امریکہ اپنی اخلاق باختگی کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ امریکیوں کو یہ احساس
ہونے لگا ہے کہ بڑھتی ہوئی بے راہ روی، جنسی آزادی، اور ہتھیاروں کے
آزادانہ استعمال نے ان کے معاشرے کو تباہی کی جا نب دھکیل دیا ہے۔ اب وہ اس
سوچ بچار میں ہیں کہ اس معاشرے کو کیسے سدھاریں، ہھتیاروں پر پابندی،
خواتین کے عریاں پوسٹر،پر پابندی کے اقدامات امریکی معاشرے کے عکاس ہیں۔
لیکن امریکہ کے لئے ای اور سنگین مسئلہ اس کی فوجی خواتین کے ساتھ ان کے
مرد ساتھیوں کی جانب سے کی جانے والی زیادتی کے واقعات ہیں۔ حال ہی میں تما
م ملٹری ٹرینگ اکیڈمیوں میں صورتحال کا جائزہ لینے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔
سال 2012 ء کے دوران تقریباً 26 ہزار خواتین فوجی اہلکاروں پر مجرمانہ حملے
کیے گئے ہیں جو کہ گزشتہ سال کے 19 ہزار واقعات کے مقابلے میں کافی زیادہ
ہیں ۔ ان واقعات میں سے پچھلے صرف 3 ہزار میں سے 74 جنسی حملوں کی شکایت
درج کی گئیں۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے گزشتہ دنوں امریکی فوج میں خدمات
سرانجام دینے والی خواتین پر امریکی فوجیوں کے جنسی حملوں کو ناقابل برداشت
قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص جو اس طرح قبیح فعل کا مرتکب پایا گیا
تو اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو عہدوں سے ہٹایا اور انہیں کورٹ
مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔امریکی فوج میں جنسی تشدد کے اعدادوشمار سے پتہ
چلتا ہے کہ امریکی خواتین فوجیوں کے ساتھہ جنسی تشدد اور ان کے حقوق کی
خلاف ورزی کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہے-
امریکی اخبار یو ایس ٹو ڈے کے مطابق عراق اور افغانستان میں تعینات خواتین
کی نصف تعداد جنسی طور پر ہراساں کی گئیں ہیں۔ اخبار نے محکمہ ویٹرینز
افیئر کی ایک تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ محققین نے عراق اور افغان جنگی
زونز میں خدمات انجام دینے والی گیارہ سو فوجی خواتین سے سوالات کیے گئے۔جس
سے معلوم ہوا کہ عراق اور افغانستان میں تعینات خواتین کی مجموعی تعداد میں
سے تقریبا نصف خواتین جنسی طور پر ہراساں کی گئیں جبکہ ایک چوتھائی خواتین
اہلکاروں پر جنسی حملے کیے گئے۔ عصمت دری کی 22.8 فی صد رپورٹیں درج ہوئیں۔
جنگی زونز میں تعیناتی کے دوران 48.6 فیصد فوجی خواتین کو جنسی طور پر
ہراساں کیا گیا۔ ان فوجی خواتین پر جنسی حملے اورہراساں کرنے والے مرد فوجی
تھے اور ان میں سے نصف تعدادہائی رینک افسران کی تھی۔ جنسی حملوں اور تشدد
کے واقعات گزشتہ برس بہت زیادہ تشویش کا باعث بنے تھےجس پر وزیر دفاع نے
تمام ملٹری ٹریننگ کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔ گزشتہ ہفتے پینٹاگون نے ملٹری
آکیڈمیوں میں جنسی حملوں اور تشدد کے واقعات کی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ جس
کے مطابق 2012 میں امریکی فوجی آکیڈمیوں میںخواتین کو جنسی طور پر ہراساں
کرنے کی شرح میں 23 فی صد اضافہ ہوا۔امریکی کانگریس میں فوج میں جنسی حملوں
کی سماعت کرنے والے ارکان نے بھی کہا ہے کہ حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے
کہ مسلح افواج میں ساتھی فوجی خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات بڑے پیمانے
پر ہو رہے ہیں۔ کانگریس کی سماعت کرنے والی کمیٹی کی ایک رکن لوریٹا سینچاز
کا کہنا ہے کہ سماعت کے دوران اس قسم کے واقعات کی بارے متعدد فون کالز
موصول ہوئیں ہیں جن کا زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ فوجی میں شامل خواتین
ایک سے زیادہ مرتبہ جنسی زیادتی کا نشا نہ بنایا گیاہے۔وزارتِ دفاع کی جانب
سے سال دو ہزار تین میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سے انٹرویو پر مبنی سروے میں
انکشاف ہوا تھا کہ پانچ سو میں سے کوئی تیس فیصد عورتوں کا دوران ملازمت
ریپ ( جنسی زیادتی) ہوا یا کرنے کی کوشش کی گئی۔اس سے بھی زیادہ تشویش ناک
صورتحال وزارتِ دفاع کے سال دو ہزار نو میں ہونے والے سروے میں سامنے آئی
تھی۔جس میں کہا گیا تھا کہ فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی نوے
فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔اس کی تصدیق سال دو ہزار تین میں عراق
اور دو ہزار چھ میں افغانستان میں اپنے فرائض انجام دینے والی امریکی
فضائیہ میں مارتی ریبائیرو نے کی۔ مارتی کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے ہے۔ وہ
کہتی ہیں اپنے دادا اور والد کو دیکھ کر فوج میں بھرتی ہونا ان کا ایک خواب
تھا مگر اس خواب کی تعبیر کے لیے انھیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ان کا کہنا
تھا کہ فوج میں شمولیت کے بعد اپنے ساتھی فوجیوں کے کردار دیکھ کر بہت
مایوسی ہوئی۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں دو ہزار چھ میں وہ دوران ڈیوٹی
اپنی بندوق رکھ کر چند لمحوں کو سگریٹ پینے کے لیے ایک طرف گئیں۔ اور اسی
دوران ان کے اپنے ہی ساتھی نے ان پر حملہ کر کے ان کا ریپ کیا۔ مارتی کہتی
ہیں کہ رپورٹ کرنے پر کمانڈر کا جواب تھا کہ محاذ جنگ میں ہتھیار ایک طرف
رکھنا فرائض سے غفلت کے اس زمرے میں آتا ہے۔ جس پر ان کا کورٹ مارشل ہوسکتا
ہے۔ اور یوں ریپ کرنے والا انتہائی آسانی سے سزا سے بچ گیا۔امریکی وزارتِ
دفاع کے جنسی حملوں سے روک تھام کی شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے وائیٹ لی کا
کہنا ہے کہ ایک تو کسی بھی عورت کے لیے ریپ رپورٹ کرنا انسانی اور جذباتی
سطح پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، دوسرا اس میں اور بھی کئی رکاوٹیں حائل
ہوتی ہیں مثلاً کمانڈر کی جانب سے یونٹ کی یک جہتی کے نام پر ایسی رپورٹنگ
کی حوصلے شکنی کی جاتی ہے۔ڈاکٹر کے وائیٹ لی کا کہنا ہے فی الوقت ریپ کا
شکار ہونے والی فوجی عورتوں کو تفتیشی مراحل سے گزارے بغیر طبی امداد اور
کونسلنگ یعنی نفسیاتی علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ تاہم اب
ایسی کئی تجاویز زیر غور ہیں جس کے مطابق کمانڈروں کو جنسی تشدد کے مسلے سے
بہت زیادہ سنجیدگی سے نمٹنا ہوگا۔انھوں نے کہا حال ہی میں یہ دیکھا گیا ہے
کہ کمانڈرز پہلے سے زیادہ کیسز کورٹ مارشل کے لیے بھیج رہے ہیں۔
عراق میں خدمات سرانجام دینےوالی ایک سابق امریکی ملڑی انٹیلیجنس آفیسر
کیلا ولیمز کی نئی کتاب ’آئی لومائی رائفل مور دین یو‘ کچھ عرصہ قبل منظر
عام پر آئی ہے۔ انہوں نےاس کتاب میں عراق جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں اور
صحافیوں کے کرداروں پر ان کی خد مات کے تناظر میں روشنی ڈالی ہے۔ ایک ریڈیو
پروگرام میں انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کا مقصد اس جنگ میں
امریکی خواتین فوجیوں کے کردار پر روشنی ڈالنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ عراق
میں اس وقت گیارہ ہزار ایک سو خواتین مختلف عہدوں پرخدمات سر انجام دے رہی
ہیں۔ جو امریکی فوج کا آٹھ فیصد بنتی ہیں۔ عراق میں اس وقت امریکی فوج
کےایک لاکھ اڑتیس ہزار فوجی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ان خواتین فوجیوں
میں سینتیس ہلاک جبکہ تین سو زخمی ہیں۔ اگرچہ وہ براہ راست جنگی محاذوں پر
تعینات نہیں ہیں لیکن عراق کی صورت حال نے بہت سی خواتین کو انتہائی حساس
پوزیشنوں پر دھکیل دیا ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ فوج
میں مردوں کی طرح خواتین کے کرداروں پر بھی ایک سی رخ سے روشنی ڈالی گئی
ہے۔ولیمز کو فوج میں پانچ سال ہونے کو آئے ہیں جن میں سے ایک سال انہوں نے
امریکہ کے عراق پر قبضہ کے دوران عراق میں گزارا۔ان کی کتاب میں کویت ،
عراق کی سرحدوں، بغداد، موصل اور انتہائی دوردراز پہاڑی سلسلے میں شام کی
سرحدوں پر واقع ان کی تعیناتی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جنگ
میں بہت سی خواتین جنگ میں ہلاک بھی ہوئی ہیں۔ خواتین اگرچہ وہ براہ راست
جنگی محاذوں پر تعینات نہیں ہوتی ہیں لیکن عراق کی صورت حال نے بہت سی
خواتین کو انتہائی حساس پوزیشنوں پر دھکیل دیا ہے۔ ان خواتین نے عراق کو
چھوڑنے سے پہلے انہوں نے اپنی آنکھوں سے ہزاروں فوجیوں کو ہلاک اور زخمی
ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔عراق کی ابو غریب جیل میں امریکی خواتین فوجیوں نے
قیدیوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا تھا اس کی رپورٹیں ساری دنیا کے سامنے آنے
کے بعد دنیا کو پتہ چلا کہ فوجی جرائم میں امریکی خواتین فوجی بھی برابر کی
شریک رہی ہیں۔ ایک ایسی ہی خاتون فوجی سے ابو غریب جیل سکینڈل کے منظر عام
پر آنے کے بعد انہیں اس بارے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔شائد
اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں عربی زبان سے آگاہی حاصل تھی اور ان کے بارے میں
یہ بھی خیال کیا گیا کہ وہاں کی ثقافت کے پس منظر میں وہ خواتین قیدیوں کے
حوالے سے مددگار ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کے
ساتھ کیے جانے والے سکوک سے بہت مضطرب تھیں اور جب امریکی فوجیوں نے قیدیوں
کو ایذا رسانی کا نشانہ بنانا شروع کیا تووہ جان گئیں کہ اب حدیں ختم ہوچکی
ہیں۔انہوں نے چاہا کہ وہ اس معاملے کے بارے میں شکایت کریں مگر یہ معاملہ
خود ہی سب کے سامنے آگیا۔انہوں نے بتایا کہ عراق کی صورت حال نے وہاں رہنے
والوں کو اس بات پرمجبور کیا ہے کہ وہ سب کچھ کر گزریں۔ولیمز نے بتایا کہ
اس طرح کے جنگی زون میں اس قسم کی صورت حال نے خواتین کے لیے ایک مقابلے کی
فضا پیدا کردی ہے۔ولیمز نے حال ہے میں ایک زخمی فوجی سے شادی کی ہے جو عراق
جنگ میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ انہوں نے ولیمز کو اس کتاب کے لکھنے میں مدد
بھی کی۔انہوں نے بتایا کہ ہم سب انسان ہیں جواچھے اور برے دونوں کرداروں کے
مالک ہیں لیکن بہادری اس میں ہے کہ اچھائی کو سامنے لاتے ہوئے تمام حالات
کا مقابلہ کیا جائے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ ان تما حالات واقعات کے باوجود امریکی خواتین فوج میں
جانا چاہتی ہیں اور جنگ میں بھی حصہ لینا چاہتی ہیں۔ گذشتہ دنو ں چار
خواتین فوجیوں نے امریکہ کی عورتوں کو زمینی جنگ سے دور رکھنے کی پالیسی پر
پنٹاگون کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا۔اب عدالت نے ان خواتین اور سروس ومنز
ایکشن نیٹ ورک کی جانب سے دائر مقدمے میں حکومتی پالیسی کو ناانصافی پر
مبنی قرار دیا ہے۔مقدمہ کرنے والی دو خواتین کا تعلق افغانستان میں پرپل
ہارٹز سے ہے۔واضح رہے کہ امریکہ میں خواتین فوجیوں کو زمینی لڑاکا یونٹوں
میں شامل نہیں کیا جاتا لیکن عراق اور افغانستان میں ایک دہائی سے جاری
جنگوں میں اب تک مختلف واقعات میں ایک سو چالیس سے زائد خواتین ہلاک ہو چکی
ہیں۔پینٹاگون نے فروری میں اعلان کیا تھا خواتین کو چودہ ہزار نئی ملازمتیں
دی جائیں گی۔یہ ملازمتیں زیادہ تر آرمی اور مرین کورز میں دی جانی تھیں، جن
کے دروازے خواتین سروس ممبران کے لیے بند تھے۔تاہم اس اعلان کے باوجود
زمینی جنگ میں خواتین کے حصہ لینے پر پابندی بتدریج قائم تھی۔ اور اس طرح
خواتین انفنٹری، آرمر یونٹز اور اسپیشل فورسز میں نہیں جاسکتیں۔ اب امریکی
حکومت نے یہ پابندی ختم کردی اور کہا ہے کہ خواتین کے میدان جنگ میں حصہ
لینے کی صورت میں فرنٹ لائن پوزیشنز اور ایلیٹ کمانڈوز میں خواتین کے لیے
روز گار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔پینٹاگون میں منعقدہ ایک پریس کانفرس
میں وزیر دفاع لیون پنیٹا نے پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا اور کہا کہ ’ اب
فوجی خواتین کو جنگ کی حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا، جنگ لڑنےکی اپنی رضامندی
ثابت کرنا ہو گی اور ہاں اپنے امریکی ہم وطنوں کے دفاع کے لیے مرنا ہو
گا۔‘دوسری جانب امریکی صدر نے خواتین پر پابندی ختم کرنے کے فیصلے کو
ایک’تاریخی قدم‘ قرار دیا ہے۔پابندی پر خاتمے سے سنہ انیس سو چرانوے میں
بنایا گیا ایک قانون ختم ہو جائے گا جس کے تحت خواتین جنگ میں حصہ لینے
والے چھوٹے یونٹس کا حصہ نہیں بن سکتی تھیں۔امریکی وزیر دفاع نے فوجی
خواتین کی ان شکایت کا ذکر کیا جس میں میدان جنگ میں حصہ لینے کا تجربہ نہ
ہونے کے سبب ان کے لیے ملازمت میں آگے بڑھنے کے امکانات کم ہو جاتے
ہیں۔انہوں نے کہا ’ میرا بنیادی طور پر خیال ہے کہ ہماری فوج زیادہ موثر
ثابت ہو سکتی ہے جب کامیابی کا انحصار صرف اور صرف قابلیت، صلاحیت اور
کارکردگی پر ہو‘۔فوجی سربراہان پندرہ مئی تک وزیر دفاع کو نئی پالیسی پر
عمل درآمد سے متعلق ابتدائی منصوبہ پیش کریں۔توقع ہے کہ امریکی فوج میں
خواتین کے لیے کچھ نوکریاں اسی سال شروع ہو جائیں گی جبکہ سپیشل سروسز نیول
سیلز اور ڈیلٹا فورس میں نئی نوکریاں شروع ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔اس
فیصلے سے فوج میں دو لاکھ تیس ہزار خواتین کو روز گار ملے گا اور ان میں سے
زیادہ تر زمینی فوجی دستوں میں شامل ہوں گی۔امریکی محکم? دفاع نے گزشتہ سال
اس وقت خواتین پر پابندیوں کو نرم کیا تھا جب فرنٹ لائن پر ان کے لیے چودہ
ہزار پانچ سو ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے گئے تھے جبکہ اس سے پہلے فرنٹ
لائن پر خواتین پر اس قسم کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر پابندی تھی۔عراق اور
افغانستان جنگ کے دوران خواتین فوجی اہلکاروں نے طبی عملے، ملڑی پولیس اور
انٹیلیجنس افسروں کے طور پر کام کیا تھا اور بعض اوقات انہیں فرنٹ لائن پر
بھیجا جاتا تھا لیکن سرکاری طور پر انہیں فرنٹ لائن یونٹس کا حصہ نہیں
بنایا جاتا تھا۔سال دو ہزار بارہ تک ان جنگوں میں آٹھ سو خواتین اہلکار
زخمی ہوئیں اور ایک سو تیس کے قریب ہلاک ہوئیں۔اس وقت امریکہ کی چودہ لاکھ
حاضر سروس فوج میں خواتین کا تناسب چودہ فیصد ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ میں کچھ دن پہلے انکشاف کیا گیا ہے کہ
امریکی فوج میں کام کرنے والی خواتین پر جنسی حملوں کے واقعات میں حیرت
انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ سال 2012 ء کے دوران تقریباً 26 ہزار خواتین فوجی اہلکاروں پر
مجرمانہ حملے کیے گئے ہیں جو کہ گزشتہ سال کے 19 ہزار واقعات کے مقابلے میں
کافی زیادہ ہیں تاہم رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں سے پچھلے صرف 3 ہزار میں
سے 74 جنسی حملوں کی شکایت درج کی گئیں۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے گزشتہ
روز امریکی فوج میں خدمات سرانجام دینے والی خواتین پر امریکی فوجیوں کے
جنسی حملوں کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص جو اس طرح
قبیح فعل کا مرتکب پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو عہدوں
سے ہٹایا اور انہیں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔امریکی فوج میں جنسی
تشدد کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی خواتین فوجیوں کے ساتھہ جنسی
تشدد اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ امریکی
خواتین فوجیوں کے ساتھہ جنسی تشدد اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی اس حد تک ہے
کہ امریکہ کے اعلی فوجی حکام نے بھی اس بات کا باقاعدہ طور پر اعتراف کرلیا
ہے۔ امریکی آرمی چیف جنرل ڈمپسی نے جنسی جرائم کے خلاف مہم کے سلسلے میں
امریکی وزیر دفاع کے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنسی تشدد جیسے
جرائم نے امریکی فوج کی پیشہ وارانہ ماہیت کو بری طرح سے متاثر کردیا ہے۔
امریکی اعلی فوجی افسروں کے اخلاقی اسکینڈلوں کے بعد امریکی وزارت دفاع نے
ایسے افسروں کی حمایت کی نوعیت پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا
فیصلہ کل جمعے کو کیا گیا جس کی بنیاد، وہ نکات ہیں کہ جن کے بارے میں
امریکی وزیر دفاع نے تین ہفتے قبل آرمی چیف سے گفتگو کی تھی جن میں سے ایک
امریکی فوجیوں کی اخلاقی تربیت کا عمل ہے۔ اس وقت بھی دو اعلی امریکی فوجی
افسروں یعنی سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیویڈ پیٹریئس اور افغانستان میں
امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان ایلین کے خلاف اس حوالے سے تحقیقات جاری
ہیں۔ دوسری جانب امریکی فضائیہ میں بھی جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے جرائم کے
پیش نظر اداروں سے خواتین کی ناشائستہ لباس میں تصاویر اور پوسٹرز ہٹائے
جانے کا اقدام کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ شعبوں سے اس قسم کی
تصاویر ہٹانے کیلئے دس روز کی مہلت دی گئی تھی۔ یہ سب اقدامات امریکی
فوجیوں میں جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کیلئے عمل میں لائے
جارہے ہیں۔ امریکی فوج کے اعدادوشمار کے مطابق سالانہ 19 ہزار افراد، جنسی
تشدد کی بھینٹ چڑھتے ہیں جبکہ ایسے جرائم کے مرتکب فوجیوں اور افسروں کے
خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں شکایت کرنے والوں کے اعتراف کے
مطابق مجرم فوجیوں اور افسروں کو عدالت میں طلب تک نہیں کیا جاتا اور نہ ہی
ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی جاتی ہے۔ جبکہ امریکی فوجیوں کے جنسی
تشدد کے جرائم صرف امریکی فوج تک محدود نہیں ہیں اور وہ بیرون ملک بھی اس
قسم کے جرائم کا بخوبی ارتکاب کرتے ہیں اور اس سلسلے میں جاپان اور جنوبی
کوریا میں پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
ان ملکوں کے عوام خاص طور سے جاپان کے جزیرہ اوکیناوا کے عوام نے اس قسم کی
جارحیت و تشدد کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں۔ چنانچہ
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد و جارحیت کا عمل نہ صرف
بڑھتا جارہا ہے بلکہ اس سلسلے میں کنٹرول اور روک تھام کی خاطر خواہ کوئی
کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکی فوج میں ہمجنس پرستوں
کی بھرتی کے اعلان سے امریکی فوجی کی اخلاقی حالت اور بھی ابتر ہوگی جس سے
فوجی توانائی پر بھی کافی اثر پڑیگاامریکی فوج میں ایک سال کے دوران اڑھائی
ہزار جنسی جرائم کے واقعات ریکارڈ کئے گئے جبکہ ان واقعات میں زیادہ تر
اپنے ہی ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر
2006 سے ستمبر 2007 کے دوران فوج میں جنسی جرائم کے 2688 کیس ریکارڈ کئے
گئے تھے ۔ 72 فیصد کیسز میں جنسی حملوں کا نشانہ بننے والے خود امریکی فوجی
تھے۔ 574 کیسز متاثرہ شہریوں کی طرف سے درج کرائے گئے جو امریکی فوجیوں کی
زیادتی کا نشانہ بنے تھے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کی جانب سے جنسی جرائم کے
112 کیسز اور افغانستان میں 10 کیسز درج کئے گئے۔ محکمہ دفاع کے مطابق
تحقیق کے بعد 181 کیسز میں فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ 201 میں غیر
عدالتی سزادی گئی اور 218 کیسز میں فوجیوں کے خلاف انضباطی کاروائی یا
ملازمت سے برطرفی کی سزادی گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق اڑھائی ہزار کیسز
میں سے 60 فیصد اجتماعی زیادتی کے کیسز ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں جاپان
میں تعینات امریکی فوج کی جانب سے بھی ایک نو عمر جاپانی لڑکی کی عصمت دری
کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا جس پر امریکی سفیر نے جاپانی حکام سے معذرت
بھی کی تھی۔ |