پاکستان کی فوجی کمان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان بچوں کو اغوا
کر کے ان کو اپنے خصوصی کیمپوں میں تربیت دے رہے ہیں تاکہ ان بچوں کو خودکش
حملوں کے لیے استعمال کریں- یہ حقیقت ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے
حصول کی خاطر ہر کام کر گزرتے ہیں۔ مگر آج کی دنیا میں بچوں کو خودکش حملہ
آوروں کے طور پر استعمال کیا جانا سب سے زیادہ وحشیانہ اور انسانیت سوز جرم
ہے- اس وقت سینکڑوں بچے طالبان کے قبضے میں ہیں، ان کا انجام بھیانک ہوگا
کیونکہ طالبان کا مقصد ایسے نوعمر خودکش حملہ آوروں کا جال بچھانا ہے جو ان
کی انگلی پر ناچیں-
طالبان کے ایک کیمپ سے کم از کم 200 لڑکے برآمد ہوئے تھے جن کو خودکش حملوں
کے لیے تیار کیا گیا تھا- صوبہ سرحد کے سابق سینئر صوبائی وزیر بیشر احمد
بلور نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف 6 سال ہے-
وزیر موصوف کے مطابق بچوں کے ساتھ بہلی بات چیت سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا-
بشیر احمد بلور نے کہا: "یہ بچے کسی کی بات نہیں سننا چاہتے، ان پر دہشت
گردوں کے اصلی مقاصد واضح کرنا نا ممکن ہے"- بچوں پر سخت نفسیاتی دباؤ ڈالا
گیا تھا اور انہیں یقین ہے کہ خودکش حملے کے بعد وہ سیدھے جنت میں جائیں گے-
ان کی اس حد تک برین واشنگ کی گئی تھی کہ بچے اپنے والدین کو بھی قتل کرنے
کے لیے تیار ہو گئے تھے-
طالبان ملک میں خودکش حملوں میں استعمال کرنے کیلئے معصوم بچوں کو اغوا
کرتے ہیں اور انہیں خودکش حملوں کیلئے تیار کیا جاتا ہے اس قسم کا ایک
واقعہ پشاور میں پیش آیا جہاں تیسری جماعت کی طالبہ سوہانہ کو پشاور سے
اغوا کیا گیا اور اسے لوئر دیر لے جاکر اسلام درہ چیک پوسٹ پر خودکش حملے
میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تاہم بچی نے شور مچا کر منصوبہ ناکام
بنایا۔ متاثرہ بچی نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ تیسری جماعت کی طالبہ ہے
گزشتہ روز پشاور سے دو خواتین اور ایک مرد نے اسے بے ہوش کرکے اغوا کیا اور
اس کے ساتھ موجود لوگوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کا کہا تھا لیکن جیسے ہی
ان لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اس نے شور مچا کر اپنی جان بچائی۔
دہشت گردوں کی جانب سے اکثر نو عمر لڑکوں کو بہلا پھسلا کر انہیں خودکش
بمبار بنانے کی کوششیں اب کوئی صیغہ راز نہ ہیں ۔شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی
ہے کہ دہشت گرد ، نوجوانوں کو نشہ کرانے اور رقم دینے کے ہتھکنڈے بھی
استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلال کے واقعے کو ہی دیکھ لیں۔ تحصیل
باڑہ کے علاقے قمبر خیل سے تعلق رکھنے والے اس 13 سالہ لڑکے کو عاشورا سے
صرف پانچ دن پہلے پشاور کے نزدیک گرفتار کیا گیا تھا اور اس سے قبل بم
ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں نے اس کے جسم پر بندھی ہوئی دھماکہ خیز مواد کی
جیکٹ اتار لی تھی۔ اسے مبینہ طور پر استعمال کرنے والے مومن ٹاؤن کے اسکول
استاد جہانگیر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں افراد
ایک دہشت گردانہ حملہ کرنے کی غرض سے موٹر سائیکل پر اکٹھے جا رہے تھے۔
بلال نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر نے اسے حملہ کرنے کے عوض 15 ہزار روپے
یعنی صرف 1 سو 56 ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی۔ اس کے علاوہ لکی مروت کے تین
لڑکوں کو جنہیں دہشت گردی کی تربیت دینے کے لیے وزیرستان لے جایا جا رہا
تھا۔ انہیں مبینہ طور پر استعمال کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
سابق وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا میاں افتخار حسین کے مطابق تینوں کم عمر
لڑکوں کو نشہ کرایا گیا تھا جس کی تصدیق طبی معائنوں سے بھی ہوئی ہے۔ بم
ڈسپوزل اسکواڈ کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس شفقت ملک نے کہا کہ حکام نے
ان لڑکوں کا منشیات کے سلسلے میں معائنہ کرانے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا کہ
خودکش جیکٹ اتارنے کے بعد جب حکام نے بلال کا معائنہ کیا تھا تو وہ نیم بے
ہوشی کے عالم میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں خودکش بمباروں کو
ٹیکے لگانا یا منشیات کا استعمال کرانا معمول کا حصہ ہے، تاکہ وہ آخری
لمحات میں اپنا ارادہ نہ بدل لیں۔
وحشی دہشت گرد نہ صرف اسلام بلکہ پاکستانی نسل کے مستقبل کو بھی سخت نقصان
پہنچا رہے ہیں۔ بھرتی کرنے والے اور بچوں کو خودکش حملوں کی ترغیب دینے
والے افراد غالباً سب سے زیادہ قابل نفرت اور قابل مذمت ہیں۔ ہمارے دین اور
سماجی ماحول میں انہیں انسان کہنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ وہ کسی رحم
کے مستحق نہیں ہیں۔
سابق صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین نے کہا ہے کہ اغوا کے نام پر
معصوم بچوں کو خودکش حملہ آور بنایا جا رہا ہے اور طالبان کمانڈر خودکش
بچوں کی بازار میں بکنے والی جنس کی طرح لین دین کرتے ہیں۔
طالبان اور القاعدہ سے منسلک ترکستان اسلامی پارٹی عرف اسلامی تحریک برائے
ترکستان پاکستان میں بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے کی مرتکب ہورہی ہے۔
حال ہی میں جاری ہونے والی ایک وڈیو میں 6 سال تک کی عمر کے کم سن بچے دہشت
گردوں کے ایک تربیتی کیمپ میں ہتھیار چلانا سیکھ رہے ہیں۔ اس کیمپ کے بارے
میں خیال ہے کہ یہ پاک افغان سرحد پر قائم ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان
کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا کہ یہ کیمپ موجود ہیں اور بچوں کو جہاد
کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔ ترجمان کی اس بات سے دیگر بین الاقوامی دہشت
گرد گروپوں سے طالبان کے تعلق کی مزید تصدیق ہو گئی۔ احسان نے کہا کہ لڑکے
طالبان کے مجاہدین اسکواڈ پر مشتمل ہیں جس میں انصار (مقامی) اور مہاجرین (غیر
ملکی) دونوں شامل ہیں۔
طالبانائزیشن ایک شیطانی آ ئیڈیالوجی کا نام ہے اور بقول طالبان کے وہ
پاکستان میں نام نہاد اسلامی مملکت کے قیام کے لئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔
اسلامی مملکت کے خلاف مسلح جدوجہد اسلامی شریعت کے تقاضوں کے سراسر منافی
ہے۔طالبان معصوم مسلمانوں اور پاکستانیوں کا دائیں و بائیں ، بے دریغ قتل
عام ،خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعہ کر رہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ
کیا جاسکتا ہے کہ ملک دشمن طاقتیں اور گروہ کس قدر سفاکیت اور درندگی پر
اتر آئے ہیں اور کس طرح انسانیت کی تذلیل اور ظلم روا رکھے ہوئے ہیں کہ ا
پنے شیطانی منصوبوں کیلئے لوگوں کے لخت جگروں کو استعمال کرتے ہیں۔یہ جرم
کرنے والے انسان نہیں ہو سکتے- ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہئے-
اگر واقعی ان کا مقصد اسلام کی سربلندی ہوتا تو یہ اسلامی اصولوں کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے درندگی کی انتہائوں پر پہنچ کر معصوم بچوں کو اغوا کرکے
خودکش حملے نہ کرواتے۔ الغرض اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ
پاکستان میں یہ مسلح گروہ اسلام کیلئے نہیں اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں
کے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کیلئے لڑ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ درندگی کی
انتہائوں کو پہنچ کر وہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جس کی اسلام میں تو کیا
دنیا کے کسی مذہب اور سماج میں گنجائش نہیں۔ دہشت گردی و خود کش حملے اسلام
کے بنیادی اصولوں سےانحراف اور رو گردانی ہے۔ بچوں پر ویسے بھی جہاد واجب
نہ ہے اور بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دینا ،جنگی جرائم کے زمرہ میں آتا
ہے۔
شریعت کے نام پر محدود فکر مسلط کرنے والوں نے وطن عزیز کو بدامنی کی طرف
دھکیل دیا ہے۔مٹھی بھر شر پسند عناصر کی وجہ سے پر امن پاکستان کا امیج
دنیا کے سامنے دھندلا گیا.بدقسمتی سے ایک اقلیتی گروہ اسلام کی خودساختہ
اور من پسند تشریح کے ذریعے اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کر رہا ہے .
جمہور کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ احادیث رسولؐ میں امیر کی اطاعت فی المعروف
کی بڑی تاکید کی گئی ہے، اس لیے اس کے خلاف تلوار نہ اُٹھائی جائے، کیونکہ
اس کی وجہ سے مسلمانوں میں خانہ جنگی، خوں ریزی اور فساد برپا ہوجائے گا
اور فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جائے گا جسے دوبارہ بند کرنا آسان نہ ہوگا۔
اس صورت حال سے فائدہ اُٹھا کر کچھ لوگ غارت گری اور رہزنی کا بازار گرم
کریں گے اور فاسق و ظالم حکمران کے مظالم و مفاسد سے زیادہ تباہ کن مفاسد
رونما ہوجائیں گے۔ اگرچہ فاسق کی حکمرانی ایک برائی ہے جس کو مٹانا ضروری
ہے لیکن ایک برائی کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس سے کئی گنا بڑی برائی
میں مبتلا کرنا نہ حکمت و دانش کا تقاضا ہے اور نہ دین و شریعت کا تقاضا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ مسجد بنانے کے لیے پوری بستی کو مٹا دیا جائے۔
طالبان بچوں کو اغوا کرکے اور انہیں خودکش حملہ آور بناکر جنگ کا ایندہن
بنا رہے اور اس طرح ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جو کہ
مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ ظلم اور ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
یہ آگ کل کو ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے ،اسی طرح ہمارے بچوں کے ساتھ
بھی ہوسکتا ہے اس لئے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اندھی جنگ سے
ملک و ملت کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ
لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ
حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان
اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی
کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل
ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور
وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی
جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ ۔۳۲) |