پراسرار بندے قسط نمبر۳

علم نورانی
مدتوں سے لوگ مراقبہ (علم نورانی) کو ایک انتہائی پرا سرار اور مشکل موضوع سمجھتے رہے ہیں ہمیشہ بڑے بوڑھے اور فار غ لوگوں کو اس کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے۔ مراقبہ پر پوری دنیا میں سائنسی طریقہ کار کے تحت تجربات کر کے اخذ کر لیا ہے کہ اس عمل سے انسانی ذہن اور جسم پر انتہائی اعلیٰ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جس میں تعلیم و عمر کی کوئی قید نہیں اب کوئی بوڑھا ہو یا جوان سب ہی مراقبہ کی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں مزید برآں اب تو سکول و کالج میں مراقبہ کی تعلیم کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کم و بیش پوری دنیا میں مراقبہ کی تربیتی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور صحتی ادارے اپنے مریضوں کو روزانہ مراقبہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مراقبہ جو کہ پہلے وقتوں میں صرف مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا اب دنیاوی پیش قدمی کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل کے لئے بھی مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے آج پوری دنیا میں ذہنی دباﺅ کو کم کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کو آج کے وقت میں انتہائی میسر آلہ قرار دے دیا گیا ہے جوں جوں معاشرہ میں اسکی آگاہی بڑھتی جا رہی ہے نتیجہ میں انسانی بھائی چارہ اور عالمی اتحاد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جب زیادہ لوگ مراقبہ کی بدولت ذاتی شناسائی حاصل کرتے جائیں گے ان کو کائنات کی سچائی اور اصلیت کا قرب حاصل ہو گا اور نتیجہ عالمی بھائی چارہ وجود میں آئے گا۔

مراقبہ کیا ہے ؟
مراقبہ انسان کا اپنی حقیقی خودی (ذات) کی طرف ایک گہرا سفر ہے جس میں ایک انسان اپنے اندر (باطن)میں اپنا اصلی گھر تلاش کر لیتا ہے آپ چاہے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ۔ کسی بھی مذہب اور روحانی سلسلہ سے منسلک ہوں مراقبہ سب کے لئے ایک جیسا عمل ہے مراقبہ آپکی توجہ ،آپکے باطن کی طرف لے جانے کا مؤجب بنتا ہے آ پکا ذہن اس طرح سے سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے اس طرح آپکی توجہ بھٹکے ہوئے شعور کی حدود سے نکل کر حقیقی مرکز سے مربوط ہو جاتی ہے۔ مراقبہ ذہن کی وہ طاقت ہے جو اس کو نورانی پہلو کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیتی ہے اس پہلو سے ذہن زندگی کا اعلی ٰمقصد آشکار ہوتا ہے مراقبہ کو آپ " نورانی علم " سے تعبیر کر سکتے ہیں کیونکہ یہ نور کے چشمہ سے کام کرتا ہے۔ حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور کے ساتھ منسلک ہے جو اسکی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر کام کرتا ہے۔ مراقبہ علم کی وہ قسم ہے جو آپکی شخصیت، روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے ۔ مراقبہ ایک علمی تجربہ ہے جو ذہنی کشمکش سے خالی پن اور ظاہر ی زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔ مراقبہ ایک عملی نمونہ ہے زندگی کو قریب سے دیکھنے پر اسکے ظاہری نا پائیداری کے احساس کا۔ مراقبہ کو آپ ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں۔ جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جتنا زیادہ اس عمل کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی۔ یہ اس طرح کا عمل ہے جیسے ایک باڈی بلڈر یا پہلوان جسمانی ورزش کے باعث مضبوط و خوبصورت بناتا ہے۔ مراقبہ کرنے کی عادت سے باطنی اعضاء کی ورزش ہوتی ہے اور وہ قابل استعمال ہو جاتے ہیں۔

عبادت اور مراقبہ میں فرق
عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھا ہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے ناصرف شناسائی ہوتی ہے بلکہ مشاہدہ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب العین (مقصد) صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلیٰ درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں مؤجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اس طرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آجاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔ بہار بھی ایسی کہ خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے اور لذت بھی ایسی

ع کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے

یہی زندگی کا موسم بہار ہے جس کے آجانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جس کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گزشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہیں اور آنے والے کل کی خوشبو کا دور دورہ ہے۔ یہاں لذت و سرور کا وہ سماں ہے جو کہ دنیا کے کسی نشے میں نہیں۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کے بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔ اب اسکا سفر کوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحر بیکراں جس کے سفینے صرف کامیابی، خوشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔ (جاری)
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 163836 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.