رپورٹ :
نسیمہ اچکزئی
کا بل ڈائیری
پاکستان کا افغانستان میں ترقیاتی منصوبے
افغانستان میں طالبان حکومت کا تختہ الٹنے اور بیرونی تسلط کے بعد وہاں پر
شعبہ زندگی کافی متاثر رہی ۔جنگ کی وجہ سے تعلیم و ترقی کا سلسلہ بہت پیچھے
رہا ہے،ایک طرف حکومت کی بے حسی تو دوسری جانب عوام کی بے بسی نے افغان
عوام بلخصوص خواتین کے لئے بہت مشکلات پیدا کیں۔ہزاروں جانوں کی قربانیاں
دینی والی افغانی عوام اب بھی اپنی فطری آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کر
رہی ہے۔کاروبار ،تجارت،تعلیم،صحت ،اور دیگر شعبوں میں اب بھی خواتین کی
شمولیت اس بات کی ترجمانی ہے کہ افغان خواتین ملک میں 30سال جنگی صورتحال
اور بیرونی قبضے کے بعد اب اپنی حالت خود بدلنے کی خواہاں ہے۔افغانستان میں
امریکہ نے اپنے ہدف کے حصول کے بعد وہاں پر ترقیاتی منصوبے شروع کئے امریکہ
کا مقصد افغانستان کے عوام کے حوالے سے جو بھی ہو مگر پاکستا ن افغان عوام
کی ہمیشہ سے خیر خواں رہا ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کئے ایسے منصوبے بھی
ہیں جو اب تکمیل کے مرحلے پر ہیں۔پاکستان کی جانب سے ایسے ترقیاتی کاموں
اور دونوں ممالک کے عوام کی تعلقات میں بہتری کے لئے عوامی سطح پر تو
کوششیں کی جارہی ہیں مگر افغانستان میں ایسے عناصر ہمیشہ سے رہا ہے جو
پاکستان کی ان کو ششوں کو دیکھنے کے باوجو د تسلیم نہیں کر تا ۔اس سلسلے
میں افغانستان میں متعین پاکستانی سفیر محمد صادق کا کہنا تھا کہ پاکستان
نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے 330ملین ڈالر کی لاگت کے
منصوبے شروع کئے ۔جس میں تعلیم ،طب،سائنس ،ٹیکنالوجی اور د یگر ایسے شعبے
شامل ہیں جو اب تکمیل کے مر حلے میں ہیں۔ محمد صادق کے مطابق پاکستان نے
دارلحکومت کابل میں جولائی 2010 میں اقبال لاہوری کے نام سے یونیورسٹی قائم
کی جس میں تقریبا دو ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔رحمان بابا کے نام سے
کابل میں ہاسٹل بھی زیر تعمیر ہے جس میں 1500طالب علم کی رہائش کا بندوبست
ہو گا۔اسی کے قریب ایک سکول بھی ہے ۔ کا بل میں جناح کے نام سے ایک ہسپتال
بھی تعمیر کیا ۔مزار شریف میں 4 منزلہ عمارت کی انجنئیرنگ یو نیورسٹی ہے جو
تقریبامکمل ہو چکی ہے اس پر 10ملین ڈالر لاگت آئی ۔صوبہ ننگر ہار میں کڈنی
سینٹر بھی بنایا جو 400بستر پر مشتمل ہے ۔اس کے لئے ہم نے افغان ڈاکٹروں کو
تربیت کے لئے پاکستان بھی بھیجا تاکہ وہ تربیت حاصل کر نے کے بعد آئے اور
سینٹر میں اپنی ذمہ داریاں سنھبالیں مگر ابھی تک وہاں کو ئی افغان ڈاکٹر
نہیں ہے۔اس کے علاوہ پاکستان نے پکی سڑکو ں کے حوالے سے بھی وہاں پر کام
کیا ، طور خم سے جلال آباد تک پکی سڑکوں کے لئے جال بچھائی۔تاہم ایسے بہت
سے پراجیکٹس ہیں جو پایہ تکمیل ہے اور بہت سے منصوبوں کے مکمل ہو نے کے بعد
پاکستان نے افغان حکومت کو چارج حوالے کر دیا۔محمد صادق کا یہ بھی کہنا تھا
کہ دونوں ممالک کے صحافیوں کو زمہ داری کا مظاہر ہ کر نا چاہیئے کیونکہ
دونوں ممالک کے عوام کی معلومات کا انحصار میڈیا پر ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے افغان طلباءکے لئے 3000سکالرشپس دیئے
ہیں۔دنیا میں کوئی بھی ملک اتنے سکالر شپس نہیں دیتا ۔ہمارے سکالر شپس سے
افغان طلبہ فیضیاب ہورہے ہیں۔
جبکہ افغانستان کے معروف ٹی وی چینل کے جنرل ڈائریکٹر غلام جیلانی کا کہنا
تھا کہ پاک افغان ممالک کے عوام ثقافت اور مذہب کے حوالے سے ایک ہے،وہ دہشت
گردی کے حوالے سے ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں۔ان کے مسائل اور خوشحالی بھی
مشترکہ ہے تاہم اگر دونوں ممالک کی آزادی رائے پر پابندی عائد کی جائے تو
یہ انسانی سوچ کو بند کرنے کے مترادف ہے۔ افغان عوام اس بات کی خواہاں ہے
کہ جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی آشا کے نام سے تعلقات کی بہتری
کے لئے ایک سلسلہ شروع ہے اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان
بھی ہو ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان عوام پر افغانستا ن میں کام کے
حوالے سے کسی قسم کا حکومتی دباﺅ یا پابندی نہیں البتہ خواتین کو پھر بھی
بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر آزاد ی سے کام نہیں
کر سکتیں۔
افغانستان میں اس وقت تقریبا 50ٹی وی سٹیشنز ،سینکڑوں ریڈیو چینلز اور
800کے قریب اخبارات کام کر رہے ہیں۔مستقبل میں میڈیا کے حوالے سے افغانستان
کا اہم کردار ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جوں ہی میڈیا اپنی جگہ
بنارہا ہے وہاں پر یقینا کچھ نہ کچھ مسائل کا بھی سامنا ہو گا جیسا اب بھی
افغانستان میں خواتین کو کافی چیلنجز کا سامنا ہے ۔
میڈیا میں خواتین کو درپیش مشکلات اور ان کے پیشہ وارانہ فرائض کے حوالے سے
افغان خاتون صحا فی مینا کا کہناہے کہ ان کے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ
سیکیورٹی اور خاندانی سپورٹ ہے اگر انہیں یہ دو چیزیں حاصل نہیں تو وہ کچھ
نہیں کرسکتیں۔مینا کے مطابق اگر انہیں خاص موقع پر کو ئی ڈیوٹی دی جاتی ہے
تو وہ خوف و خطر کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
ایک اور بڑے ٹی وی چینل کی خاتو ن پرو ڈیوسر زاہدہ کا کہناہے کہ وہ صحافت
کے شعبے سے 8سال سے وابستہ ہے۔انہیں صحافتی زمہ داریوں کی ادائیگی میں کو
ئی دفتر میں کسی قسم کی مشکلات پیش نہیں آئیں مگر باہر جب بھی کو ئی دھماکہ
یا فساد بر پا ہو جائے تو ہمارا گھروں سے نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ان کے
مطابق افغانستا ن میں اب بھی درس و تدریس کا حصول کابل کے علاوہ
ہرات،قندھار،مزار شریف ادیگر صوبوں اور علاقوں میں ناممکن ہے۔کیونکہ ان
علاقوں میں اب بھی طالبان کا اثرورسوخ ہے۔زاہدہ کا مذید کہنا ہے کہ میرے
ساتھ میرے خاوند کی حمایت ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر خاتون خانہ اس
لہاظ سے خوش قسمت ہو ۔زاہدہ کا کہنا ہے کہ میں صبح 8:00سے شام 4:00بجے تک
کام کر تی ہو ں۔مگر اب بھی بہت سی خواتین چاہتی ہے کہ وہ اپنے خاندانوں کو
سپورٹ کریں۔ اب بھی بہت سی خواتین افغانستان میں اپنے کاموں کے حوالے سے سر
گرم ہیں۔ 35فیصد خواتین ،وکالت ،صحافت،دفاتر،تعلیم ،کاروبار اور تجارت کے
حوالے سے سر گرم ہیں،افغان کابینہ میں بھی خواتین کی شمولیت ہے۔صحت کے
حوالے سے بھی افغان خواتین کا اہم کردار ہے۔
ایک اور خاتون عابدہ محبوب جو کہ دفتری معاملات کی منتظم ہے۔ان کا کہنا تھا
کہ ہماری خواہش ہے کہ ہم تمام خواتین مل کر افغانستان کے عوام کی فلاح و
بہبود کے لئے کام کریں۔عابدہ کا کہنا ہے کہ صدر حامد کر زئی کی حکومت میں
خواتین بہت امن سے کا م کر تی ہیں۔ انہیں کام کے لئے آزادی حاصل ہے جبکہ
مسلم اور غیر مسلم ممالک میں خواتین کو آگے نہیں آنے دیا جاتا ۔دونوں ممالک
کے عوام کے درمیان تعلقات کی بہتر فضا قائم کر نے کے حوالے سے عابدہ کا
کہناتھاکہ دونوں ممالک کے عوام ہو ں یا میڈیا میں صحافی دونوں کو ایک دوسرے
کے ملک جا کر اپنے تجربات اور درپیش مساکے حل کے لئے تبادلہ خیال کر نا
چاہیئں۔عابدہ کا کہناہے خواتین کو آگے آنا چاہیئے انہیں ۔انہیں اپنی حقوق
کے لئے آواز بلند کرنا چاہیئے۔
اس بات سے انکار نہیں کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا بھی اہم
کردار ہو تا ہے۔اگر ان کی صلاحیتوں اور ہنر مند ی سے کام نہ لیا جائے تو
گھر ،معاشرہ،ملک اور دنیا میں ترقی کا تصویر ہلکا نظر آتا ہے ۔اس لئے انہیں
آگے آنے دیا جائے اور انہیں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ |