حالیہ انتخابات میں بطور خاص عمران خان او رعام طور پر
تمام سیاسی رہنماؤں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، عالم عربی میں بھی پچھلے
دوبرس سے تبدیلی کے نام پر کئی ملکوں میں حکومتیں تبدیل ہوئیں ، بعض میں
تاحال اس حوالے سے خونریز جد وجہد جاری ہے، اور بعض دیگر میں سیاسی قیادتیں
اس کے لئے پر تول رہی ہیں ۔۔۔ امریکہ ،روس ،چین ، فرانس اور ایران کے
انقلابات تاریخ میں بہت مشہور ہوئے، لیکن حقیقی تبدیلی یاانقلاب حکومتوں کی
برخاستگیوں سے نہیں آیا کرتے ،اگرچہ کچھ عرصہ تک کے لئے چہرے اورنعرے بدل
جاتے ہیں ،مگرمعاشروں میں ظلم ، انتہا پسندی ، رشوت، سفارش ، غربت وغیرہ کی
بیماریوں کا علاج نہیں ہوپاتا، اس لئے وہی انقلابی عوام اور تبدیلی چاہنے
والے نوجوان ایک قلیل مدت کے بعد پھر سے مایوسی کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوتے
ہیں ، اور شعلہ بداماں بن کر حکومتی ایوانوں کو جلادینے، بھسم کرنے اور خاک
وخون میں ملادینے کے لئے سر بکف نکل پڑتے ہیں ، عوام کے غیظ وغضب سے بدحواس
ہوکر نظام ہائے حکومت پھرسے گربھی جاتے ہیں ،نئے چہرے اور مہرے تختِ اقتدار
پر برا جمان بھی ہوجاتے ہیں ،مگر حقیقی تبدیلی پھر بھی نہیں آتی، آخروجہ
کیاہے؟
اگر بنظر غائر دیکھا جائے ،توبڑی آسانی سے معلوم ہوگاکہ تبدیلیاں جوکائنات
میں آتی ہیں، وہ خالق کائنات کی پیدا کر دہ فطری نظام کا حصہ ہیں،انسان
اپنی طبیعت میں جدت پسند اور عجلت پسند واقع ہواہے ،کسی بھی معاشرے میں جب
زمان ومکان کی جدت اور تغیرکے باوجود تبدیلی کے بجائے جمود آجاتاہے ، وہاں
گھٹن پیدا ہوجاتی ہے، عام طور پر یہی گھٹن انسانی سوسائٹی میں انقلاب کا
سبب بنتی ہے ، اگر انقلاب اسی گھٹن کے رد عمل میں آیاہے، تو اس سے ترقی
کہنا ہماری کم فہمی ہوتی ہے، ہاں اس سے اتناضرور ہوجاتاہے کہ تنگی اور حبس
کے بجائے آبادیوں میں ارتعاش آجاتاہے،جویک گونہ تفریح طبع ،اور سکون کا
’’بادل چھٹنے تک‘‘ باعث بنجاتاہے، اسکے بعد وہی تاریکی ،ظلم وظلمت ،
ناانصافی ، حقوق کی پامالی ،تکبر ،عناد ، لاقانونیت اور خون ریزی ۔
حقیقی تبدیلی ایک مثبت عمل ہے ،رد عمل نہیں ، جو انسان کے اندر فکر ونظر کی
تبدیلی سے آتی ہے، جب تک قلب وجگر اور سوچ ودماغ میں انقلاب نہیں آئے گا،
زبانی جمع خرچ سے اس کی توقع رکھنا عبث اور بے کار ہے، خالق کائنات نے اسی
راز کو طشت ازبام کرنے کے لئے فرمایا:’’ کہ اﷲ تعالی کسی قوم میں تبدیلی اس
وقت تک نہیں لاتے جب تک وہ خوددل ودماغ کے اعتبار سے متبدل ومتغیر ہونانہیں
چاہتی ہو‘‘ ،اس نکتہ کو جورہنما سمجھے اور اپنے اندر انسانیت کی فلاح
وبہبود کے لئے سوچ کا انقلاب برپا کردے ،وہ اس لائق ہے کہ اپنی عوام سے
ببانگ دھل کہہ د ے، میں نے خود کو یوں بدلاہے، تم لوگ بھی اسی طرح اپنے آپ
کو بدلو۔
پیغمبر وں کی سیرتیں اپنی اقوام کے لئے آخر کیوں نمونہ ، اسوہ ، اور قدوہ
ہوتی ہیں ، کہ انہوں نے سب سے پہلے تبدیلی کا آغاز اپنی مبارک ذات سے
کیاہوتاہے، چناں چہ یہ ایک پیمانہ ہے،اب تبدیلی چاہنے والے اپنے آپ او
راپنے زعماء کو اس کسوٹی پر پرکھیں ، اگروہ اس پر پورا اترتے ہوں ، تب تو
وہ نئے پن کے نعرے لگائیں ، ورنہ دھوکہ کھائینگے ۔
موجودہ دنیامیں جہاں جہاں ترقی ہے، اسے ہمارے یہاں کے نوجوان دیکھ کر اور
سن کر اسی طرح کی ترقی وارتقاء کیلئے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ،انہیں یہ
سمجھنا چاہئے کہ بنیادی چیز فکرونظر ہے، عمل اور انتظام وانصرام اس کے
ثمرات ہیں ،فکر ونظر میں پختگی کے لئے ملکوں ،خطوں اور معاشروں کو بڑے پاپڑ
بیلنے پڑتے ہیں ، اور طویل جدوجہد کرنی ہوتی ہے،اسی لئے کہا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے یہاں آپ کومسجد کے ممبر ومحراب سے لے کر پرنٹ والیکڑانک میڈیا تک میں
کہاں فکری استحکام نظر آتاہے، ہمارے سیاستدانوں میں مفکرین کتنے ہیں، تھنک
ٹینک کا تو نام ہی ہمارے یہاں اجنبی ہے، لہذا جب تک ہم میں سے ہر فرد
،فیملی ، ادارہ ، محکمہ ، اتھارٹی ، جماعت، فرقہ، محلہ ، علاقہ ، ضلع، صوبہ
اور پورا ملک اندر سے حقیقی تبدیلی کی کوشش نہیں کرینگے ،صرف حکومتوں کی
تبدیلیوں یاخالی خولی نعروں سے انقلاب لائینگے ،تو ایں خیال است ومحال است
وجنوں۔
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشاہے رازی نہ صاحب ِکشاف |