے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس ان بیماریوں کا کیا علاج ہے؟ تم اندھیرے
میں ہو تم ترقی کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے موت تمہارے لئے تلخ مقدر ہے
لیکن اعتراض کرنے والے نہیں جانتے کہ حکیم اور اس کی حکمت جس عہد کے لئے جس
انسان کے لئے جس فطرت اور جس کائنات کی ضروریات کے لئے تھے نہ وہ کائنات
رہی ہے نہ وہ انسان رہا ہے۔ وہ انسان مرچکا ہے اور اس کائنات کو تباہ کرنے
کی تیاریاں روز افزوں ہیں، سترہویں صدی سے پہلے کی دنیا ایک حقیقی اور فطری
دنیا تھی، اس عہد کا انسان فطرت سے ہم آہنگ تھا اس کی صحت فطرت سے مطابقت
رکھتی تھی لہٰذا حکمت اس فطری کائنات اور فطری انسان کے لئے تھی جسے جدید
سائنس نے تباہ کردیا ہے ۔
جدید سائنس، جدید صنعت، جدید تہذیب اور جدید معیشت تجارت، ثقافت اور علم
میں انسان کہیں بھی سکون سے رہتا نظر نہیں آتا، وہ ہر وقت مصنوعی سہاروں کے
سارے زندگی بسر کر رہا ہے۔ مثلاً دنیا کی اکیس تہذیبوں کے کسی معاشرے میں
قبض کا [constipation] ایک عالمگیر بیماری کے طور پرکبھی وجود نہیں رہا
کیونکہ تمام تہذیبوں کے لوگ فطری زندگی گزارتے فطری غذا کھاتے فطری طریقے
سے سوتے جاگتے تھی سبزی دالیں ریشے والے اناج ہر تہذیب کے دسترخوان کی
مشترکہ میراث تھے لہٰذا نہ کبھی قبض بیماری کے طور پر متعارف ہوا نہ اسکے
علاج کے لئے اربوں کھربوں روپے کی دوائیں ایجاد ہوئیں قبض کا بنیادی تعلق
خوراک سے ہے اور خوراک کا تعلق طرزِ زندگی ،طرز حیات اور اس ما بعدالطبعیات
سے ہے جس کے زیر اثر خوراک استعمال کی جارہی ہے۔جدید طرزِ زندگی کا تقاضہ
Fast Food ہے جب عورت اور مرد دونوں کام پر چلے جائیںیا اگر عورت کام پر نہ
جائے تب بھی اس کے طرزِ زندگی میں ٹی وی، ریڈیو، اخبار، ویڈیو، کمپیوٹر
چیٹنگ، ہر وقت پیکر جمالیات نظر آنا، فون ، موبائل فون، SMS، باہر کھانا
کھاناEating out، ہوٹلوں سے روٹیاں اور کھانا منگوانا، راتوں کو جاگنے کے
باعث سستی کسل مندی لہٰذا ناشتے کا سامان بھی بازاری اشیائ پر مشتمل ہونا،
مہمانداری کی روایت کے خاتمے کے باعث مہمانوں کی آمد کو بوجھ سمجھنا اور
مہمانداری بھی بازار کے کھانوں سے کرنا، گھر میں کھانا نہ پکانااور اگر
پکانے کا وقت آئے تو بازاری مصالحوں سے کام چلانا، گھر میں لیموں نمک شکر
سے سکنجبین بناتے ہوئے شرمانا لیکن ملٹی نیشنل کمپنی کی جانب سے مہنگے ترین
شربت ”لیموں پانی” کے نام پر خریدنا، گھر میں سل بٹے پر چٹنی نہ پیسنا اور
فوڈ فیکٹری بھی استعمال نہ کرنا لیکن بازار سے سے ہرے مصالحے کی چٹنیاں
خریدنا، تازہ پھلوں کا شربت تیار کرنے کے بجائے بازاری شربت خریدنا جن میں
کینسر پھیلانے والے رنگ اور ان شربتوں کی عمر بڑھانے والے زہر کثرت سے شامل
ہوتے ہیں بھوکے بچوں کو پیٹ بھرنے کے لئے کھانا دینے کے بجائے برگر، پیزا،
بسکٹ، پاپ کارن، رنگز، رنگ بر نگے چپس، چیونگم، چاکلیٹ، پیٹس ، ٹاپ پاپ،
نگیٹس، آئس کریم، ساسیجیز [Sausages] تیار شدہ پراٹھے، پکے پکائے تیار
کھانے ،سوپ، تیار منجمد سبزیاں، تلی ہوئی منجمد پیاز، ملٹی نیشنل کمپنیوں
کا دودھ دہی جس میں نہ خوشبو ہوتی ہے نہ بالائی زہریلے کیمیائی مادوں سے اس
کی عمر طویل کردی جاتی ہے ،کباب رول، نہاری، بازاری بریانی، کولڈ ڈرنکس،
حلوہ پوری چھولے، سموسے، رول، پراٹھا رول، چیز بال، کنور کیوبس ، ڈبوں میں
بند تیار شدہ کھانے، بنے بنائے پراٹھے ، تیار شدہ سربند سوپ، جیسی فضول بے
کار بے ہودہ زہریلی اشیاء خوشی خوشی کھانے کے لئے مہیا کرنا جس کے نتیجے
میں بہت سے بیماریاں وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ جدید طرز زندگی کی حامل
خواتین بیماریوں کے علاوہ وزن بھی بڑھا رہی ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی کے
ماہانہ صحت سمپوزیم پروگرام میں ایک نشست کا موضوع تھا عورتوں مردوں کے جسم
میں ہونے والے درد آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا چمکتی ہوئی گاڑیاں اور
مردوں اور عورتیں کی قطاریں۔ ڈاکٹر نے حاضرین سے سوال کیا کہ آپ کے گھر میں
کام کرنے والی عورتیں اور مرد کیا آپ سے بہتر غذا استعمال کرتے ہیں اور کیا
آپ سے زیادہ کام کرتے ہیںجواب تھا نہیں اس کا اگلا سوال تھا تو پھر انہیں
درد کی شکایت کیوں نہیں ہوتی اس کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کے گھر کی
ماسی برتن کپڑے دھوتی ہے جھاڑو لگاتی ہے مسلسل مشق Excerciseکرتی رہتی ہے
اس لیے اس کی صحت عمدہ رہتی ہے آپ کے مرد ملازم بھی اسی لیے صحت مند رہتے
ہیں کیوں کہ وہ آپ کی طرح نہ زیادہ کھاتے ہیں نہ زیادہ آرام کرتے ہیں وہ
قدرتی مشقیں کرتے ہیں صحت مند رہتے ہیں آپ زیادہ کھاتے ہیں ایرکنڈیشنڈ میں
رہتے ہیں اپنے کام خادموں سے کراتے ہیں اس لیے آپ کو درد رہتاہے جس کو دور
کرنے کے لیے آپ ہمیں بھاری معاوضے دیتے ہیں دوائیں استعمال کرتے ہیں قدرتی
طرز زندگی ہی صحت کا ضامن ہے۔ یعنی اپنے کام خود کرنا کم کھانا اور کم سونا
عیش و عشرت کی زندگی ترک کرکے سادہ زندگی کو مستقل اسلوب حیات بنانا۔ جدید
طرز زندگی نے انسانوں کو [Fast foods]مختلف مشروبات کا کثرت سے استعمال،
ٹیٹرا پیک غذاوں کی ترسیل و تقسیم، رات کو دیر سے سونا دن کو جلدی اٹھنا
دیر سے کھانا ، جلدی کھانا بہت کھانا ، سگریٹ کا استعمال جسیے تحفے دیئے
ہیں۔ ہماری درسی کتاب میں ایک عجیب و غریب سبق شامل تھا ۔ جس میں ایک شخص
پیٹ میں شدید درد کی شکایت لے کر حکیم صاحب کے پاس تشریف لے گیا انھوں نے
دوا دینے سے پہلے پوچھا رات کو کھانے میں کیا کھایا تھا اس نے جواب دیا جلی
ہوئی روٹیاں حکیم صاحب نے سرمہ نکالا اور اسے ایک ہفتے تک لگانے کا حکم دیا
” یہ ایک علامتی سبق تھا کہ اگر آپ کی آنکھ اچھی ہوں گی تو آپ دیکھ بھال کر
کھانا کھائیں گے۔
جدید سائنس اور سرمایہ داری بہ ظاہر انسانوں کے خادم کے طور پر سامنے آتے
ہیں مگر ان کا طریقہ واردات اتنا زبردست ہے کہ انسان کو اندازہ ہی نہیں
ہوتا کہ ان سائنسی ایجادات اور اس جدید طرزِ زندگی کو اختیا رکرنے کے نتیجے
میں ہم کن کن چیزوں سے محروم ہو جائیں گے ستر کے عشرے تک کراچی میں جگنو،
مینڈک، بیر بہوٹی، کوئل اور خوبصورت پرندے نظر آتے تھے لیکن نوے کے عشرے تک
یہ تمام مخلوقات کراچی کے لئے اجنبی ہوگئیں سائنس و سرمایہ داری اور جدید
طرزِ زندگی اختیار کرنے کے نتیجے میں اہل کراچی نے اپنی جنت کو خوشی خوشی
اپنے ہاتھوں سے تباہ کرلیا تمام درخت کاٹ دئے گئے لوہے اور سمنٹ کے جنگلات
جگہ جگہ کھڑے کردئے گئے گھروں سے پودے، پھل ،پھول سب نکال دیے گئے جب فطری
ماحول نہ رہا تو جگنو، مینڈک ، کوئل، تتلی سب رخصت ہوگئے اب ناظم کراچی
نیدر لینڈ کے تعاون سے ‘ ماحول دوست دیواریں” تعمیر کرنے کے لئے کروڑوں
روپے خرچ کررہے ہیں جس کے تحت کراچی میں درختوں اور پودوں کی دیواریں
اٹھائی جائیں گی تاکہ شہرمیں آلودگی کم ہوسکے۔ یہ درخت اور پودے سایہ دار
نہیں ہیں لہٰذا سڑکوں پر بسوں کے انتظار میں کھڑے لوگوں کو اب درختوں کا
سایہ اور فطرت کا سائبان میسر نہیں، تمام گھنے مقامی تن آور درخت کاٹ دیئے
گئے ہیں اب اس کا متبادل شیشے اور پلاسٹک کے بنائے ہوئے سائبان اور نشست
گاہیں ہیں جو سایہ مہیا کرنے سے قاصر ہیں جن کی وسعت محدود ہے جو ٹھنڈک
مہیا نہیں کرسکتے ان کی مرمت دیکھ بھال پر لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور
اشتہارات کے ذریعے ان سائبانوں کا حسن اور شہریوں کا ذوق تباہ کردیا گیاہے۔
ایک برگد کا درخت پچاس ساٹھ لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ لیکن اب ہم
اس قدرتی ماحول سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
عصر حاضر کو بہت سے لوگوں نے انفرمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کا زمانہ قرار
دیا ہے اجتماعی ارتباط کے وسائل معاشروں پر پرامن تسلط کے لیے کارآمد ترین
ہتھیار اور افکار و نظریات کی ترویج کے پیچیدہ ترین ہتھکنڈے ہیں۔ حالیہ چند
عشروں کے دوران ترقی و پیشرفت کی حیرت انگیز رفتار اور انفرمیشن ٹیکنالوجی
کی ترقی کے پیش نظر دنیا میں ان وسائل اور آلات کی پیچیدگی اور ان کے
کارآمد ہونے میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
جدید دور میں انسانی معاشرے کے پھیلاؤ نے انسانوں کے اجتماعی تعلقات کے
میدان میں ذرائع ابلاغ عامہ اور میڈیا کے وجود کو ایک ناگزیر امر بنا دیا
ہے۔ ماضی میں انسانوں کو ایک دوسرے سے آمنے سامنے رابطہ ہوتا تھا اور اسی
طریقے سے افکار و نظریات ایک دوسرے تک منتقل ہوتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں
جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی معاشرے روزانہ کی صورت میں ایک دوسرے کے
ساتھ رابطے میں ہے۔ لیکن یہی لوگ اپنے گھر والوں ، آس پاس کے لوگوں سے دور
ہیں۔ ایک کمرے میں یا کسی تقریب میں سب بیٹھے اپنے موبائیل سے کھیل رہے
ہوتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے سے بہت کم ہی بات چیت کرتے ہیں۔ میڈیا نے جن میں
ٹی وی چینل سیٹلائٹ حتی انٹرنیٹ بھی شامل ہے، معاشرے میں وہ مقام حاصل کر
لیا ہے کہ جس کا اس سے پہلے کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ بھی
حقیقت ہے کہ خاندانی رشتوں میں فاصلے پیدا ہوگئے ہیں۔ سب اپنی اپنی دنیا
میں مگن ہیں۔ جدید دور کے بہت سے دانشوروں کا کہنا ہے کہ اجتماعی رابطے کے
وسائل حتی نظریہ اور سوچ کو بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ذرائع
ابلاغ وسیع اور مختلف قسم کے اثرات کے حامل ہیں جن میں نفسیاتی سیاسی
اقتصادی اور ثقافتی اثرات شامل ہیں اس کے علاوہ یہ عقائد، اقدار، سلیقوں
اور کلی طور پر طرز زندگی کو بدلنے میں بھی اہم کردار کے حامل ہیں۔ آج
ذرائع ابلاغ نے ثقافتی طاقت کے اثر و رسوخ کو بے حد تیزی اور تنوع بخشا ہے۔
ثقافتی طاقت ، دوسروں کے جاذب نظر زندگی کے طور طریقوں کو اپنانے نے لوگوں
کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے، خودکشی اور جرائم کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
برطانیہ کے مشہور ماہر سماجیات انتھونی گیڈنز اسی سلسلے میں لکھتے ہیں کہ
ٹیلی ویڑن کی ایجاد نے انسانوں کی روزمرہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے
ہیں کیونکہ بہت سے لوگ ٹی وی پروگراموں سے متاثر ہو کر اپنا طرز زندگی اسی
طرح کا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ے بہت لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے اور
وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماہرین سماجیات میڈیا کو معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے والا قرار دیتے
ہیں۔ اس لیے معاشرے کا ایک فرد میڈیا کو اپنے دوست اور مشیر کے طور پر
منتخب کرتا ہے اور خود اس سے بات کیے بغیر اس کی باتیں سنتا ہے۔جس سے
معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں بری طرح متاثر
ہورہی ہیں۔ میڈیا کی ایک اور روش ایجنڈا سیٹنگ ہے کہ جس کے تحت میڈیا تمام
خبروں اور مطالب میں سے بعض مسائل کو نمایاں طور پر بیان کرتے ہیں جبکہ
ممکن ہے کہ وہ حقیقت میں اتنے اہم نہ ہوں جتنا میڈیا ان کو اہم بنا رہا
ہے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا کسی حد تک افراد کے فکری اور نظری نظام
کی تشکیل میں مو ¿ثر کردار کا حامل ہے۔ اور یہ فکری نظام ہی ہے کہ جو طرز
زندگی کی بنیادوں کو واضح کرتا ہے۔ دوسری جانب میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک
میڈیا مسلسل طرز زندگی کی تعلیم دے رہا ہے۔ یہ کہ لوگ کس طرح اپنے فارغ
اوقات بسر کریں، ان کا گھر کس طرح کا ہونا چاہیے۔ انہیں کہاں دوسروں سے بات
چیت کے لیے ملاقات کرنی چاہیے اور سفر کے لیے کہاں جانا چاہیے اور کس کے
ساتھ جانا چاہیے۔جدید طرز زندگی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے؟ آزادی ءاظہار وہ
تصور جس کی عوام دلدادہ ہے لیکن سرکاری حکام اس تصور سے نالاں و بدگمان
ہیں۔ تاہم ماڈرن ہونے کا مطلب اگر شراب اور شباب ہے تو قدامت پسند مذہبی
طبقہ دست و گریباں ہونے کو تیار ہے۔مسلمان معاشرے میں بھی یہ سوال اہم ہے
کہ آزادی مگر کتنی، اس کی حدود کہاں تک ہوں گی۔ کچھ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے
کہ وہ اپنی جدیدیت کی حدود از خود متعین کریں گے۔ آج بھی مسلمانوں نے ترقی
یافتہ ہونے یا جدیدیت کے عملی رحجانات کو مسترد کر دیا ہے ۔ وہ اسی موقف پر
بضد رہے کہ اسلامی معاشرہ خود میں ایک مکمل اور سب سے اعلیٰ نظام حیات ہے۔
کچھ نے مغربی طرز زندگی کو اپنایا تو کچھ نے اپنے مذہب اور معاشرتی شناخت
سے جڑے رہ کر مغربی معاشرے کے مثبت خواص کو خود میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن اس کوشش میں وہ بکھر کر رہ گئے ہیں۔
جدید طرز زندگی میں مسلم خواتین کے نقاب کو اکثر ہی تنقید کا نشانہ بنایا
جاتا ہے۔ تنقید کرنیوالوں کا کہنا ہے کہ نقاب یا حجاب یہ عورت کے کم تر
درجے کی علامت ہے۔ ثقافت اور حجاب کے مخالفین اسے دقیانوسیت اور محکومی سے
منسوب کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں مغربی لباس کو انفرادیت اور آزادی کی
علامت قرار دیتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ عورت جس طرح کا لباس پہنتی ہے
اور جسطرح اپنے بالوں کا اسٹائل بناتی ہے، وہ اس کے اپنی ذات کو اہمیت دینے
سے تعلق رکھتا ہے۔ نقاب اور حجاب کی مخالفت کرنیوالوں میں غیر مسلموں
کیساتھ ساتھ کچھ مسلمان بھی شامل ہیں۔ دوسر ی جانب نقاب اور حجاب کی حمایت
کرنے والے کہتے ہیں کہ لباس کا یہ حصہ عورت کو آزادی فراہم کرتا ہے۔ وہ غیر
مردوں کے سامنے اپنے جسم کی نمائش سے محفوظ رہتی ہے اور پھر خواتین کے
درمیان بھی ایکدوسرے سے لباس کی بنیاد پر برتری کا مقابلہ نہیں ہوتا۔نقاب
کی بدولت عورت مرد کیلئے سیکس آبجیکٹ بھی نہیں بنتی۔نقاب عورت کو اپنی
روحانی، ذہنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے
ترقی کی جانب لے جاتا ہے اور وہ آزادانہ طور پر اپنے کام پر توجہ مرکوز
کرتی ہیں کیونکہ انہیں کسی قسم کا خوف یا احساس عدم تحفظ نہیں ہوتا۔
سچ تو یہ ہے کہ جدید اور ترقی پسندی نے انسان کو انسان کے منصب سے گرا دیا
ہے۔ اب انسان کو میئسر نہیں انساں ہونا، |