کیا ہمارا ضمیر واقعی مُردہ ہو چکا ہے؟

عنوان ذرا سنجیدہ ضرور ہے مگر ہے ہم سب کے رگ و جاں کے قریب کی باتیں۔ویسے بھی جس طرح میاں بیوی گاڑی کے دو پہیئے ہوتے ہیں اُسی طرح انسان اور اس کا ضمیر بھی ایک دوسرے سے پیوستہ ہی ہیں ۔ آیئے ہاتھ اُٹھائیں ہم سب بھی کہ کیا ہمارا ضمیر ہمیں ملامت نہیں کرتا ، مسئلہ چاہے جو بھی ہو ضمیر اگر زندہ ہو تو ٹھیک اور اگر مردہ ہو چکا ہو تو ملامت ضرور کرتاہے۔آج پاکستانی معاشرہ جس اخلاقی پستی کی دلدل میں تیزی سے دھنستا چلاجارہاہے ہمیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہم سب نے انسانیت کا لبادہ اُتارپھینکاہے اور حیوانیت کی رِدا اوڑھ لی ہے۔ہمارے اندر نہ کوئی شرم بچی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی غیرت و حمیت۔احساسِ ندامت جو جانے کب کا دم توڑ چکاہے اور ہمارا ضمیر تو جانے کب کا مرچکاہے بلکہ ہم نے ان کی تجہیز و تکفین بھی کر دی ہے۔اگر ایسانہیں ہے اور ہمارے اندر احترامِ انسانیت کی ذرا سی بھی رمق باقی ہے تو پھر ہمیں آج ہی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچنا چاہیئے کہ آخر ہمارے معاشرے میں اس وقت کیا ہو رہاہے۔صبح کو ناشتے کی ٹیبل پر یا انٹر نیٹ سرفنگ کے ذریعے کسی بھی اخبار کو دیکھئے یا پھر کوئی بھی نیوز چینل آن کرلیجئے تو بے قصور لوگوں کی اموات کی خبریں آپ کو ضرور ملیں گی،کراچی سے لے کر خیبر تک اور کوئٹہ سے لے کر کشمیر تک کوئی بھی جگہ ایسی نہیں بچی ہے جس میں اموات، خود سوزی، دہشت گردی، فرقہ بندی ٹارگٹ کلنگ اور نہ جانے کون کون سے مسائل ملیں گے اور ان سب کے پیچھے بے قصور لوگوں کا ناحق خون بہانے کی خبریں نہ ملیں۔اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں سے پورا ملک لپیٹے میں ہے ۔یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ معاشرے کے ان درندوں نے جنہیں جنگلوں میں بھی رہنے کا حق نہیں ہے، وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے معصوم لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی برائی اپنی تمام حدوں کو پار کرلیتی ہے اور حکومتیں اس برائی پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہیں یا حکومتوں کے ذمہ دار اس بارے میں اپنی بے حسی کا مسلسل مظاہرہ کرتے نہیں تھکتے تو عدالتوں کو سامنے آنا پڑتاہے اور انہیں ہی حکومتوں کا فریضہ از خود نوٹس کے ذریعے ادا کرنا پڑتاہے۔عدالتی ڈنڈا جب تک نہیں اٹھتا ہمارے ملک کے اربابِ اختیار و اقتدار کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔اس وقت وہ یا تو اپنا فرائضِ منصبی بھول چکے ہوتے ہیں یا برائیوں پر قابو پانے کی ان کی تمام تر صلاحیتیں ماند پڑ چکی ہوتی ہیں۔ان تمام معاملات پر کوئی بھی آواز نہیں اُٹھاتا،اور اگر کہیں سے آواز آتی بھی ہے تو پتہ نہیں کس طرح ان آوازوں کو دبادیا جاتاہے۔اس کی بھی ایک وجہ تو یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے یہاں جب بھی کسی قسم کا احتجاجی عمل کیا جاتاہے تو لوگ یا تو قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں، ملکی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ، تشدد اور خون خرابے کا راستہ چُنا جاتاہے اس کے بعد ہمارے ملک کی پولیس حرکت میں آتی ہے اور ان احتجاجوں کو اپنے خلاف بغاوت سمجھ لیتی ہے اور طاقت کا استعمال شروع کر دیا جاتاہے۔مظاہرین پر پولیس کی طاقت کا استعمال بھی اسی لئے کیا جاتاہے کہ وہ احتجاج کی آڑ میں قومی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ، ہو سکتاہے کہ وہ مظاہرین اس قسم کی حرکات میں ملوث نہ ہوں اور چند شر پسند عناصر ہی ایسے احتجاجوں کو غلط رنگ دے کر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہوں۔کیونکہ عام آدمی تو اہلکاروں کے سامنے بے بس ہی ہوتے ہیں اور وہ کچھ کر ہی نہیں سکتے سوائے آواز بلند کرنے کے۔لے دے کر حکومتوں پر ہی انحصار کیاجاتاہے لیکن جب حکومتیں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہیں تب عدالتوں کا ڈنڈا چلناشروع ہوتاہے۔حقیقتاً تو شر پسند عدالتوں سے بھی عدم ثبوت کی بناءپر بری ہو جایاکرتے ہیں اور یوں معاشرہ اور ان میں بسنے والے افراد یا عوام اس عفریت سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

اب چونکہ نئی حکومت آنے ہی والی ہے تو عوام کو یہ قطعی اُمید ہے کہ وہ اس طرف لازماً توجہ خاص کرے گی تاکہ عوام الناس کو ان فتنوں اور آفات سے نجات مل سکے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ” اقتدار کانٹوں کی سیج ہوتی ہے“اس میں کسی قسم کی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے واقعی کانٹوں کا بسترہے یہ اقتدار ، مگر ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کو تو مملکت کی باگ دوڑ چلانے کے لئے آگے آنا ہی پڑتاہے ۔اب اس کرسی پر کوئی بھی بُرا جمان ہو اس کا فرض ہوتاہے کہ وہ عوام الناس کے مسائل کو حل کرے، اور امیدِ قوی ہے کہ نئی حکومت بدرجہ اُتم مسائل کے انبار کو ختم نہ سہی مگر کم کرنے کی کوشش ضرور کرے گی۔کیونکہ جو حکومت عوام کے لئے ہمہ وقت سوچاکرے گی اور عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے گی وہی دوبارہ بھی عوام میں جانے کی حقدار ہوگی وگرنہ تو ابھی ہوئے تازہ تازہ انتخابات میں آپ سب نے کچھ پارٹیوں کا حشردیکھ ہی لیاہے۔ایسا اس لئے بھی ہوا ہے کہ انہوں نے عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں کیاالبتہ اب عوام باشعورہو چکی ہے۔انہیں اپنے اچھے اور بُرے کی تمیز کرناآگیاہے۔عوام کی زندگیاں آج الجھی ہوئی ہیں ملک کے چپہ چپہ میں مہنگائی،بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، کا عذاب اُمڈ چکاہے جو کہ عوام اور ملکی مفاد کے لئے بہت تشویش کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر کالم نویس اس کے روک تھام کے لئے اداریئے اور کالم لکھ کر حکمرانوں کی توجہ مسائل کی طرف دلانے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ور ویسے بھی یہ کالم نویس ہی ہوتے ہیں جو حکمرانوں تک مسائل کو تحریروں کی شکل میں پہنچاتے رہتے ہیں تاکہ اگر حکمران خوابِ غفلت میں بھی ہوں تو جاگ جائیں۔

ضمیر کے مردہ ہونے کی بات چل رہی ہے تو یہ بھی سمجھئے کہ آج مہنگائی کا جن بے قابو ہوا جاتاہے۔اور قیمتیں بڑھانے والے ارباب کا ضمیر بھی مردہ ہی ٹھہرا جب ہی تو وہ بجائے نرخ کم کرکے عوام تک پہنچانے کے نرخ میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔کون سی اشیاءایسی ہے جو عوام کے دسترس میں ہے ۔پیٹرول سے لے کر سوئی تک،ہر چیز میں گرانی کا بازار گرم ہے۔یہ تو بھلا ہو ان نگرانوں کا کہ جنہوں نے دو مہینوں میں لگ بھگ سات آٹھ روپے پیٹرول پر کم کر دیئے ہیں۔گو کہ یہ کمی آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر عوام یہ کہہ سکتی ہے کہ کسی کو تو خیال آیاکمی کرنے کا۔اس وقت نئے بجٹ کا مہینہ بھی آیا ہی چاہتا ہے اور اس سے پہلے نئی حکومت کی تاج پوشی بھی ہونے کو ہے۔اور تاج پوشی (حلف) کے فوراً ہی بعد انہیں بجٹ کا اعلان کرنا پڑے گا دیکھئے نئی حکومت کس طرح اس بجٹ کو فیس کرتی ہے۔ویسے جو حال ہم سب کا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،بس شعر پر ہی رو گردانی کر لیجئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کا ہو جائے گا۔
یارب! عتابِ عام بجٹ سے بچا عوام کو
گھر کے بجٹ کی، جیب کی، انکم کی خیر ہو
قیمت بڑھے نہ پیاز کی چینی کی پیٹرول کی اب
کپڑے کی، دال، روٹی کی شلجم کی خیر ہو

میرے خیال میں مردہ ضمیری کی یہ روداد بہت طویل ہو گئی ہے اور ظاہرہے کہ مردہ ضمیری کی یہ کہانی سب کو پسند بھی نہیں آنے والی، کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ”سُرخاب “ میں بھی خامیاں تلاش کرنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔بہرحال خدا سب مردہ ضمیروں کو عوام الناس کی بھلائی کے کاموں کو سر انجام دینے کی توفیق مرحمت فرمائے۔(آمین)
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.