منزل اسکی منتظر ہے

انسان کی توقعات کا محور جب بھی انسان ہوگاتوشکست وریخت اسکامقدر ہوگی۔ناامیدی ‘بے کیف زندگی اوربوجھل قلب اس کا اثاثہ ٹھہرے گا ۔

اکثر لوگوں کو کہتے سناہے کہ فلاں تو بہت برا نکلا۔فلاں نے نقاب اوڑھ رکھاتھا‘فلاں شخص کے لہجے پر حیرت ہوئی ۔خدا کے بندوں بے عیب ذات صرف مالک کائنات کی ہے۔اور معصوم فقط انبیاء۔خامی انسان کی سرشت میں شامل ہے وہ کبھی کامل ہوہی نہیں سکتامعدودے ان چند لوگوں کے جنہیں رب نے نوازاہو۔

میرے ہم وطن ‘ہمسایہ ممالک اور کم وبیش دنیا کے تمام افراد کبھی کسی ایک شخص سے سلطنت کی ترقی وبقاء کی اُمید باندھ لیتے ہیں تو کبھی دوسرے سے اور شاذونادر ہی کوئی انکی توقع کہ مطابق پورا اُترا ہو۔ نجانے کیوں ہم ہر بار منہ کی کھانے کہ باوجود آفاقی ادیان ہی کو کیوں جھٹلاتے رہتے ہیں۔ہم سے تو اچھے پھر کارل مارکس کی شخصیت کے آگے سجدہ ریز ہونے والے متعقد ہیں جنہوں نے اپنے قائد کے حکم کے مطابق عمل کیا ۔اور آج بھی سرگرم عمل ہیںاور کارل مارکس کے ہی بنائے ہوئے نظام میں بقاءڈھونڈتے ہیں۔ہم نے تو چند ٹکوں کی خاطرجہاد جیسے نیک فریضہ کو دہشت گردی کا روپ دے رکھا ہے اور الزام سارے کا سارا غیر کے سرتھوپتے نہیں تھکتے۔معاملہ ایک ہی ہے کہ کیمونسٹ کی توقع کارل مارکس سے نہیں ہٹی ‘جب کہ ہم آفاقی ادیان کے پیروکار ہونے کے باوجود اس سے عملاانکار کرتے ہیں ۔ہماری امیدوں کا محور مادی اشیاءہیں ۔ہم علت اورمعلو ل کے فلسفہ ہی میں پھنسے ہیں اور اُسوقت تک دھنسے رہیں گے جب تک ہماری اُمیدوں کے ڈانڈے ساتویں آسمان پر موجود خالق ارض وسماءسے پکے نہیں بندھ جاتے۔

ہم اس لمحے تک کبھی جمہوریت ‘کبھی بادشاہت‘کبھی سرمایہ دارانہ اور کبھی جاگیردارانہ نظام کی چکی میں پستے رہیں گے۔

فرانس کا خونی انقلاب ایک نپولین لے آیاجس نے یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔سرمایہ دارانہ نظام سے امید رکھنے والوں نے ہٹلر کو توکچل دیالیکن اب تمام دنیاوی اشیاءسے لیس گھروندے میں ایسے رہ رہے ہیں جیسے زندگی ہی کسی سے لیز پر حاصل کی ہو۔مشرق کے لوگوں کے دیدے کھلے رہ جاتے ہیں جب وہ مغرب میں جمہوریت کو دیکھتے ہیں لیکن وہاں کی کسک ‘ہوک‘اور شکستہ دل محض آنکھ رکھنے والوں کو نظر آتے ہیں ‘وہ جانتے ہیں کہ کیسے ایک مخصوص طبقہ یاخاندان پوری کائنات کے وسائل پر قابض ہے ‘انہیں علم ہے کہ وال سٹریٹ صرف معیشت کے بازار میں نہیں بلکہ عبادت خانوں میں بھی راج کررہی ہے‘اسکاکوئی عقیدہ ومذہب نہیں یہ ہوس ہے بس ہوس‘انسانی خون کی دشمن ‘چارآسمانی کتابوں کی حریف۔کیسے ممکن ہے کہ جب انسان کے ہاتھوں میں قانون بنانے کی اجازت دی جائے اور وہ انسان اپنامفاد ملحوظ خاطرنہ رکھے۔سادہ لوح عوام کو تو چکمہ دیاجاسکتاہے کہ ”عوام کی حکومت ہے“لیکن اہل نظر کی آنکھوں کو کون خیرہ کرے گا؟ یہ جمہوریت کاعفریت شاید سزا ہواس خطاءکی جب انسان نے خدا کو اقتدار اعلی سے بے دخل کرناچاہا۔وہ زلزلہ پروف مکان توبناءسکتاہے ‘فالٹ لائن سے کوسوں دور محلات توتعمیر کر سکتاہے لیکن ذراسوچے کہ زلزلہ کیوں نہیں روک سکتا؟ا نسان سمندری طوفان کے وجوہ اور آمد کا تعین کرسکتاہے لیکن اس کی روک تھام کیوں نہیں کرلیتا؟ وہ یہ سب کچھ کر کہ اپنی عقل سے توقع رکھتاہے اور یہ سوچنے کی توفیق اسے نہیں ملتی کہ عقل اسے کس نے عطاءکی ۔اپنی عقل پرنازاں لوگ نجانے کیوں پاگلوں میں فعال دماغ کیوں نہیں رکھ دیتے؟؟ کاش انسان مادی اشیاءسے توقعات ہٹالے تو منزل اسکی منتظرہے۔

انسان کی توقعات کا محور جب بھی انسان ہوگا‘شکست وریخت اسکامقدر ہوگی۔ناامیدی ‘بے کیف زندگی اوربوجھل قلب اس کا اثاثہ ٹھہرے گا ۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174680 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.