دہشت گردی کہئیے یا جہاد گریٹ گیم ہے یا پختونوں کو مارنے کا عالمی منصوبہ
اپنوں کی کارستانی ہے یا عالمی طاقتوں کے خطے میں اپنے آپ کو ان کرنے اور
رکھنے کی کوشش یہ جو کچھ بھی ہے اس بارے میں کوئی کھل کر بات کرنے کو تیار
ہی نہیں نہ ہی سیاستدان نہ ہی ہمارے بہت کچھ سمجھنے کے دعویدار دانشور اور
نہ ہی وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اس سے نمٹنے کیلئے ہتھیار بھی ہیں جو بھی
کھیل جاری ہے اس میں فائدہ اور کسی کو ہو یا نہ ہو ہماری پولیس کو بہت
زیادہ ہے تنخواہیں تین گنا بڑھ گئی ہیں اختیارات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ
کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھائی کس کھاتے میں کسی غریب کو اندر کرکے دہشت
گردی کے الزام میں ڈال دیا جاتا ہے پولیس کے ٹارچر سیل چل رہے ہیں عدالت
عالیہ پشاور چیخ رہی ہیں لیکن پھر بھی کسی پر اثر ہی نہیں ہوتا -
سرکار کی طرف سے ملنے والے کالی وردی اور بیلٹ کی بدمعاشی اتنی ہے کہ انہیں
دیکھ کر کہ شریف آدمی بھی سر جھکا کر چلتا ہے امن و امان کی صورتحال ابتر
ہے کسی جیب کترے کو بھی پکڑ لیتے ہیں تو مک مکا کرنے کی کوشش میں ناکامی پر
دہشت گری کا الزام لگا دینا آسان ہے اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر غائب کروادینا
سب سے آسان کام ہے کسی کو یقین نہیں آتا تو گذشتہ تین سال سے اخبارات اور
ٹی وی پر چلنے والے خبریں دیکھ لیں کہیںپر یہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ
مفروروں کیساتھ مقابلہ ہورہا ہے ڈاکوئوں پکڑ لئے یا جیب کترا پکڑا ہے ہر
جگہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ دہشت گردوں کے گینگ کو گرفتار کرلیا مقابلے میں
دہشت گرد مارے گئے سب سے آسان کام ان کا یہی ہے کہ کسی کو دہشت گرد قرار
دینا اور پھر اسے مقابلے میں پار کردینا-اسی محکمے میں بہت کم لوگ ہیں جو
شریف ہیں اور واقعی انہیں اس محکمے میں کام کرنا چاہئیے اکثریت ایسے لوگوں
کی ہے جن کی نظریں دوسروں کے جیبوں پر لگی ہوتی ہیں الیکٹرانک میڈیا کے اس
دور میں زیادہ تر صحافی ایک دوسرے کو خبروں کے بارے میں انفارم کرنے کیلئے
موبائل میسج کا سہارا لیتے ہیں گذشتہ دنوں پولیس کی جانب سے ایک میسج آیا
کہ ہماری جوان پولیس فورس نے جناح پارک میں مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کرلیا
گیا تقریبا دس منٹ تک اس پیغام بھیجنے والے سے معلومات حاصل کرنے پر پتہ
چلا کہ مشتبہ دہشت گرد تو کوئی نہیں تھا البتہ ایک ہیرئونچی کو پکڑ لیا گیا
تھا جسے بعد میں یہ کہہ کر چھوڑ دیاگیا کہ یہ ہیرئونچی ہے -اس سے اندازہ
کیا جاسکتا ہے کہ ہماری بہادر پولیس فورس کیسے تیر مارتی ہیں -
دہشت گردی کے اس بڑے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ انہی پولیس والوںکا ہوا ہے
ان کی تنخواہیں تین گنا بڑ ھ گئی ہیں لیکن پھر بھی ان کے آنکھیں اور دل
نہیں بھرے اگر کسی دل جلے نے رشوت مانگنے پر جھگڑا کردیا تو پھر وہ اندر
ورنہ ان کے جہنم کی طرح موٹی پیٹوں کو بھرتے رہو دو دن قبل اتوار کے روز
نوتھیہ سٹاپ پر تھانہ گلبرگ کی دو پولیس موبائل اور ایک ٹریفک پولیس کی
گاڑی سڑک کنارے کھڑی تھی اور ہر آنے جانیوالے گاڑی کو روک رہی تھی ایک بس
سے ایک آدمی کو اتار دیا جو شکل سے ہیرئونچی لگ رہا تھا گاڑی میں بیٹھے
لمبی مونچھوں والے پولیس اہلکار نے اس غریب کی جیب کی تلاشی لی اور جیب سے
سینکڑوں روپے نکال دئیے جیسے یہ اس کے باپ کی کمائی ہو راقم اسے دیکھ رہا
تھا بھرے بازار میں ہونیوالے اس کھیل کو ہر کوئی دیکھ رہا تھا لیکن راقم
سمیت کسی نے یہ ہمت نہیں کی کہ اس غریب آدمی کا قصور کیا ہے اس کے بعد راقم
گھر جانے کیلئے مسافر گاڑی میں سوار ہواتو ٹریفک پولیس اہلکار نے اس گاڑی
والے کو روک دیا اورڈیمانڈ کی کہ سو روپے خرچہ دو اس نے انکار کیا اور گاڑی
یہ کہہ کر بھگا دی کہ اتنی مزدوری اتنی نہیں ہوئی کہ تمھیں بھی دو ایسے میں
اگر کوئی حالات سے تنگ شہری ان کیساتھ جھگڑا کرتا ہے یا فائرنگ کا کوئی
واقعہ ہوتا ہے تو پھر یہ شیر جوان اس طرح فائرنگ کرتے ہیں کہ راہ گیر اس کی
زد میں آکر جاں بحق ہو جاتے ہیں اس کی واضح مثال چار د ن قبل بڈھ بیر میں
پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونیوالا طالب علم ہے جو اپنے دوست سے ملنے گیا
تھا اور پولیس کی فائرنگ کی زد میں آکر مر گیا اس کا غریب والد لاش لیکر
گورنر ہائوس کے سامنے ااحتجاج کیلئے پہنچ گیا لیکن غریبوں کی کون سنتا ہے
اس مقابلے میں اگر کوئی پولیس ااہلکار مارا جاتا تو پھر قومی جھنڈے میں
لپیٹ کر شہاد ت کے اعلی درجے پر اسے فائز کیا جاتا کہ اس نے قوم کی خاطر
جان دیدی-پھر اس کو بعد از مرگ لاکھوں روپے بھی دئیے جاتے اور خاندانی
نوکریوں کے سلسلے میں باپ کے بعد بیٹے کو نوکری ملتی-
دوسری طرف ان کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ مختلف کیسز کو زبردستی لیٹ
کرواتے ہیں کہ شکایت کرنے والا یا تو اپنی شکایت سے ہٹ جائے یا پھر تحقیقات
میں اتنا وقت لیتے ہیں کہ تحقیقات کا وقت ہی ختم ہوجاتا ہے لوگوں کی حفاظت
کے ذمہ دار گاڑیوں میں تو پھرتے ہیں لیکن سیکورٹی دینے میں مکمل طور پر
ناکام ہیں بلکہ اب تو پشاور سمیت صوبہ خیبر پختونخواہ کے زیادہ تر تھانوں
کے باہر بڑی بڑی دیواریں بنا دی گئی ہیں کہ ان پر حملوں کا خدشہ ہے دوسروں
کو سیکورٹی فراہم کرنے کے دعویدارتھانوں میں چھپ کر زندگی گزارتے ہیں اوران
کے مزے اس طرح بھی ہیں کہ شہری ڈر کے مارے ان دیواروں سے گزرنے کی ہمت ہی
نہیں کرتے اوریہ چوری بھی کرتے ہیں خصوصا بجلی کی چوری کمی کمین ہزارں میں
بل دیتے ہیں لیکن انہیں بجلی میسر نہیں اور ہمارے ہاں خصوصا پشاور میں
مختلف تھانے بجلی چوری میں ملوث ہیں میٹر ریڈنگ نام کی کوئی چیز نہیںایسے
میںاگر کوئی اس حوالے سے بات کرے تو پھر جواب ملتا ہے کہ ہم تو اس ملک کے
کمی کمینوں کی خدمت کرتے ہیں- تبدیلی کے دعویدا تو آئے ہیں اب دیکھتے ہیں
کہ تھانہ کلچر اور پولیس سٹیٹ کو کس طرح تبدیل کرتے ہیں اس کا اندازہ تو
اگلے تین مہینے میں ہی ہو جائیگا - |